میں انزلیکا ہوں

205

فارحہ کمال
(تیسری قسط)
جب دوسرے چیپٹر کی ابتدائی آیات پڑھیں تو انہوں نے میرے ذہن کو چیلنج کر ڈالا۔ ذالک الکتاب لاریب فیہ… کوئی شک نہیں؟ اتنا یقین؟ اتنی اتھارٹی؟ مجھے آگے پڑھنا چاہیے یا نہیں؟ اس سے پہلے کسی بھی آسمانی کتاب پر میرا یقین نہ تھا۔ اگرچہ پاپا رومن کیتھولک تھے لیکن انہوں نے کبھی اسے میرے یا ماما کے اوپر زبردستی مسلط نہیں کیا تھا۔ میں مذہب کو انسانی ذہن کی تخلیق سمجھتی تھی مگر آج میرا سارا جدید سائنسی علم اور عقیدہ اس ایک آیت سے متزلزل ہو رہا تھا۔ میرا ہاتھ بے اختیار اپنے گلے میں پڑے پینڈنٹ پر گیا اور میں دھیرے دھیرے اس کے ابھار پر اپنی انگلیاں پھیر رہی تھی۔ میرے گلے میں پڑا یہ صلیب کا نشان مجھے بار بار اپنی شناخت اور اصلیت کی یاد دہانی کرا رہا تھا جب کہ میرا دل ہمک ہمک کر قرآن کے اس دعوے پر ایمان لا کر آگے پڑھنے کے لیے بے چین تھا۔ ذہن و دل کی اس کشمکش نے مجھے نڈھال سا کر کردیا تھا۔ اگلے دن جمعہ تھا یونیورسٹی سے فارغ ہوتے ہوتے آٹھ بج گئی تھے۔ میرے دل میں نہ جانے کیا آیا کہ میں نے گوگل میپ پر سکاربورو مسجد لکھ کر سرچ کیا۔ فوراً ہی اسکرین پر راستہ کھل گیا میں نے اپنا رخ مسجد کی جانب کرلیا میں خود حیران تھی کہ یہ میں کیا کر رہی ہوں مگر میرے قدم چلتے جارہے تھے۔ مسجد میں دور سے ہی چہل پہل نظر آرہی تھی۔ مجھے اندر آتا دیکھ کر کچھ لوگوں نے استفہامیہ انداز میں دیکھا اور پھر خواتین کے سیکشن کی طرف اشارہ کردیا۔ میں اندر داخل ہوئی تو زمین پر ایک طرف بڑا سا دسترخوان لگا تھا۔ سائیڈ میں کچھ ٹیبل پر کھانے پینے کی اشیا رکھی تھیں۔ کافی خواتین سر جھکائے شاید قرآن پڑ رہی تھیں جب کہ کچھ انتظامات میں مصروف تھیں۔ بچے کھیلتے کودتے نظر آرہے تھے۔ میں نے جوتے شوریک کی طرف اتار دیے اور جھجک کر وہیں کھڑی رہ گئی۔ سمجھ نہ آیاکہ کیا کروں تب ہی ایک خاتون مسکراتے ہوئے آگے بڑھیں اور میرے گرد اپنے بازو حمائل کرتے ہوئے اندر لے گئیں۔ وہیں ایک شیلف پہ رکھے اسکارفس میں سے ایک نکال کر انہوں نے مجھے پہنا دیا اور بیٹھنے کا اشارہ کیا۔ میں ایک کونے میں بیٹھ گئی‘ سورج غروب ہونے میں چند ہی منٹ رہ گئے تھے اور میں سر جھکائے اپنے ہی فیصلے کے بارے میں گومگو کا شکار تھی۔ میں یہاں کیوں آئی ہوں؟ کیا میں مسلمان ہونا چاہتی ہوں؟ مگر مسلمان تو اپنی عورتوں کے ساتھ برا سلوک کرتے ہیں تو پھر یہ سب عورتیں کیوں اتنا خوش دکھتی ہیں؟ میں انہی سوالات میں گم تھی کہ ’’ہیلو‘‘ کہہ کر ہلکے سے کسی نے میرے کندھے پر ہاتھ رکھا۔ میں چونک کر مڑی تو میری ہم عصر ایک لڑکی مسکرا کر مجھے دیکھ رہی تھی۔ میں نے جواب میں ’’ہائے‘‘ کہا تو اس نے کھجور کی پلیٹ میرے آگے کی۔ اسی لمحے اذان کی دل کش آواز پوری مسجد میں گونجنے لگی۔
