ہمہ جہت ، ہمہ صفت اور فخر ادب ، فخرالدین بلے کی بازیافت کا سفر

718

خالد معین
فخر الدین بلے کون ہیں ؟ یہ سوال یقینا نئے ہزاریے میں سامنے آنے والی تخلیقی نسل کے لیے نیا ہوگا ۔ساٹھ ،ستر ،اسی اور نوئے کی دہائیوں سے تعلق رکھنے والی نسلیں اس سوال کا جواب قدرے آسانی سے دے سکتی ہیں ۔البتہ جہاں تک میرا معاملہ ہے ،میں فخر الدین بلے صاحب سے ناواقف بھی نہیں اور اُن سے مکمل طور پر آشنا بھی نہیں ۔میں اُن سے کبھی نہیں ملا ،میں نے اُنہیں کبھی نہیں دیکھا ،اس کے باوجود وہ کسی نہ کسی حوالے سے تواترکے ساتھ میرے سامنے آتے رہے ،یہاں تک کہ میں نے اُنہیں جاننے کا فیصلہ کیا ۔ ویسے توپوری طرح تو کسی کو بھی جاننا ممکن نہیں ہوتا ۔البتہ جسے جاننے کی خواہش ہو اُس کے بارے کچھ بنیادی معلومات بھی میسر آجائیں ، اوراُ س کی شخصیت کے چند نمایاں پہلوئوں اور تخلیقی روش کی اساس تک رسائی ہوجائے توکسی حد تک اُس تخلیق کار سے ایک سرسری ملاقات کی صورت ضرور بن جاتی ہے ۔
میں یاد کرتا ہوں کہ فخر الدین بلے صاحب کا نام پہلی بار کہاں سنا ،کہاں پڑھا اور کہاں اُن کا پہلا حوالہ میرے سامنے آیا ۔یہ بات کچھ پرانی سہی ،تاہم اب بھی میری یادداشت سے محو نہیں ہوئی ۔جی ہاں ! مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ میں نے فخر الدین بلے صاحب کا نام اُن کے صاحب زادے اور کمال کے صاحب زادے آنس معین کے ساتھ پڑھا ۔مضمون انور سدید صاحب کا تھا ۔موضوع آنس معین کی شخصیت،خود کشی اور زرخیز شاعری تھی ۔ممکن ہے میں سن میں کچھ اوپر نیچے کر جائوں لیکن یہ انیس سو ستاسی ،اٹھاسی کا دور رہا ہوگا ۔کچھ تو انور سدید صاحب کی جادو بیانی اور کچھ آنس معین کی تازہ کاری اور گہری انفرادیت کی عکاس غزلیں اور کچھ میری اپنی بد حواسیاں اور وحشتیں ،پھر یوں ہوا:

انجام کوپہنچوں گا میں انجام سے پہلے
خود میری کہانی بھی سنائے گا کوئی اور

میں آنس معین کی کہانی اور شاعری شہر بھر کو سناتا رہا ۔اس مضمون میں پچیس تیس شعر درج تھے اور وہ سب کے سب مجھے حفظ ہوگئے تھے اور جہاں میں ملنے جلنے والوں کو میر ،غالب ،مومن ،آتش ،فراق ،یگانہ ،ناصر کاظمی ،منیر نیازی ،عزیز حامد مدنی ،شکیب جلالی ،جون ایلیا اورعبید اللہ علیم کے ساتھ اسی کی دہائی کے ہم عصر شعرا کے شعر سناتا ،وہاں آنس معین کے شعر بھی سناتا ۔وہ دور بھی بڑا خوب صورت تھا ،ابھی شعروادب کراچی میں اپنی فطری اہمیت کے ساتھ سماجی زندگی کا حصہ بنا ہوا تھا ۔خیر ! آنس معین کے ساتھ پہلی بار فخر الدین بلے صاحب بھی میرے حافظے کا حصہ بنے ۔میرے پہلے مجموعے ’بے موسم وحشت کی پہلی اشاعت ‘ انیس سو نوئے میں ہوئی، سحر انصاری صاحب نے اس کتاب کے دیباچے میں،جہاں اور بہت سی باتیں کیں ،وہیں میری لکھی ہوئی ایک مختصر نظم پر بھی بات کی ،یہ نظم ’نذر ِ آنس معین ‘ تھی ۔