افشین عثمان
نبیٔ رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جس شخص نے تین لڑکیوں اور تین بہنوں کی سرپرستی کی، انہیں تعلیم و تربیت دی اور ان کے ساتھ رحم کا سلوک کیا، یہاں تک کہ خدا انہیں بے نیاز کردے تو ایسے شخص کے لیے خدا نے جنت واجب فرما دی‘‘۔ اس پر ایک آدمی بولا: ’’اگردو ہوں؟‘‘ تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’دو لڑکیوں کی پرورش کا بھی یہی صلہ ہے‘‘۔ حضرت ابن عباسؓ فرماتے ہیں کہ اگر لوگ ایک کے بارے میں پوچھتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک کی پرورش پر بھی یہی بشار ت دیتے۔ (مشکوٰۃ)
افسوس! آج بھی ہمارا اسلامی معاشرہ جس ڈھب کی پیروی کرتا ہے اس سے زمانۂ جاہلیت کی روایات کی بو آتی ہے۔ بیٹی جب جنم لیتی ہے تو اکثر گھرانوں میں آج بھی خوشی کی وہ کیفیت دیکھنے میں نہیں آتی جو بیٹے کی پیدائش پر ہوتی ہے۔ بیٹی کی پیدائش پر مبارک سلامت کے تبادلے تو کجا، والدین کے چہرے لٹکے ہوئے ہوتے ہیں۔ اس کی آمد بوجھ تصور کی جاتی ہے۔ اگر گھر میں دوسری، تیسری یا اس سے زیادہ بار بیٹی کی پیدائش ہو تو کچھ لوگ دبی زبان سے اور کچھ کھل کر دل دُکھانے والے تبصرے کرنے لگتے ہیں۔ درحقیقت بیٹیوں سے حسنِ سلوک روا نہ رکھنا اور اس کی پیدائش کو باعثِ عار سمجھنا جہالت کی علامت ہے۔
پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بیٹی والوں کو خوش خبری دیتے ہوئے فرمایا:
’’جب کسی کے ہاں لڑکی پیدا ہوتی ہے تو خدا اس کے ہاں فرشتے بھیجتا ہے جو آکر کہتے ہیں کہ ’’اے گھر والو! تم پر سلامتی ہو‘‘۔ وہ لڑکی کو اپنے پروں کے سائے میں لے لیتے ہیں اور اس کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہتے ہیں ’’یہ کمزور جان سے پیدا ہوئی ہے، جو اس بچی کی نگرانی اور پرورش کرے گا، قیامت تک خدا کی مدد اس کے شاملِ حال رہے گی۔‘‘ (طبرانی)
اسلام نے بیٹی کو نحوست کے بجائے ابرِ رحمت قرار دیا، اس کی ولادت کو ماں باپ کے لیے مسرت وشکر کا باعث ٹھیرایا۔ بیٹی کی پیدائش پر ناک بھوں چڑھانا اور دل شکستہ ہونا اطاعت شعار مومن کو زیب نہیں دیتا۔ یہ ناشکری ہے۔ زمانۂ جاہلیت میں بھی بیٹی کی پیدائش پر باپ غیرت کے مارے اسے زندہ درگور کردیتا۔ لیکن اسلام آیا تو اس نے عورت کو بحیثیت ماں، بہن اور بیٹی بہت عزت دی اور بتایا کہ بیٹی ذلت کی پوٹ نہیں، سعادت کا سرمایہ ہے… بیٹی ٹھکرانے کی چیز نہیں، استقبال کرنے کی چیز ہے… بیٹی اللہ کا انعام ہے… آپ کی بیٹی آپ کی جنت ہے اور جہنم سے آپ کے لیے آڑ ہے… آپ کے گھر جب بیٹی جنم لے تو خوشی منایئے اور اس سعادت اور انعام پر فخر کیجیے… اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کی جنت آپ کے گھر بھیج دی اور جہنم سے بچنے کی کنجی آپ کو دے دی۔ اگر کسی کے گھر میں ایک یا ایک سے زائد بیٹیاں ہیں تو کیا اس سے بڑھ کر کوئی فخر کی بات ہوسکتی ہے، کہ آپ کو بیٹی کی بدولت رسولِ پاک صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک نسبت اور مشابہت حاصل ہے۔ فخرِِ موجودات حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم بھی بیٹی والے تھے اور آپ بھی بیٹی والے ہیں۔
حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس کائنات میں سب سے افضل، سب سے برتر، سب سے عظیم اور سب سے زیادہ اللہ سے قریب ہیں۔ آسمان کی آنکھ نے نہ انؐ سے افضل و اعلیٰ انسان دیکھا ہے نہ کبھی دیکھ سکتی ہے… اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم بیٹی والے تھے، تو پھر آپ بیٹی والے ہوکر حقیر کیوں ہوں گے! آپ کا سر نیچا کیوں ہوگا، اور معاشرے میں آپ ذلیل کیوں ہوں گے! رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے والا مسلمان معاشرہ اگر بیٹی والے کو حقیر و ذلیل سمجھتا ہے تو یہ بدترین قسم کی گستاخی، عبرت ناک قسم کا ظلم اور انتہائی افسوس ناک قسم کی جہالت ہے۔ رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے نسبت جوڑنے والے مسلمان معاشرے کو کسی طرح زیب نہیں دیتا کہ وہ اس طرح کا طرزِِ فکر رکھے، اور اسلام کو اپنا دین کہنے کے باوجود اپنی افلاس کا ثبوت دے۔ یقینا آپ کے لیے یہ بات انتہائی فخر و مسرت کی ہے کہ آپ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم بھی بیٹی والے تھے اور آپ بھی بیٹی والے ہیں۔ اس نسبت پر آپ جتنا فخر کریں، کم ہے۔
مگر یہ ہرگز نہ بھولیے کہ آپ کو یہ نسبت حاصل ہے تو نسبت کی لاج رکھنا بھی آپ کا کام ہے۔ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیٹی کے ساتھ جو سلوک کیا ہے، انؐ کی پیروی میں آپ بھی وہی سلوک کریں اور بیٹی کی اس طرح قدر کریں جس طرح رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے کی۔ بیٹی کے سلسلے میں ایک بہت نازک ذمہ داری اور انتہائی اہم حق یہ ہے کہ آپ اچھی جگہ اُس کا رشتہ کریں۔ اور کبھی بھی کسی دبائو، لالچ، جہالت اور ناعاقبت اندیشی سے بچی کی زندگی تباہ نہ کریں۔ اگر آج آپ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوۂ حسنہ کے مطابق بیٹی کی تربیت کی توکل یہ بیٹی آپ کے لیے جنت ہوگی۔ یاد رکھیے بیٹی سے محبت سنتِ رسولؐ، اور اس کی پیدائش پر غم کرنا کافروں کا طریقہ ہے۔