’’شکریہ‘‘ میں نے کھجور ہاتھ میں لیتے ہوئے کہا۔ وہ وہیں میرے برابر میں بیٹھ گئی اور ہماری ہلکی پھلکی گفتگو شروع ہوگئی۔
’’میرا نام نور ہے اور آپ کا؟‘‘
’’انزلیکا‘‘ پھر کچھ جھجھک کر بولی ’’میں مسلم نہیں ہوں۔‘‘
’’واقعی؟ مگر آپ تو مسلمان ہی دکھتی ہیں… کہاں سے تعلق ہے آپ؟‘‘
’’رشیا سے۔‘‘
’’اوہ اچھا… میں بنگلہ دیش سے ہوں۔‘‘
اتنی دیر میں اقامت کی آواز آئی اور آگے کی طرف صفیں بننے لگیں۔ میں پیچھے جا کر بیٹھ گئی۔ بڑا ہی دل کو چھو لینے والا منظر تھا۔ صف در صف منظم خواتین‘ امام کی خوب صورت تلاوت‘ سب کا بیک وقت رکوع و سجود میں جانا۔ وہ سب کچھ میں چاہوں بھی تو کبھی نہیں بھلا سکتی۔ میرے گلے میں ابھی تک وہ پینڈنٹ پڑا تھا۔ میرے اندر اتنی ہمت نہ تھی کہ اپنے بے انتہا پیار کرنے والے باپ کی اس نشانی کو خود سے جدا کرتی۔ نماز کے بعد نور دوبارہ میری جانب آئی اور میرا نمبر لے لے لیا ساتھ ہی اگلے دن جمعہ کی نماز کے لیے آنے کی دعوت دی۔ اس کے بعد کھانے کے دوران ہماری بات چیت میں دوستی ہوگئی۔ نماز عشاء اور تراویح کے لیے جماعت کھڑی ہونے لگی تو میں نے ان سے اجازت لی اور اسکارف خاموشی سے سیلف پر رکھ کر واپس اپنے اپارٹمنٹ آگئی۔
اگلے دن بارہ بجے سے نور کے میسجز آنے لگے۔ اگرچہ میری ایک کلاس تھی مگر اس کے اصرار پر میں نے کلاس چھوڑ دی۔ گزشتہ رات میں دیر تک قرآن کا مطالعہ کرتی رہی تھی۔ مختلف صفحات پلٹنے کے دوران میری نظر سورہ النساء کی اس آیت پر پڑی جہاں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ’’یقینا انہوں نے مسیح کو قتل نہیں کیا نہ انہیں صلیب پر چڑدایا بلکہ معاملہ ان کے لیے مشتبہ بنا دیا گیا۔‘‘ اور یہ کہ ’’نہ کہو کہ وہ تین ہے‘ اس بات سے باز آجائو تو تمہارے لیے ہی بہتر ہے‘ اللہ تو ایک ہی خدا ہے۔‘‘ میرا دل بہت بھاری ہو رہا تھا‘ آنکھوں سے آنسو ٹپک رہے تھے‘ آسمانی رب نے میری التجا سن لی تھی۔ وہ میرا ہاتھ پکڑ کر صحیح راستے پر لے آیا تھا اب فیصلے کی باری میری تھی کہ میں اس راستے کو قبول کرتی ہوں یا نہیں۔ میں نے بڑی ہمت کرکے اپنی گردن میں ہاتھ ڈالا اور صلیب والی زنجیر اتار کر دراز میں رکھ دی۔ میرا ذہن اب کچھ سوچنے کے قابل نہ تھا۔ بس آنسو خاموشی سے بہے جارہے تھے‘ قرآن رکھ کر لائٹ بند کی اور لیٹ گئی میں یہ سمجھنے سے قاصر تھی کہ یہ ہدایت پانے کی خوشی تھی یا آنے والی نئی زندگی کا انجانا خوف تھا۔ جانے کب مجھے روتے روتے نیند آگئی۔ نور کے کہنے پر میں دوپہر ساڑھے بارہ بجے تک مسجد پہنچ گئی تھی۔ وہ میرا انتظار کر رہی تھی۔ اس نے آگے بڑھ کر مجھے گلے لگایا۔ شاید اسے میری آنکھوں اور چہرے کے تاثرات سے میری اندرونی حالت کا اندازہ ہو رہا تھا۔ اس نے سمجھ سے پوچھا ’’انزلیکا کیا تم امام مسجد سے ملنا چاہتی ہو؟ جب لوگ اسلام کے بارے میں جاننا چاہتے ہیں یا اپنے خدشات دور کرنا چاہتے ہیں تو امام ان کی مدد کرتے ہیں۔‘‘
