پروفیسر عنایت علی خان
پیشِ نظر سنڈے ایڈیشن میں جناب پروفیسر جمیل چودھری صاحب کا درج بالا موضوع پر مضمون نظر سے گزرا۔ اس مضمون میں مصنف محترم نے جہاں مولانا مرحوم سے اپنی ارادت اور مرحوم کی دینی خدمات کا ذکر خاصی تفصیل سے کیا ہے وہاں تفہیم القرآن کی تکمیلی تقریب کا بھی حوالہ دیا ہے، جس میں مسٹر اے کے بروہی کا یہ جملہ رقم فرمایا ہے کہ ’’مولانا مودودی وہ واحد اسکالر ہیں جو نظریۂ پاکستان کا مقدمہ لڑ رہے ہیں۔‘‘
یہ تقریب فلیٹیز ہوٹل لاہور میں 1973ء میں منعقد ہوئی تھی۔ اس کی بصری (Audio) سی ڈی کی سماعت کا موقع راقم کو بھی ملا تھا، اس موقع پر مسٹر اے کے بروہی کے علاوہ محترم ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی سابق شیخ الجامعہ کراچی نے بھی مولانا مرحوم کی علمی فضیلت اور عالم اسلامی میں موصوف کی مقبولیت کا تذکرہ کیا تھا۔ آخر میں خود مولانا مرحوم نے تفہیم القرآن کی تکمیل کے حوالے سے گفتگو کی تھی اور جس کا اختتام ان الفاظ پر کیا تھا کہ اگر میری یہ حقیر کوشش اللہ تعالیٰ کے حضور شرفِ قبولیت پا سکی تو میں سمجھوں گا کہ میری کوشش کامیاب رہی۔
یہ تو رہی اس تقریب کی اجمالی روداد، لیکن راقم کو جناب چودھری کے جس جملے کے حوالے سے چند معروضات پیش کرنے کی ضرورت پیش آئی وہ درج ذیل ہے:
’’وہ علمی لحاظ سے تحریکِ پاکستان کے لیے بھی کام کرتے رہے، ’مسئلۂ قومیت‘ کانگریسی علما کے جواب میں لکھی گئی۔ 1941ء میں جماعت اسلامی کے قیام کے بعد اپنی جماعت ہی کے کاموں کی طرف توجہ دیتے رہے، اگر عملاً مسلم لیگ کا کسی نہ کسی حد تک بھی ساتھ دیتے تو انہیں پاکستان میں کام کرنے کے لیے رکاوٹوں کا سامنا نہ کرنا پڑتا، اور یہ ممکن تھا کہ پاکستان کے عوام میں ان کے پیغام کو زیادہ پذیرائی ملتی۔‘‘ آگے چل کر وہ رقم طراز ہیں ’’مولانا محترم کی جماعت نے دینی بنیادوں پر علمی و فکری کام تو کرلیا ہے، زندگی کے تمام شعبہ ہائے حیات سے متعلق جدید طرز کی کتابوں سے لائبریریاں بھر دی ہیں لیکن باعثِ تشویش یہ ہے کہ جماعت سیاسی لحاظ سے آگے بڑھنے کے بجائے پیچھے ہٹتی جارہی ہے۔‘‘
اس ثانوی اقتباس سے قطع نظر کرتے ہوئے (کہ اس حوالے سے زیادہ تفصیلی گفتگو کی ضرورت ہے) راقم پہلے اقتباس کے حوالے سے، جس میں جماعت کا مسلم لیگ کا ’’کسی حد تک‘‘ ساتھ نہ دینے کے نقصانات کا ذکر ہے، چودھری صاحب اور ان کے توسط سے قارئین تک اپنی بات پہنچانے کی کوشش کروں گا۔
