مقبوضہ فلسطین میں آگ اور خون کا کھیل جاری

345

ڈاکٹر محمد اقبال خلیل
جب 3 دسمبر کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرتے ہوئے وہاں امریکا کا سفارت خانہ منتقل کرنے کا فیصلہ سنایا تو اس موقع پر اس نے فلسطینی عوام کے حقوق کا بھی ذکر کیا اور معاہدۂ امن کے تحت 2 ریاستی فارمولے کا اعادہ کیا جس میں فلسطین کو 2 حصوں میں تقسیم کرتے ہوئے ریاست فلسطین اور اسرائیل کا اعلان کیا گیا تھا۔ اسرائیل تو پہلے سے موجو ہے اور اقوام متحدہ کارکن بھی ہے اور امریکا و دیگر عالمی قوتوں کی مکمل حمایت اس کو حاصل ہے اگر معرض وجود میں آنا تھا تو ریاست فلسطین کو بننا تھا لیکن یہ خواب امریکی فارمولے کے تحت بھی شرمندہ تعبیر نہ ہوسکا اور سال بعد بھی اہلِ فلسطین کو اس کا انتظار ہے جس کے پیشتر علاقے پہلے سے یہودی غضب کر چکے ہیں اور بقیہ حصوں پر بتدریج قبضہ کر رہے ہیں۔
موجودہ فلسطینی انتظامیہ مشرقی کنارے‘ جو پہلے اردن کا حصہ تھا اور غزہ کی پٹی جو 1967ء کی جنگ سے پہلے مصر کا حصہ تھا‘ دو ٹکڑوں پر مشتمل ہے اس کو بھی ریاستی درجہ حاصل نہیں اور اقوام متحدہ کا رکن نہیں بلکہ مبصر کے طور پر اس کے اجلاسوں میں شریک ہوتا ہے۔ اس کی باقاعدہ رکنیت کی کوشش کو امریکا ویٹو کر دیتا ہے کہ ابھی اس کا وقت نہیں آیا اور یہ کام وہ اسرائیل کی خواہش پر کرتا ہے جو کسی بھی صورت میں فلسطینیوں کی ریاست بنانے کے لیے تیار نہیں ہے۔
امریکی صدر کے اعلان پر سب سے سخت ردِعمل اہلِ فلسطین ہی نے کیا اور اب تک ان کی احتجاجی تحریک میں 10 نوجوان شہید ہو گے ہیں 200 زخمی اور 400 گرفتار ہو گئے ہیں لیکن ان کی مزاحمت جاری ہے۔ شہید ہونے والوں میں 35 سالہ فلسطینی ابراہیم بھی شامل ہے جو وہیل چیئر پر بیٹھ کر مظاہرین میں شامل ہوا اس کے سر میں گولی ماری گئی حالانکہ وہ نہتا تھا اور اس سے کسی کو خطرہ نہ تھا۔ اس کی دونوں ٹانگیں پہلے ہی اسرائیلی بم باری کی وجہ سے کٹ چکی تھیں اور اب اس نے اپنی جان بھی فلسطین کی آزادی کے لیے قربان کر دی۔ یہ قربانی رائیگاں نہیں جائے گی اور اس کا پاک خون یقینا رنگ لائے گا۔ اس سے اپنے وطن پر قربان ہونے والوںکو مہمیز ملے گی اور ان کے ولولے اور جذبے تازہ ہوںگے۔ فلسطین کے بچے اور جوان پوری طرح سے اس جہاد آزادی میں شامل ہیں اور بڑھ چڑھ کر قربانیاں دے رہے ہیں۔
ترکی صدر طیب اردگان نے اپنی پریس کانفرنس میں ایک فلسطینی بچے کی تصویر دکھائی جس کو 14 اسرائیلی فوجی پکڑ کر لے جارہے ہیں۔ ایک اور فلسطینی بچی کی تصویر اور ویڈیوز سوشل میڈیا پر گردش کر رہی ہیں جو کمالِ عزم و حوصلے سے اسرائیلی فوج کے ساتھ نبرد آزما ہیں۔ ایک وڈیو میں بیت المقدس کے اندر فلسطینی بچے اور جوان بوتلوں میں پیٹرول بھر کر اس کو بموں کے طور پر استعمال کرتے ہوئے اسرائیلی فوج کی بکتر بند گاڑیوں کو آگ لگا رہے ہیں۔ مسجد اقصیٰ کے اردگرد احتجاجی مظاہروں اور اسرائیلی پولیس اور فوج کے درمیان جھڑپیںمعمول بن چکی ہیں۔ ایک موقع پر اسرائیلی فوجی فائرنگ کرتے ہوئے مسجد اقصیٰ کے اندر گھس گئے اور وہاں موجود نمازیوں کو گولیاں ماریں اور زدوکوب کیا۔ سوشل میڈیا پر ایک وڈیو میں ایک اسرائیلی فوجی ایک فلسطینی بچے کا گلا گھونٹ رہا ہے اور وہاں کئی اور فوجی اور سپاہی موجود ہیں لیکن وہ اس کو منع نہیں کر رہے اور بچہ کلمۂ شہادت پڑھتے ہوئے جان دے رہا ہے۔
امریکی صدر کے اعلان کے بعد ترکی کے صدر اور اسلامی کانفرنس تنظیم OIC کے سربراہ رجب طیب اردگان نے اسلامی سربراہ کانفرنس کی جو 13 دسمبر کو ترکی کے تاریخی شہر استنبول میں منعقد ہوئی‘ اس کانفرنس میں اکثر اسلامی ممالک کے سربراہان نے شرکت کی۔ وینزویلا کے امریکا دشمن قائد نے بھی کانفرنس میں خصوصی طور پر شرکت کی۔ اس کانفرنس میں مسلم ممالک کے قائدین نے امریکی فیصلے کے خلاف سخت تقاریر کیں۔ سعودی عرب کے شاہ سلمان‘ جو امریکی حمایت میں پہلے مسلم ممالک کی ایک سربراہ کانفرنس ریاض میں منعقد کر چکے ہیں‘ نے بھی سخت الفاظ میں اس فیصلے پر تنقید کی اور اس کی مزاحمت کرنے کا اعلان کیا۔ مصر کے خود ساختہ صدر جنرل عبدالفتاح السیسی‘ جو خود بھی امریکی و اسرائیلی حمایت سے برسراقتدار ہیں‘ نے سب سے سخت مؤقف کا اظہار کیا اور فلسطینی عوام کی حمایت و نصرت کی یقین دہانی کرائی۔ کانفرنس میں پاکستان کے وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے بھی شرکت کی اور امریکی فیصلے کی مذمت کرتے ہوئے اس کو واپس لینے کا مطالبہ کیا۔
57 رکنی اسلامی کانفرنس تنظیم اقوام متحدہ کے بعد سب سے بڑی کثیر القومی تنظیم ہے لیکن بدقسمتی سے کمزور قیادت اور پھوٹ کی وجہ سے اپنے مقاصد کے حصول میں اب تک ناکام رہی ہے۔ اتفاق یہ ہے کہ 70 کی دہائی میں اس کا وجود ہی مسجد اقصیٰ میں ایک جنونی عیسائی کے ہاتھوں لگائی گئی آتشزدگی کے واقعہ کے باعث بنا اور مسلم عوام نے اس سے بہت توقعات وابستہ کیں۔ اب ایک مرتبہ پھر القدس شریف کی بنیاد پر اس کا چھٹا غیر معمولی اجلاس منعقد ہوا جس کی صدارت ترکی کے صدر طیب اردگان نے کی۔
کانفرنس کے اختتام پر ایک تفصیلی اعلامیہ بھی جاری کیا گیا جس میں مسئلہ فلسطین کا اچھی طرح سے احاطہ کرتے ہوئے امریکی صدر کے اقدام کو ایک خطرناک عمل قرار دیا گیا۔ ییہ ایک غیر قانونی اقدام ہے اور بیت المقدس پر اسرائیل کے غاصبانہ قبضے کی تصدیق ہے جس کو کسی بھی صورت قبول نہیں کیا جائے گا۔ قرارداد میں اقوام عالم‘ اقوام متحدہ کے ارکان اور سلامی کونسل سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ اس غیر قانونی اور غیر اخلاقی عمل کی مخالفت کرے اور اس کو روکنے کے لیے اقدامات کرے۔ اعلامیہ میں مشرقی یروشلم کو آزاد ریاست فلسطینی کا دارالحکومت بنانے کا اعلان کیا گیا اور تمام ملکوں سے مطالبہ کیا گیا کہ اس کے عملی نفاذ میں تعاون کریں۔