سحر صاحب نے اس نظم پر کم و بیش کچھ یوں لکھا ’اپنے آدھے ہم نام آنس معین پر خالد نے جو مختصر سی تاثراتی نظم لکھی ہے ،وہ یقینا قاری کو متاثر کرے گی ،آنس معین نے کم عمری میں زندگی کے گردو پیش کو بڑی تیزی سے سمجھا اورزندگی کی تیز آنچ پر کمال کے شعر لکھے‘اگر وہ اور جیتا تو جدید شعرو ادب کو مزید خوب صورت شعر دیتا‘ ۔یوں میرے اور آنس معین کے درمیان ایک مضبوط تخلیقی رشتہ استوار ہوگیا ۔ جواں سال آنس معین کی خود کشی نے مجھے اندر باہر سے جھنجھوڑ دیا تھا اور وہ میرے لیے ایک افسانوی شخصیت بن گیا تھا،لیکن ایک بند کتاب کی صورت ،اسی لیے میں آنس معین کے بارے زیادہ سے زیادہ جاننے کی جست جو میں رہا ،اسی حوالے سے فخر الدین بلے صاحب بھی میری دل چسپی کا محور ٹھہرے۔ یہ دونوں ذاتی زندگی میں کیسے تھے ،اسی طلب میں ملتان سے کراچی آنے والے شعرا سے آنس معین اور فخر الدین بلے صاحب کے بارے میں گاہے گاہے بات ہوتی رہی ۔میں بھی جب جب ملتان گیا تو وہاں کے اہم لکھنے والوں سے آنس معین اور بلے صاحب کے بارے میں کچھ نہ کچھ نئی معلومات ملتی رہیں ۔پھر آنس معین کے بھائی اور معروف شاعر ظفر معین بلے سے برسوں قبل کراچی ہی میں رابطے کی ایک صورت بن گئی اور یوں پہلی بار میں اس تخلیقی خاندان سے براہء راست رابطے میں آیا ۔تاہم ظفر معین بلے کی تہذیبی اور خوب صورت شخصیت ایک بند دروازے کی طرح لگی ،یعنی اندر جانے کا کوئی راستہ موجود نہیں ۔اب یہ ظفر بھائی کا اپنا موڈ ہے کہ وہ مقابل کو کتنا راستہ دیتے ہیں لیکن یہ بات طے ہے کہ کوئی بھی اجنبی اُن کے اندر بغیر اجازت داخل نہیںہو سکتا ۔یہی صورت اس خاندان کے ایک اور معروف لکھاری اور شاعر علی معین کی بھی ہے ۔میں چند برس قبل جب’ ایکسپریس نیوزچینل‘ پہنچا تو وہاں علی معین کو قریب سے دیکھنے کا اتفاق ہوا ،لیکن مجھے سخت حیرت ہوئی کہ ظفر معین بلے کی طرح علی معین نے بھی اپنی اندر داخل ہونے والے تمام دروازوں پر بہت موٹے موٹے تالے لگا رکھے ہیں اور وہ ان تالوں کو کھولنے کی کوشش تو کجااُنہیں چھونے والوں سے بھی اچانک کوئی درشت رویہ اختیار کر سکتے ہیں ،اس لیے سال ڈیڑھ سال ایک ہی بلڈنگ میں رہتے ہوئے ،ایک ہی کینٹین میںلنچ کرتے ہوئے اور ایک دوسرے سے سرسری واقفیت کے باوجود میں علی معین کے اندر نہیں جھانک سکا ،ایک دو بار آنس معین کا ذکر چھیڑا تو اُن کے چہرے پر اچانک ناپسندیدگی کے کئی رنگ آئے اور چلے گئے ، یوںمیں نے فوراً بات بدل دی ، کیوں کہ میں کسی سے پہلے ہی سُن چکا تھا کہ علی معین کے لیے آنس معین کا ذکر سخت جذباتی کیفیت کا حامل ہے ،اس لیے وہ اس سے گریز کرتے ہیں ،اورکوئی نہ مانے تواس سے کوئی کلمہ ء سخت بھی کہہ جاتے ہیں ۔اس لیے میں علی معین کی آشفتہ مزاجی سے ڈرا رہا اور آتے جاتے ہم جب بھی ملتے انتہائی تہذیب اور اخلاق کا مظاہرہ کرتے دعا سلام ضرور کرتے ، پھر حال احوال لیتے اور اپنا اپنا راستہ لیتے ۔