میں نے اثبات میں سر ہلایا اور اس کے پیچھے چل پڑی۔ اس نے شیلف سے ایک پیازی رنگ کا اسکارف اٹھا کر مجھے پہنایا اور محبت سے میرا ہاتھ تھام کر مسجد کے مین ہال کے دوسری طرف بنے کمرے کی جانب لے گئی۔ میں نے اپنے ذہن کا جائزن لیا تو وہاں کوئی خدشہ‘ کوئی سوال نہ تھا۔ ذالک الکتاب لاریب فیہ نے سب کچھ آسان کر دیا تھا۔ میں اس اٹل سچائی کو قبول کرنے کے لیے ہر خطرے کا سامنا کرنے کے لیے تیار ہوچکی تھی۔ امام کے پاس پہنچ کر نور نے مجھے آگے کر دیا اور سلام کے بعد بولی:
’’امام صاحب! میری دوست انزلیکا آپ سے بات کرنا چاہتی ہے۔‘‘
امام صاحب نے میری طرف دیکھ تو میں بلا جھجھک بولی ’’میں اسلام قبول کرنا چاہتی ہوں۔‘‘ نور میری طرف حیرانی سے دیکھ رہی تھی۔ اسے اندازہ نہیں ہوا تھا کہ میں ایک رات میں کتنی آگے چلی گئی تھی۔
امام صاحب مسکرا دیے۔ اسلام کے کچھ بنیادی عقائد میرے سامنے رکھے اور میری طرف سے یقین دہانی حاصل کرنے کے بعد انہوں نے مجھے کلمہ شہادت پڑھا کر مبارک باد دی اور مسجد میں ہونے والے ہفتہ وار پروگرام میں شرکت کرنے کی تاکید کی جہاں اسلام کی تعلیمات سکھائی جاتی تھیں۔ نور مجھ سے گلے لگ کر رونے لگی مگر میں اب بے حد پرسکون اور مطمئن تھی۔ وہ مجھے وضو خانے لے گئی اور وضو کرایا۔ اس رمضان وہ جمعہ کی نماز میری زندگی کی پہلی نماز تھی۔ میں نے نماز کے بعد دل کی گہرائیوں سے اپنے لیے ایمان کی مضبوطی کی دعا مانگی۔ امام صاحب نے نماز جمعہ کے بعد میرے قبول اسلام کا اعلان کیا تو خواتین جوق در جوق مجھ سے گلے ملنے لگیں۔ نور کا چہرہ مسرت سے چمک رہا تھا۔ اس نے مجھے وہاںکچھ اور نو مسلم خواتین سے ملوایا۔ اس دفعہ میں مسجد سے باہر نکلی تو وہ پیازی اسکارف میرے سر پر ہی تھا۔ میری آنے والی زندگی میں مزید کیا بڑی تبدیلیاں آنے والی ہیں یہ میں وقت کے ساتھ ساتھ ہی جان پائی۔
مسجد میں مجھے مسلم خواتین کا اچھا سرکل مل گیا تھا۔ میں نے ابھی تک ماما پاپا کو اس بارے میں کچھ نہیں بتایا تھا کیونکہ میں انہیں ڈسٹرب نہیں کرنا چاہتی تھی۔
وقت کے ساتھ ساتھ میں نے عبادات‘ ساتر لباس‘ حلال و حرام اشیا اور دیگر معاملات کو جاننا شروع کیا۔ یہ سب کچھ میرے لیے نیا اور کافی مشکل تھا مگر میں نے ہمیشہ زندگی میں چیلنجز کو پسند کیا تھا اور اسلام قبول کرنے کے بعد اس کی مکمل پیروی کرنا میرے لیے ایک بڑا چیلنج ہی تھا۔
انائوسمنٹ سے اندازہ ہوا کہ ایمسٹرڈیم کے لیے فلائٹ کا دروازہ کھل چکا تھا۔ میں نے بورڈنگ کارڈ دکھایا اور لوط کا اسٹرالر لے کر اند رکی طرف چل دی۔ آج کا یہ سفر میرے لیے ماضی کی یادوں کو تازہ کرنے کا سبب بن گیا تھا۔ کہیں کہیں پرانے زخم تکلیف بھی دے رہے تھے مگر مجموعی طور پر دیکھا جائے تو میں نے جو کچھ کھویا اس سے بہت زیادہ پایا۔ سب سے بڑھ کر اپنے رب کی پہچان اس کی رضا اور دل کا اطمینان۔
(جاری ہے)

حصہ