جہاں تک ’’کسی حد تک‘‘ ساتھ نہ دینے کا تعلق ہے تو تحریک پاکستان کی بنیاد ہی دو قومی نظریہ تھا، اس کی تبلیغ و ترویج پر ہی تحریکِ پاکستان کی کامیابی کا انحصار تھا۔ درحقیقت ہر تحریک کے پیچھے کوئی مقبولِ عام نظریہ ہی ہوتا ہے جو اس تحریک کو منزلِ مقصود تک پہنچاتا ہے، اور جیسا کہ خود چودھری صاحب نے مسٹر اے کے بروہی کا حوالہ دیا ہے جس میں انہوں نے مولانا مرحوم کو نظریۂ پاکستان کا مقدمہ لڑنے والا واحد اسکالر کہا ہے، یہی بات خود قائداعظم کے سیکرٹری نے لکھی ہے کہ فکری طور پر نظریۂ پاکستان کے حق میں جوکام مولانا مرحوم کی تحریروں نے کیا، کسی اور چیز نے نہیں کیا۔ راقم کے خیال میں یہ امر چودھری صاحب کے ’’کسی حد تک‘‘ سے کم نہیں زیادہ ہی تھا۔ پھر ایڈیشن کے اسی شمارے میں جناب نجیب ایوبی کی تاریخِ اسلام کے حوالے سے مضامین کی موجودہ قسط میں مسلم لیگ کی تشکیلِ آئین کے حوالے سے کی جانے والی کوشش کے سلسلے میں یہ بیان کہ اس بنیادی اہمیت کی دستاویز یعنی قراردادِ مقاصد کی تیاری کے سلسلے میں عوام کے شدید دبائو کے تحت اس کا مسودہ تیار کرنے کی ذمے داری وزیراعظم لیاقت علی خان نے جن دو معتبر افراد کے سپرد کی، وہ کوئی اور نہیں تحریکِ پاکستان کی نمایاں شخصیات مولانا شبیر احمد عثمانیؒ اور مولانا ظفر احمد انصاریؒ تھے۔ جب یہ ذمے داری انہیں سپرد کی، تو وہ لیاقت علی خان کی منظوری کے بعد، ملتان جیل میں مولانا مودودیؒ کے ساتھ چند روز قیام پذیر رہے اور ان کے مشورے سے مسودے کو آخری شکل دی۔ واپسی پر جب لیاقت علی خان نے اس کارنامے پر مذکورہ دونوں حضرات کو مبارک باد دی تو مولانا ظفر احمد انصاری نے برملا فرمایا ’’اصل مبارک باد کا مستحق تو جیل میں ہے۔‘‘ کیا یہ اعتراف جس میں تشکیلِ آئین کے مطالبے پر مشتمل جماعت کی پُرزور مہم اور قرارداد کی تشکیل ’’کسی حد تک‘‘ ساتھ دینے سے آگے کی چیز نہ تھی؟ اسی سلسلے میں ذرا پیچھے چل کر دیکھیے تو قیام پاکستان سے قبل اس کے آئین کے خاکے کی تشکیل کے لیے مسلم لیگ نے لکھنؤ میں جو کمیٹی تشکیل دی تھی‘ اُس میں مولانا سید سلیمان ندویؒ اور مولانا آزاد سبحانیؒ کے ساتھ مولانا مودودیؒ کا نام بھی شامل تھا۔ اب پس منظر سے پیش منظر میں آیئے تو آزاد مملکت پاکستان کے عوام کی ذہنی تربیت کے لیے مولانا مودودیؒ کے سپرد یہ کام کیا گیا کہ وہ لاہور ریڈیو اسٹیشن سے اسلامی نظام حیات کی توضیح اپنے تقریری سلسلے کے ذریعے کریں۔ مولانا مرحوم نے اس سلسلے چار تقاریر کیں ’’اسلام کا سیاسی نظام‘‘، ’’اسلام کا معاشی نظام‘‘، ’’اسلام کا قانونی نظام‘‘ اور ’’اسلام کا معاشرتی نظام‘‘ (غالباً یہی چار عنوان تھے) راقم نے خود 1956ء میں مقامی اسکول کی ساتویں جماعت میں مولانا مرحوم کی معروف تصنیف ’’رسالہ دینیات‘‘ بطور نصاب پڑھائی تھی۔ یہ تھی پذیرائی، البتہ جب جماعت اسلامی نے پاکستان میں نظامِ اسلام کے نفاذ کی مہم شروع کی اور اس نے زور پکڑنا شروع کیا تو حاکمانِ وقت نے، جن کی اکثریت مغربی ذہنیت اور مفاد پرستی کا شکار تھی، جماعت کو اپنے اقتدار کے لیے سنگین خطرہ سمجھا اور اُس وقت سے آج تک یہ روش جاری ہے، بلکہ اب تو جماعت کے برپا کردہ فکری انقلاب نے الحاد پرست عالمی قوتوں کو بھی جماعت کی طرف سے چوکنا کردیا ہے۔
