ہرکام سلیقے سے کریں

528

ارم فاطمہ
صبح سکول جانے کا وقت تھا۔ سمیر اپنے کمرے میں ادھر ادھر بکھری کتابیں سمیٹ کر بیگ میں ڈال رہا تھا جب اسے امی کی تیسری آواز سنائی دی جو اسے ناشتے کے لیے بلا رہیں تھیں۔ وہ اسے روز تیار کرتیں اور بیگ تیار کرنے کا کہہ کر ناشتہ بنانے چلی جاتیں تھیں اور پھر آوازیں دیتیں رہتیں تھیں۔ سمیر کو بیگ تیار کرنے میں اتنی دیر لگ جاتی تھی کہ اکثر وہ بغیر ناشتہ کیے اسکول چلا جاتا تھا۔ اس کی امی اسے کتنی بار سمجھا چکیں تھیں کہ پڑھنے کے پعد اپنی بکھری کتابیں سمیٹ کر بیگ رکھ دیا کرو۔ اس سے وقت کی بچت ہوگی اور صبح وقت پر ناشتہ کر کے اسکول بھی جا سکو گے۔
مگر اسے ہر روز یہی مسئلہ ہوتا۔ کبھی اسکول جانے میں وقت کی کمی کا مسئلہ تو کبھی دوست کے گھر بوقت نوٹس لینے جانے کا۔۔۔ وجہ یہی تھی کہ اسے وقت پر کام کرنے کی عادت نہیں تھی اور نہ اس بات کا خیال رہتا کہ کون سا اہم کام پہلے کرنا چاہیے۔ اسے وقت کی قدر نہیں تھی۔
ایک بار ایسا ہوا کہ اسکول میں کلاس ٹیچر دسمبر ٹیسٹ کی تیاری کروا رہے تھے۔ سب بچے بہت محنت سے پڑھ رہے تھے۔ ارشد نے ایک دن چھٹی کرنے پر سمیر سے انگلش کی کاپی لی اور اس سے کہا شام کو گھر پہ آ کر لے لینا۔ سمیر نے شام کو سوچا اگلے دن اسکول میں کاپی واپس لے لوں گا۔ اگلے دن ارشد اسکول نہیں آیا۔ سمیر نے اس کے گھر جا کر معلوم کیا تو پتا چلا کہ وہ اپنے چچا کے گھر گیا ہے۔ سمیر دو دن انگلش کا کام نہیں کرسکا۔ اسے اپنی سستی پر بہت افسوس ہوا۔
دسمبر کے امتحانات شروع ہو چکے تھے۔ سمیر رات کافی دیر تک پڑھتا رہا۔ صبح اسی طرح جلدی جلدی میں تیار ہوا اور اسکول چلا گیا۔ پیپر شروع ہوا۔ سوالات لکھنے کے لیے اس نے جیومیٹری بکس کھولا تو اس میں مارکر نہیں تھا۔ وہ بے حد پریشان ہوا۔ اسے یاد آیا وہ جلدی میں بیڈ بر چھوڑ آیا ہے۔ اس نے کلاس سر کو بتایا تو وہ کہنے لگے اب کیا ہو سکتا ہے۔ ایسے ہی بغیر ہیڈنگ کے پیپر لکھ لیں اور اگلے پیپرز میں یاد سے لے کر آئیں۔
سمیر خاموشی سے بیٹھ گیا اور پیپر لکھنے لگا۔
اگلے دن میتھ کا پیپر تھا۔ صبح جب امی نے اسے ناشتے کے لیے آواز دی تو سمیر پہلی ہی آواز پر سیڑھیاں اترتا ناشتے کی میز پر پہنچا۔ امی نے خوشگوار حیرت کے ساتھ مسکراتے ہوئے اسے دیکھا تو وہ کہنے لگا ۔
“امی میں جان گیا ہوں طریقے اور سلیقے سے کام کرنے سے انسان بہت سی پریشانیوں سے بچ جاتا ہے۔ اسی لیے میں نے رات پڑھنے کے بعد ہی اپنا بیگ سکون اوراطمینان سے تیار کرلیا تھا۔۔ آج بیگ میں سب کچھ موجود ہے اور مجھے کوئی پریشانی نہیں ہوگی۔”
امی ابو دونوں اسے مسکرا کر دیکھنے لگے۔ وہ خوش تھے کہ بالآخر سمیر وقت کی قدر کو پہچان گیا تھا۔

شفق

اسمٰعیل میرٹھی

شفق پھولنے کی بھی دیکھو بہار
ہوا میں کھلا ہے عجب لالہ زار
ہوئی شام بادل بدلتے ہیں رنگ
جنہیں دیکھ کر عقل ہوتی ہے دنگ
نیا رنگ ہے اور نیا روپ ہے
ہر ایک روپ میں یہ وہی دھوپ ہے
طبیعت ہے بادل کی رنگت پہ لوٹ
سنہری لگائی ہے قدرت نے گوٹ
ذرا دیر میں رنگ بدلے کئی
بنفشی و نارنجی و چنپئی
یہ کیا بھید ہے! کیا کرامات ہے
ہر اِک رنگ میں اِک نئی بات ہے
یہ مغرب میں جو بادلوں کی ہے باڑ
بنے سونے چاندی کے گویا پہاڑ
فلک نیلگوں اس میں سرخی کی لاگ
ہرے بن میں گویا لگا دی ہے آگ
اب آثار ظاہر ہوئے رات کے
کہ پردے چھٹے لال بانات کے

حصہ