علی معین نے سجاد علی اور دیگر گلوکاروں کے لیے کئی مشہور سونگ لکھے ، اورکئی ہٹ ٹی وی سریلز بھی لکھیں ، وہ ایک زمانے سے کراچی میں میڈیا کی اہم شخصیت بنے ہوئے ہیں ۔یہی صورت ہمارے ظفر معین بلے کی بھی ہے ،وہ شبنم رومانی اور اُن کے ادبی جریدے ’اقدار ‘ سے جڑے رہے ،ٹی وی ڈرامے لکھتے رہے ،کراچی اور لاہور کے بڑے ادبی جریدوں اور بڑے اخبارات کے ادبی صفحات سے منسلک رہے ،کبھی کبھی کراچی کی ادبی تقریبات میں بھی اُن سے ملاقات ہوئی مگر بے تکلفی تودور کی بات اُن کے بارے میں بنیادی معلومات کا بھی علم نہیں ۔البتہ اُن کی توجہ ،اپنائیت اور شفقت ہمیشہ محسوس کی ۔
اس پس منظر سے آپ سمجھ گئے ہوں گے کہ فخر الدین بلے صاحب کے بارے میں میری واقفیت کا دائرہ ،اتنا ہی محدود ہے ،جتنا آنس معین کے بارے میں ہے ۔لیکن اس بار میں نے فخر الدین بلے صاحب کے بارے میں کچھ نہ کچھ بنیادی حوالوں تک رسائی کی کوشش کا فیصلہ ضرور کیا اور اس سفر میں چاہے کچھ فاصلے سے سہی، آپ بھی میرے ساتھ اُنہیں تھوڑا بہت ضرور جان سکتے ہیں ۔
چھ اپریل 1930 ء کو ہاپوڈ(انڈیا )میںپیدا ہونے والے ہمہ جہت اور سرگرم تخلیق کار فخر الدین بلے صاحب نے جامع الاردو،اردو کامل ،ادیب فاضل ، علی گڑھ ،مسلم یونی ورسٹی سے کیا ، جب کہ وہیں سے ایف ایس سی ،بی ایس سی ،ایم ایس سی (جیا لوجی ) کی ڈگریاں بھی امتیازی نمبروں سے حاصل کیں۔ وہ تقسیم کے بعد پاکستان چلے آئے ۔کراچی ،ملتان ،لاہور ،اسلام آباد اور دیگر شہروں میں مختلف کلیدی سرکاری عہدوں پر فائز رہے ۔اُن کا بنیادی شعبہ ِ تعلقات ِ عامہ رہا اور فخر صاحب اپنے شعبے کے نمایاں ترین اور کام یاب ترین شخصیت شمار کیے جاتے ہیں ۔شعرو ادب اُن کا اوڑھنا بچھونا رہا ،اردو ،فارسی اور انگریزی زبانوں پر کامل مہارت حاصل تھی ،صحافت سے بھی گہری اور عملی وابستگی رہی اُنہوں نے کئی صدور ،وزرائے اعظم اور دیگر سرکاری شخصیات کے لیے تقاریر لکھیں ۔ ذولفقار علی بھٹو جیسے زیرک اور بلند نگاہ والے عظیم سیاست داں بھی فخر الدین بلے کی شخصیت اور مہارت کے شیدائی رہے ۔ بلے صاحب کا ملتان اور لاہور میں طویل قیام رہا اور یہیں اُنہوں نے علمی ،ادبی اور تہذیبی شعبوں میں نمایاںکا کردگی بھی دکھائی اور معتبر ترین علمی ،ادبی اور تہذیبی شخصیات کے دلوں کو مسخر کیا ۔
بلے صاحب نے ادبی اور ثقافتی تنظیم ’قافلہ ‘ بنائی ،جو برسوں لاہور کے دانش وروں، شعرا اور ادبیوں کے لیے رابطے کا مشترکہ پلیٹ فارم بنی رہی ۔بیرون ِ شہر اور بیرون ِ ملک سے آنے والے مہمان شعرا اور ادبیوں کے لیے بھی ’قافلہ ‘ ادبی پل کا کام کرتی رہی ۔اس سلسلے میں اُن کا گھر ایک گھنا سائبان بنا رہا اور شعر وادب سے وابستہ قافلے یہاں آتے رہے ،رکتے رہے اور تازہ دم ہوکے رخت ِ سفر باندھتے رہے ۔ اُنہوں نے زمانہ ء طالب ِ علمی کے دوران علی گڑھ سے ایک جریدہ ’جھلک ‘ جاری کیا ۔ وہ مسلم لیگ یونی ورسٹی علی گڑھ کے مجلے ’دی یونین ‘ کے ایڈیٹر بھی رہے۔ جب کہ زمانہء طالب ِ علمی میں وہ بڑے متحرک طالب ِ علم رہے ،تقریری اور تحریری مقابلوں کے ساتھ، وہ مباحثوں اورمشاعروں میں بھی نمایاں رہے لیکن یہ سرسری سی معلومات یقینا ناکافی ہیں ۔ اب فخرالدین بلے کون ہیں ؟تلاش کے اس سفر میں بلے صاحب کے دو قدیم اور قریبی آشنا ہماری مدد کریں گے ۔یہ دنوں حضرات علی گڑھ یونی ورسٹی میں فخر الدین بلے صاحب کے کلاس فیلو اور یونی ورسٹی فیلو ہیں ،خود بھی شعرو ادب کے معروف نام ہیں ،آئیے! دیکھتے ہیں ،
وہ ہمیں کیا بتاتے ہیں۔پہلے چلتے ہیں ڈاکٹر فوق کریمی علیگ کی جانب جوعلی گڑھہی میں قیام رکھتے تھے۔وہ کہتے ہیں :
’سیاہ گھنگھریالے بال، بڑی بڑی آنکھیں اور ان پرکشش آنکھوں میں سرخ ڈورے، میانہ قد، دامنِ دل کو اپنی طرف کھینچ لینے والے خال و خد، سیاہ شیروانی، علی
گڑھ کٹ پاجامہ، چہرے پر مسکراہٹ، گفتگو میں بلا کر ٹھہراؤ، لفظوں کا خوبصورت چناؤ اور ان میں معانی کا الاؤ۔دھیما لب ولہجہ ، طبیعت میں نفاست،مزاج میں تحمل، فکر میں گہرائی، خیال میں رعنائی۔یہ ہے وہ سید فخرالدین بلے ،جس سے مسلم یونیورسٹی علی گڑھ میں میری پہلی ملاقات ہوئی۔ اس ملاقات ہی میں اُس نے مجھے اپناکرلیا۔دوستی کے لیے برسوں کی رفاقت ضروری نہیں۔بعض اوقات صدیوں کے فاصلے لمحوں میں طے کرلیے جاتے ہیں اور کبھی کبھار ایسا ہوتا ہے کہ برسوں ملتے رہنے کے باوجود قربتوں میں فاصلے برقرار رہتے ہیں۔ سید فخرالدین بلے کی شخصیت میں کوئی ایسا مقناطیس ضرور تھا کہ ہم دوست احباب کیا؟ اساتذہ تک اس کی طرف کھنچے چلے آتے تھے۔ جو اُس سے ایک بار مل لیتا، ملنے کا اشتیاق وہ اُس میں جگا دیا کرتاتھا اور دوچار ملاقاتوں میں ہی صدیوں کا سفر لمحوں یا دنوں میں طے ہوجاتا اور اس طرح دیکھتے ہی دیکھتے فخرالدین بلے کا حلقہ احباب بڑھتا چلاگیا‘۔ یہاں تک تو بلے صاحب کی شخصیت کا ایک دھندلا سا خاکہ ضروربنا لیکن تشنگی مزید بڑھ گئی ۔اب اسی سلسلہ ء کلام کو ایک نئے رُخ سے آگے بڑھاتے ہیں،یہ گفت گو بھی ڈاکٹر فوق کریمی صاحب ہی کی ہے۔’ بھائی قمر رئیس اس کے قدردان ہیں۔ کہتے ہیں بلے ہندوستان سے پاکستان چلاگیالیکن اس کے نصیب کی ہجرتیں ابھی باقی ہیں۔اسی لیے کبھی پتا چلتا ہے کہ وہ کوئٹہ میں ہے۔ کبھی سنتے ہیں اس نے قلات اور خضدار میں ڈیرے ڈال رکھے ہیں۔ کبھی اطلاع آتی ہے کہ اس نے پاکستان کے وفاقی دارالحکومت کو اپنا بسیرا بنارکھا ہے۔ کبھی لاہورسے اس کی سرگرمیوں کی خبریں پہنچتی ہیں۔ اس کے پاؤں میں چکر ہے۔ بھائی قمر رئیس یہ بھی چاہتے ہیں کہ بلے کی شخصیت اور فن کے حوالے سے منظم انداز میں کوئی تحقیقی کام ہوناچاہئے۔ محض کچھ نظمیں اورغزلیں لے کر ان کی بنیاد پر مضامین لکھنے کافی نہیں۔
)جاری ہے)

حصہ