اس کامیاب اسلامی سربراہی کانفرنس کے بعد سلامتی کونسل میں غیر مستقل مندوب مصر کے نمائندے نے ایک قرارداد پیش کی جس میں امریکا کا نام لیے بغیر اس کی قانونی حیثیت کو تبدیل کرنے کی کسی بھی اقدام کو تسلیم نہ کرنے کا اعلان کیا گیا ہے۔ 18 دسمبر کو سلامتی کونسل کاایک غیر معمولی اجلاس ہوا جس میں اس قرارداد پر غور کیا گیا مباحث کے بعد جب اس کو ووٹنگ کے لیے پیش کیا گیا تو 15 میں سے 14 رکن ممالک کے نمائندوں نے اس کے حق میں ووٹ دیا جس میں 4 مستقل ممالک چین روس‘ برطانیہ اور فرانس بھی شامل ہیں۔ تنہا امریکا نے اس کے خلاف ووٹ دیا جو ویٹو کی حیثیت رکھتا ہے۔
یہ امریکی صدر ٹرمپ کی ایک بڑی سیاست شکست تھی جس پر وہ آگ بگولا ہوئے۔ سلامتی کونسل کے بعد یہ قرارداد جمعرات 21 دسمبر کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے غیر معمولی اجلاس میں پیش کی گئی جو 193 رکن ممالک پر مشتمل ہے۔ اجلاس سے پہلے ہی امریکا نے رکن ممالک کو دھمکیاں دینا شروع کردیں خاص طور پر جو ممالک امریکا سے مالی امداد لیتے ہیں ان کو کہا گیا کہ اگر آپ نے ہمارے خلاف ووٹ ڈالا تو ہم آپ کی امداد بند کردیں گے۔ امریکی سفارتی نمائندہ نکی ہیلی نے ایک غیر معمولی نازیبا حرکت کرتے ہوئے رکن ممالک کو ایک خط کے ذریعے انتباہ کی کہ اگر آپ نے ہمارے خلاف ووٹ ڈالا تو آپ کے ساتھ ہمارے تعلقات متاثر ہوں گے اور میں امریکی صدر کو رپورٹ کروں گی۔ یہ ایک عجیب و غریب حرکت ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اسرائیل کی حمایت میں موجودہ امریکی حکومت کس قدر اخلاقی گراوٹ کا مظاہرہ کر سکتی ہے۔ کئی یورپی و ایشیائی ممالک نے اس حرکت کا مذاق اڑایا اور اس کو بودی حرکت قرار دیا۔
جنرل اسمبلی کے اجلاس میں 128 ملکوں نے قرارداد کی حمایت کی اور اکثریت سے اس کو پاس کر دیا جب کہ امریکا اور اسرائیل کے علاوہ 7 چھوٹے ملکوں نے اس کی حمایت کی جن میں گوئٹے مالا‘ ہنڈراس‘ ٹوگو‘ مائکرونیشیا‘ نوروپلائو اور مارشل آئی لینڈ شامل ہیں۔ البتہ 35 ممالک نے ووتنت میں حصہ نہ لے کر ایک طرح سے امریکی ناراضی سے اپنے آپ کو بچایا جب کہ 21 ممالک غیر حاضر رہے۔ 35 ممالک میں کینیڈا‘ آسٹریلیا‘ میکسیکو‘ کرویشیا‘ فلپائن وغیرہ شامل ہیں جب کہ 21 ممالک میں یوکرین بھی شامل ہے جس نے سلامتی کونسل میں قرارداد کے حق میں ووٹ ڈالا تھا۔ جنرل اسمبلی کے اجلاس کے بعد بھی امریکی دھمکیوں کا سلسلہ جاری رہا البتہ امریکا اور اسرائیل کو عالمی سطح پر جس ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا اس کی مثال ’’کھسیانی بلی کھمبا نوچے‘‘ والی بن گئی ہے۔

حصہ