زبان اور لطفِ زبان

1616

(دوسری اور آخری قسط)
کسی بھی نئی شے کو وجود میں لانا بلاشبہ آسان کام نہیں، لیکن میرے نزدیک اس سے مشکل کام اس شے کا صحیح صحیح استعمال ہے۔ زبان کس طرح ارتقائی منازل طے کرتے ہوئے وجود میں آئی ہوگی؟ واقعی تحقیق طلب معاملہ ہے، اور یقینا اس کے بناؤ سنگھار میں صدیاں لگی ہوں گی، لیکن اس کے استعمال کی جانکاری صدیوں سے بھی زیادہ وقت مانگتی ہے۔ بولنے کو تو پرند چرند سبھی بولتے ہیں مگر بولنے والے بہت ہی کم ہیں، جیسے سننے والے بہت ہیں لیکن سمجھنے والے شاذ شاذ۔ غور کریں، کسی کے کچھ پوچھنے پر جو جملہ عام طور سے سننے کو ملتا ہے وہ یہ ہے ’’ابھی بتاتا ہوں‘‘۔ اس جملے کو سننے کے بعد ایسا لگتا ہے جیسے کوئی دم بعد کمرے کا دروازہ کھلے گا اور جس سے سوال کیا گیا ہے وہ باہر نکلے گا، ایک زوردار گھونسہ مار کر منہ توڑ کر چلا جائے گا۔ اگر کسی لکھاری یا محقق سے پوچھا جائے کہ تمہارے مضمون یا رپورٹ کا کیا ہوا؟ تو عام طور پر یہی جواب ملتا ہے کہ میں ’’مواد‘‘ جمع کررہا ہوں۔ یہ جملہ سن کر یوں لگتا ہے جیسے کوئی پھوڑا یا ناسور ہے جو ابھی ابھی پھٹے گا اور اس میں سے خون اور پیپ بہنا شروع ہوجائے گی۔ یہاں ’’مواد‘‘ کے بجائے ’’لوازمات‘‘ کی اصطلاح بھی استعمال کی جا سکتی ہے جس میں پوری معنویت بھی ہے اور طبیعت گراں بار ہونے سے بھی بچ جاتی ہے۔
کہاوتیں، محاورے اور روزمرہ کا درست استعمال تحریر کو پُرکشش اور نہایت عمدہ بنادیتا ہے۔ یہ بات بھی یاد رکھنے کی ہے کہ کہاوتیں ہوں، محاورے ہوں یا روزمرہ… ان میں بہت تحقیق و گہرائی، اور بزرگانِ ادب کی بہت عرق ریزی شامل ہے۔ مثلاً ایک محاورہ ہے ’’گرگِ باراں دیدہ‘‘۔ اس کو عام طور پر نہایت زیرک اور چالاک انسان کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ اس کے استعمال میں نزاکت یہ ہے کہ چالاکی میں دنیا کی ساری خباثتیں ہونا شرط ہے، مگر اس بات کا خیال کم کم ہی رکھا جاتا ہے۔ سائنسی تحقیق سے ثابت ہے کہ بھیڑیا بارش سے بہت گھبراتا ہے اور دورانِ باد و باراں وہ اپنے بھٹ سے باہر نہیں نکلتا۔ اب تصور کیجیے اُس بھیڑیے کا جو دورانِ بادو باراں میں بھی نڈر اور بیباک ہوجائے تو کیا ہوگا اس کی سفاکی کا عالم! اب اگر اس محاورے کو محض اور محض چالاکی کے معنوں کے بطور لیا جائے تو عبارت کا کیا حسن رہ جائے گا!
اگر کوئی انسان نہایت ظالم اور سفاک ہو تو اسے بھیڑیا صفت انسان کہا جاتا ہے۔ کیوں؟ اسے شیر، چیتا، گینڈا یا کسی اور درندے سے تشبیہ کیوں نہیں دی جاتی؟ تحقیق شدہ بات ہے کہ ہر درندے اور جانور کی جدا جدا صفات ہوتی ہیں۔ بھیڑیا اپنے شکار کے ساتھ جس درندگی کا سلوک کرتا ہے اور اس کے جس طرح ٹکڑے ٹکڑے اور بوٹی بوٹی کر ڈالتا ہے، وہ اپنی مثال آپ ہے۔ اسی طرح کسی بہادر انسان کو شیر اور کسی طاقتور کو گینڈے سے تشبیہ دی جاتی ہے۔ تو گویا ایسا سب کچھ ان جانوروں کی تحقیق کی طے شدہ صفات کی بنیادوں پر ہی کہا جاتا ہے۔ بعینہٖ ایسی برق رفتاری جس میں پھرتیلا پن بھی شامل ہو، اسے چیتے کے مثل… بہت زیادہ اور فضول باتیں کرنے والے کو کوّا… اور ناآشنائے نشیب و فراز کو اللہ میاں کی گائے کہا جاتا ہے۔ گویا لمبی چوڑی تمہید باندھنے کے بجائے ایک ہی لفظ میں کسی کی مکمل تصویر کھینچ کر رکھ دینا ہی حسنِ بیان ہے۔ لفظ ’’کھینچ‘‘ پر مرزا غالب کی غزل کے دو اشعار ملاحظہ ہوں:

نفس نہ انجمنِ آرزو سے باہر کھینچ
اگر شراب نہیں انتظارِ ساغر کھینچ
تجھے بہانہ راحت ہے انتظار اے دل
کیا ہے کس نے اشارہ کہ ناز بستر کھینچ

عام طور پر یہ ہوتا ہے کہ ظاہری معنوں کو سامنے رکھتے ہوئے تشبیہات سے مستفید ہونے کی کوشش کرتے ہیں، لیکن یا تو اس کوشش میں ان کے مخفی معانی کو بھول جاتے ہیں یا بہت آسان لے لیتے ہیں، جن سے شاید ایک عام قاری یا سامع تو بہت محظوظ ہوجاتا ہے لیکن ایسے بہت ہیں جن کی گراں باری کا ادراک ہر فرد کے لیے آسان نہیں۔
گفتگو اور تحریر میں محاوروں، کہاوتوں اور روزمرہ کا استعمال عام بھی، اور اس سے بات چیت اور تحریر کا حسن بھی دوبالا ہوجاتا ہے، مگر شعرا نے بھی وہ وہ فن کاریاں دکھائی ہیں کہ دل جھوم جھوم اٹھتا ہے۔ ذیل میں ہم چند اشعار بطور حوالہ درج کررہے ہیں، ملاحظہ کیجیے:

محبت میں نہیں ہے فرق جینے اور مرنے کا
اسی کو دیکھ کر جیتے ہیں جس کافر پہ دم نکلے
ضعف سے گریہ مبدل بہ دم سرد ہوا
باور آیا ہمیں پانی کا ہوا ہو جانا
جو ابر تھا تو اسے ٹوٹ کر برسنا تھا
یہ کیا کہ آگ لگا کر ہوا روانہ وہ
زندگی اک فقیر کی چادر
جب ڈھکے پاؤں ہم نے، سر نکلا
گو ترکِ تعلق تھا مگر جاں پہ بنی تھی
مرتے جو تجھے یاد نہ کرتے کوئی دن اور
چار دن گر زندگانی اور ہے
اپنے دل میں ہم نے ٹھانی اور ہے

