اسامہ امیر
عرفان شہود 16 اپریل 1982 کو پنجاب کے شہر عارف والا میں پیدا ہوئے۔ ایم بی اے کے بعد ایک ملٹی نیشنل فوڈ کمپنی میں جاب کی اور سیاحتی سرگرمیوں سے پورے ملک کے خوب صورت حصوں کو تصاویری شکل اور سفرناموں کے ذریعے لوگوں کو پہنچایا۔ کالم نگاری کے ساتھ ساتھ نظم لکھتے ہیں اور نظم میں کلاسیکل شعرا اور دور جدید کے تخلیق کاروں سے متاثر ہیں۔ جمالیات اور فطرت سے گفتگو اور ان کے مشاہدات کی عکس بندی ان کی نظموں میں نمایاں ہیں۔ نظموں کی پہلی واردات 1999 میں اداس، مسافر کے نام سے لکھی۔آئیے ان کا کلام پڑھتے ہیں۔
جدید ماورائی حد بندی
خلقتِ دھر نے یہ جو پرکار سے کھینچ رکھے ہیں سب دائرے
احتجاجاً میں اِن کو نہیں مانتا
یعنی ِاٹلی کی سڑکوں سے جتنے بھی سیاح
ہنزہ کے پربت کو چھونے کی خاطر گھروں سے چلیں
اُن کو یہ سرحدی بیریئر روک لیں
اور ڈھاکا میں نوشاد نوری کی بیٹی اگر پھر سے لاہور آنے کو ترسے تو قدغن لگے
غار کے آدمی کی یہ تہذیب کتنی اکائیوں میں تحلیل ہوتی گئی
گویا باڑہ ہے بھینسوں کا، چاروں طرف بانس سے بندھے
پھر تو ایسا ہے جتنی سمندر میں ہیں مچھلیاں وہ بھی پابند ہوں
اور اُڑتے ہوئے سب پرندوں کی سرحد بنے
رسیوں سے جکڑ لیجیے روشنی چاند کی
پھیلتی خوشبوؤں کے دھن بند ہوں
کرہ ارض پہ یار جینے بھی دو
آسمانوں پہ بستے ہوئے چند رب کے فرشتوں نے ہامی بھری
تو بنائوں گا دھرتی کی صورت نئی
کھینچ دوں گا زمیں کے میں سر سے نئی مانگ کا بیریئر
اک طرف ہوں گے خورشید کو دوزخی آگ کا ہمنوا کہنے والے بشر اور دوجی طرف،روشنی،آدمی، جھیل، پربت،شجر
٭
تعبیر
ان گنت کہکشاؤں کے جھرمٹ نے بے انتہا دائرے بُن دیے
اور پاتال میں جذب رنگوں نے اُگلے کئی ہلہلے
اپنے تابوت میں خود سے ہیبت زدہ، جبر کی زندگانی میں جیتا رہا
یوں جمالِ سحر، زرد سورج کے ہاتھوں میں گِروی رہا
کسمساتے بدن کے جنوبی طرف تازیانوں کی برسات جاری رہی…
اور شمالی طرف سنگ باری سے اُدھڑی ہوئی کھال پر
زندگی کی یہ تمثیل لکھی گئی
میں تو بس وقت کی جیل میں قید تھا
اور تصور میں تھی لہلہاتی ہوئی خوشنما زندگی
یعنی شندور کی بُھر بُھری گھاس پہ بیٹھ کے میچ پولو کے دیکھا کروں
اور قہوہ کی چسکی لگاتے ہوئے سارتر کو پڑھوں
قہقہوں کے تَمّوْج میں رقصاں رہیں نطقِ تخلیق کے بے کراں زمزمے
پر تصور تو آخر تصور ہی ہے
دم بہ دم پھیلتے رقص کرتے خیالات کے سلسلے ساتھ چلتے ہوئے یک بہ یک رک گئے
چار سُو گویا پھر ایک دیوار تھی
سانس لینے کی کوشش بھی بے کار تھی
نادرا کے خلاف جماعت اسلامی کا دھرنا
خالد قریشی
عوام کے مسائل حل کرنے کے لیے جماعت اسلامی کراچی نے نادرا ہیڈ آفس میں دھرنا دیا جو کہ بلاشبہ اپنی مثال آپ تھا۔ کراچی‘ خاص طور پر اورنگی ٹائون کے غریب لوگوں کے شناختی کارڈ کے دیرینہ مسئلے کو جس طرح جماعت اسلامی کراچی نے حافظ نعیم الرحمن کی قیادت میں اجاگر کیا وہ قابل ستائش ہے۔
سب سے اہم بات جو مجھے نظر آئی کہ عموماً پروگرام ختم ہوتے ہی لوگ گھروں کی طرف روانہ ہو جاتے ہیں اور مرکزی قائدین بھی وہاں سے نکل جاتے ہیں لیکن اس دھرنے میںعجیب منظر دیکھنے کو ملا۔ اورنگی ٹائون اور دور دراز سے آنے والی خواتین محترم حافظ نعیم الرحمن امیر حلقہ کراچی کو اپنے مسائل اور پریشانیوں سے آگاہ کرتی رہیں اور حافظ نعیم الرحمن صاحب بھی ان خواتین کی پریشانیوں اور مسائل کو بغور سنتے اور ان کے حل کے لیے اپنے بھرپور تعاون کی یقین دہانی کراتے رہے۔ اس موقع پر خواتین انہیں جھولی پھیلا کر دعائیں دے رہی تھیں۔ یہ دیکھ کر مجھے 1990ء کی دہائی یاد آگئی کہ کس طرح کراچی کے غریب عوام کو حقوق کے نام پر پر الطاف حسین نے بے وقوف بنایا اور عوام کے حقوق پر ڈاکا ڈالا گیا۔ آج اگر عوام نے جماعت اسلامی کی قیادت پر بھروسہ کیا ہے تو یہ بھی اللہ کا خاص کرم اور قائدین کا عوام کے مسائل کے حل کے لیے ان کے ساتھ کھڑے ہونے کا نتیجہ ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہمقامی سطح پر بھی عوام کے ساتھ رابطہ کیا جائے اور انہیں یقین دلایا جائے کہ جماعت اسلامی بلا رنگ و نسل و زبان آپ کے ہر مسئلے کے حل کے لیے آپ کے شانہ بشانہ کھڑی ہوگی۔