آج اور کل

273

عطیہ جمال

دنیا میں کب کل آتی ہے
آج ہی کل میں ڈھل جاتی ہے

صاحبو! بہت دن غور کیا، کل اور آج کا یہ چکر ہمیشہ سے چل رہا ہے۔ خود قرآن بھی ’’کل کی فکر‘‘ کی طرف رہنمائی کرتا ہے۔ اس کا مفہوم یہ ہے کہ ’’کامیاب ہوا وہ، جس نے کل کی فکر کی۔‘‘
تو یوں کائنات میں حضرتِ انسان کی آمد کے ساتھ ہی آج اور کل کا چکر ہمیشہ سے ہے۔ پہلے انسان پتھر کے دور میں رہتا تھا جب بھی آج اور کل کا چکر انسان کے ساتھ تھا، آج بھی ہے اور کل بھی رہے گا۔ رفتہ رفتہ وقت آگے سرک گیا، کچھ ثقافتی، تہذیبی، معاشی، معاشرتی، تعلیمی ورثہ اور اقدار بدل گئیں۔ ہر میدان میں بدلائو ہے، آج کل مکان پکے بنتے ہیں، کل گارے اور کچی اینٹوں اور چونا ملا کر بنائے جاتے تھے۔ حرکت میں زندگی ہے اور رکنا موت ہے۔ وقت کے ساتھ ہر موقع پر تبدیلی نظر آتی ہے اور آنا بھی چاہیے، مگر مثبت ترقی ہو، منفی نہیں، یہ ہے غور طلب بات۔
مثلاً پہلے ہماری مائیں، بڑی بہنیں اور خالائیں گھریلو امور کی انجام دہی اور بہتر معاشرت کے لیے عورت کو ہر ہنر میں ماہر دیکھنا چاہتی تھیں۔ مگرآج کل ’’بازار میں سب ملتا ہے‘‘ کا نعرہ خوب پروان چڑھ چکا ہے۔ یوں گلی گلی، کوچے کوچے نان نہاری اور درزی اور دیگر انواع کی دکانیں دیکھنے کو ملتی ہیں۔ اس طرح اس مشینی زندگی نے انسان کو بھی مشین کا ایک بے جان پرزہ بنا ڈالا ہے جس میں انسانیت کے لیے کوئی حس باقی نہیں ہے۔
ماں، باپ کل رحمت، نعمت اور خدا کا انعام سمجھے جاتے تھے، جب کہ آج کل سنگل فیملی کا نعرہ ہے۔ مختصر فیملی کا خوب صورت نعرہ، جس کا اندر بہت خوف ناک ہے۔
آیئے ذرا اور آگے بڑھتے ہیں۔ چلتے چلتے اور نئی باتوں کا ادراک کرتے ہیں کہ زندگی کے اس میدان میں سماج نے کہاں فطری، ثانوی نظریات سے پہلوتہی کی اور کہاں مادی اور غیر فطری نظریۂ حیات کو پروان چڑھایا ہے۔
نظامِ تعلیم، نظامِ معاش، معاشرے کی اخلاقی بنیادیں، غرض کہ ان سارے پہلوئوں سے سماج متاثر دکھائی دیتا ہے۔
پہلے انسان تعلیم شعور اور آگہی کے لیے حاصل کرتا تھا، جبکہ آج معیارِ مطلوب صرف پیسہ کمانا ہے… یہی ہے ناں…؟ تعلیم کا روحانی پہلو تو دور کہیں رہ گیا ہے۔
معاشرت میں پہلے صبح جلدی اٹھنے کا رواج تھا، آج راتیں جاگتی ہیں اور دن سوتے ہیں۔ 12 بجے سے پہلے کسی گھر میں صبح نہیں ہوتی۔ یہ ساری باتیں غور طلب ہیں۔
حیا کا چلن ختم ہوچکا ہے، پہلے جو ہنر تھا وہ اب عیب بن چکا ہے۔ اخلاقی اور روحانی بنیادیں ہل چکی ہیں۔ بولڈ پن، بے حیائی اب اچھے کہلاتے ہیں۔ آیئے دیکھتے ہیں کہ ہم کہاں کہاں اپنا نقصان کرچکے ہیں۔ ہم کل کہاں تھے… اور آج کہاں کھڑے ہیں؟
اولاد کی تربیت میں ہم نے اپنی اقدار کا خیال رکھنا بھی چھوڑ دیا ہے۔ پہلے بزرگوں کے منع کرنے سے بچے مان جاتے تھے، مگر آج کل بچے منہ کو آتے ہیں، یوں بوڑھے کندھے مزید جھک جاتے ہیں اور خود سے سوال کرتے ہیں کہ ہم کہاں غلط تھے؟
سماجی رویوں میں عدم برداشت بھی سرفہرست ہے۔ ہم گاڑی میں بیٹھے ہیں، دوسرے کو راستہ دینا اور خود تکلیف اٹھانا اب دیکھنے کو نہیں ملتا۔ تصویر میں ساری خرابی ہی نہیں بہت کچھ اچھا بھی ہے۔ سائنسی ترقی نے دنیا کو آپ کی اور ہماری انگلیوں پر رکھ دیا ہے۔ سائنسی ترقی اور سوشل میڈیا نے دنیا کو گلوبل ولیج بنا ڈالا ہے۔ بہت دور بیٹھے ہوئے بھی منٹوں میں اطلاع پہنچ جاتی ہے کہ کب، کہاں، کیا واقعہ پیش آیا۔
ہم اگر بحیثیت مسلمان اس ترقی کے مثبت پہلو پر غور کریں تو فائدہ ہے، ورنہ میرے نزدیک اس دجالی اور فتنے کے دور میں اس کی فسوں کاریوں پرغور کریں اور انسان کو پہنچنے والے نقصان پر بھی غور کریں۔
انسان کی ترقی سڑکوں اور پلوں کی تعمیر سے نہیں بلکہ انسان کے بلند معیارِ زندگی اور بنیادی سہولیات کی فراہمی، خوراک، سر چھپانے کے لیے چھت میسر دیکھ کر پتا چلتی ہے۔
آج کل دولت چند ہاتھوں میں مرتکز ہوگئی ہے۔ حکمران طبقہ دیوالیہ پن کا شکار ہے، مزید یہ کہ اپنے آپ کو امیرالمومنین کہلانے کا شوق ہے مگر پیروی ندارد۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے رہنمائی حاصل کرنا ان کے لیے بڑا مشکل ہے۔ آیئے فکر کریں اس وقت کی، عمل کے لیے راہ تلاش کریں کہ کل ہم سے اور مجھ سمیت سماج کے ہر فرد سے یہ سوال کیا جائے گا کہ کیا امانتیں تم نے اہل افراد کے سپرد کردی تھیں؟ کل کے لیے جمع کرنے اور کل کی تیاری کے لیے کیا کیا اور کیا نہیں کیا؟ آیئے آج ہی فکر کریں۔
اسی سبب ابتدا میں دیا گیا شعر دہرائوں گی

دنیا میں کب کل آتی ہے
آج ہی کل میں ڈھل جاتی ہے

آیئے کل کی فکر کریں، جو آج ہی کرنی ہے جب سرمایۂ وقت آپ کے اور میرے ہاتھ میں ہے۔

حصہ