دیکھا گیا ہے کہ دو یا دو سے زیادہ اشیا کو ملا کر کسی بھی تیسری چیز کو وجود میں لانا ایک دقت طلب مسئلہ رہا تھا، اور شاید ہمیشہ رہے گا۔ اس سے بحث نہیں کہ اس کا تعلق رنگوں کے امتزاج سے ہو یا ایک سے زیادہ کرداروں کی حامل کسی بھی کہانی یا ناول سے۔ یہاں تک کہ دو لفظوں کو ملاکر ایک لفظ بنانے کا مرحلہ بھی کوئی کم پیچیدہ نہیں۔ دو لفظوں کا مرکب بنا لینا شاید پھر بھی کچھ آسان ہو لیکن اس کا درست استعمال شاید اس سے بھی زیادہ نازک کام ہے۔ ذیل میں ہم اسی قسم کے کچھ الفاظ اور ان کے استعمال کا جائزہ لینے کی کوشش کرتے ہیں۔
’’ہم زلف‘‘ یہ مرکب لفظ ایک رشتے کو ظاہر کررہا ہے۔ بیوی کی بہن کا شوہر۔ کوئی بتائے کہ کیا یہ مرکب لفظ بیوی کی سگی بہن کے علاوہ بھی کسی اور کے لیے استعمال ہوسکتا ہے؟ ایک لفظ ہے ’’وارفتہ‘‘، گویا مرکب ہوا ’’وا اور رفتہ‘‘ کا۔ وا کا مطلب ہے ’کھولنا‘ اور رفت یا رفتہ کا مطلب ہے ’چلنا‘۔ وا اور کھولنا اگر دو الفاظ ہیں تو ہم معنی ہونے کے باوجود ایک دوسرے سے کچھ نہ کچھ امتیاز ضرور رکھتے ہوں گے۔ کھولنے کے مفہوم میں ابہام پایا جاتا ہے۔ مثلاً اس میں یہ وضاحت نہیں ہے کہ کسی بھی چیز کو کتنا کھول دینا کھولنے کے معنوں میں شمار کیا جائے گا۔ مثلاً دروازے کو ہی لیا جائے تو اس کی زنجیر کو کھول دینا بھی دروازہ کھول دینے کا مفہوم پورا کردیتا ہے، جبکہ وا کردینے کا مطلب ہے دروازے کو پورے کا پورا کھول دینا۔ بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ اس میں دل سے دی گئی اجازت کا پہلو بھی شامل ہے تو بے جا نہ ہوگا۔ اب ذرا وارفتہ کو عالمِ وارفتگی کی آنکھ سے دیکھیے۔ ’’کھلی ہوئی رفتار‘‘ یعنی ایسی چال سے چلنا جس میں دل و دماغ کا ہر تعلق ختم ہوچکا ہو۔ آپ خود ہی اندازہ کرلیجیے کہ وہ چلنا کس طرح کا ہوگا! کیا ایسی رفتار پر کوئی بند باندھا جا سکتا ہے؟ ماہرالقادری کی نعت کا ایک شعر ملاحظہ ہو:

وا رفتہ و بیچارہ در ماندہ و ناکارہ
دربار میں حاضر ہے اک شاعر آوارہ

کچھ مرکب الفاظ اور مرکب الفاظ کے حامل محاوروں کو ہم ان کے ظاہری معنوں میں لینے کی سنگین غلطی کے مرتکب ہوجاتے ہیں۔ مثلاً ’’میز لگانا‘‘ ایک محاورہ ہے، جس کا مطلب ہے کھانا چننا یا کھانے کے اہتمام کی تیاری کرنا، لیکن سہواً ہم میز کو کسی خاص مقام پر رکھنے یا سجانے کے مفہوم میں استعمال کرلیتے ہیں۔ ایک لفظ ہے ’’زمانہ ساز‘‘ جس کے معنی ہیں چالاک، عیار یا موقع پرست۔ لیکن اکثر ہم اسے ’’زمانہ بنانے والا‘‘ کے معنوں میں لے لیتے ہیں جو قطعاً غلط ہے۔ ایک شاعر نے اسے سہواً کتنے غلط معنوں میں لیا ہے:

جب چاہا ہم نے وقت کے تیور بدل دیے
ہم خود زمانہ ساز ہیں ہر اعتبار سے

دیکھا آپ نے کہ شاعر نے نادانی میں کس بات کا اعتراف کرلیا، جبکہ وہ کہنا کچھ اور ہی چاہ رہا تھا۔ یہی وہ نزاکتیں ہیں جن کا خیال ہر ہر لمحہ رکھنا بہت ضروری ہے، جس سے نہ صرف آپ کا حُسنِ کلام و بیان نکھرتا ہے بلکہ آپ کی زبان دوستی کا اظہار بھی ہوتا ہے۔
’’زمانہ ساز‘‘ کا درست استعمال جوش ملیح آبادی کے ان اشعار میں ملاحظہ کیجیے:

جو بن پڑے گا تو سب سے سزا دوں گا
زمانہ ساز تجھے میں یہ بد دعا دوں گا
ملے نہ آتشِ دوزخ کی تجھ کو نرم سزا
ملے وہ سوز جو ہوتا ہے شاعروں کو عطا

اپنی زبان کو نکھار دینے، محفلوں کی جان بننے، لوگوں کے دلوں میں گھر بنانے اور دنیا میں مقام پیدا کرنے کے لیے بس اتنا ہی کرنا ہے کہ ہر ہر لفظ کی اٹھان کا خیال رکھا جائے اور پھر دیکھا جائے کہ دنیا کیسے مثلِ پروانہ فدا ہوتی ہے۔

حصہ