بات تقریبِ تکمیل تفہیم القرآن سے چلی تھی تو وہیں واپس چل کر خود مولانا کی زبانی مسلم لیگ سے سیاسی طور پر علیحدگی کا سبب سنتے ہیں۔ ہر اسلام گریز حکمران نے اپنے وسائل اس پروپیگنڈے پر صرف کیے تھے کہ جماعت اسلامی پاکستان کی مخالف تھی، مذکورہ سی ڈی میں مولانا نے اس الزام کا تاروپود جن الفاظ میں بکھیر کر رکھ دیا، اُن کا مفہوم من و عن تو نہیں، اپنی یادداشت کے مطابق تحریر کرتا ہوں۔
مولانا مرحوم نے فرمایا ’’جہاں تک اس الزام کا تعلق ہے کہ ہم نے مطالبۂ پاکستان کی مخالفت کی تھی، یہ تو سراسر الزام ہے، البتہ یہ ضرور ہے کہ جماعت اسلامی نے مسلم لیگ سے علیحدہ اپنا وجود برقرار رکھا تو اس کا جواز میں عرض کرتا ہوں‘‘۔ فرمایا ’’ہر تجربہ کار جنرل نقشۂ جنگ مرتب کرتے ہوئے خطِ اوّل پر شکست کے امکان کے تحت ایک خطِ حفاظت دوم (Second line of Defence) کا لازماً اہتمام کرتا ہے، اسی حکمت عملی کے طور پر ہم نے جماعت اسلامی کو Second line of Defence کے طور پر علیحدہ رکھا تھا کہ خدانخواستہ اگر مسلم لیگ اپنا مطالبہ منوانے میں ناکام رہتی ہے تو اہلِ وطن کو کامل مایوسی سے بچانے کے لیے جماعت اسلامی کا پلیٹ فارم موجود ہو۔ دوسری مصلحت یہ تھی کہ مسلم لیگ کی کامیابی کی شکل میں پاکستان معرضِ وجود میںآجاتا ہے تو بھی مسلم لیگ سے علیحدہ ایک جماعت کا وجود ناگزیر ہے جو نوزائیدہ مملکت کے حکمرانوں کو نظریۂ پاکستان کے مطابق قانون سازی اور حکمرانی پر مجبور کرے۔ یہ دونوں مقاصد مسلم لیگ میں ضم ہوکر حاصل نہیں کیے جاسکتے تھے۔‘‘
اس بصیرت افروز اور مسکت دلیل کے باوجود اگر کچھ لوگوں کی یہ رائے ہو کہ جماعت کو اپنا وجود تحریک پاکستان کے موقع پر مسلم لیگ میں ضم کردینا چاہیے تھا، تو وہ چند مخلص بانیانِ پاکستان کو چھوڑ کر بقیہ قائدین کے کارناموں (بمعنی کرتوتوں) کا جائزہ لیں اور مسلم لیگ کی اس کیفیت کو دیکھیں کہ:
اس دل کے ٹکڑے ہزار ہوئے
کوئی یہاں گرا کوئی وہاں گرا
یا شمیم جے پوری کے الفاظ میں:
اٹھی ہیں اس قدر دیواریں گھر میں
کہ گھر گم ہو گیا دیوار و در میں
اگر خدانخواستہ تحریکِ پاکستان کے وقت جماعت اسلامی مسلم لیگ کی کانِ نمک میں گر گئی ہوتی تو آج وہ بھی ایک عالمگیر تحریک کے بجائے دیگر درجن بھر مسلم لیگوں کی طرح مفاد پرستوں کا ایک ٹولہ بن کر رہ جاتی۔ گو ہمارے دوست پروفیسر جمیل چودھری صاحب نے احتیاطاً ’’کسی حد تک‘‘ کے الفاظ استعمال کیے ہیں اور اُن کا مقصد یقینا جماعت کا مسلم لیگ میں انضمام نہیں ہوگا، لیکن چونکہ ہر آنے والی حکومت نے جماعت کو اپنا اصل حریف سمجھ کر، جماعت کے پاکستان مخالف ہونے کا صور پھونکا ہے اور دلیل یہی دی ہے کہ جماعت مسلم لیگ سے علیحدہ رہی، اس لیے راقم نے مناسب سمجھا کہ ’’کسی حد تک‘‘ سے آگے بڑھ کر ’’پوری حد تک‘‘ کے الزام کا خود مولانا مرحوم کے الفاظ میں جواب فراہم کردیا جائے جس سے زیادہ مسکت جواب ہو نہیں سکتا۔