رفعت میں مقاصد کو ہمہ دوش ثریا کر۔۔۔

757

نورسین صدیقی
کسی معاشرے کے بنائو اور بگاڑ کے بنیادی ضامن تعلیمی ادارے ہوتے ہیں جو تدریس،تادیب(ادب سکھانا)،تدریب ( فنون سکھانا)، اور تربیت کے مختلف پہلوئوں کی ہم آہنگ نشو و نما کے ذریعہ معاشرے میں افرد سازی(humen resource development) کا کام سر انجام دیتے ہیں۔تعلیمی اداروں میں معلم کا کردار کلیدی اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ اور اسی لئے معلم کی تربیت تعلیمی عمل کا لازمہ قرار پاتی ہے۔اگر سیکھنے کے عمل میں صرف اپنے تجربہ پر انحصار کیا جائے تو جمود طاری ہونے کا امکان ہوتا ہے اور عمر بیت جاتی ہے۔لیکن اسی سیکھنے سکھانے کے عمل میں اگر دوسروں کے تجربات سے استفادہ کیا جائے تو کم عرصہ میں بہت کچھ سیکھا جا سکتا ہے۔ مل کر سیکھنے میں انسان کی قوتِ اخذ میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔ اسی جذبہ کے پیش نظر جامعات المحصنات پاکستان کے تحت دورروزہ پرنسپل کنونشن کا انعقاد کیا گیا جس میں پورے پاکستان سے انیس جامعات کی پرنسپلز،وائس پرنسپلز اور نگراں نے شرکت کی۔ کنونشن کی میزبانی کے فرائض جامعۃ المحصنات کراچی نے بحسن و خوبی انجام دئیے۔پروگرام کے لئے تمام جامعات بہت پر جوش تھیں۔ ایک روز قبل ہی تقریباً سب جامعات سے شرکاء آچکے تھے اور سفر کی تھکن بھلا کر ملنے ملانے اور تعارف کے مراحل طے کرنے میں مشغول تھے، لیکن ساتھ ساتھ اگلے دن کے پروگرام کی تیاری بھی جاری تھی ۔گو کہ یہ سلسلہ رات گئے تک جاری رہا لیکن اگلے دن سب تازہ دم ہو کر خوش کن مسکراہٹ اور وقت کی پابندی کے ساتھ ہال میں موجود تھے۔پروگرام کا آغاز ربِ کائنات کے بابرکت نام سے ہو جس کی سعادت جامعۃ المحصنات کراچی کی طالبہ نومانے حاصل کی۔ اس کے بعد المحصنات ٹرسٹ کی چئیر پرسن تحسین فاطمہ نے سیرت النبی ﷺ کے حوالے سے تذکیری گفتگو پیش کی ۔انہوں نے کہا کہ نویدِ مسیحا اور دعائے خلیل نبی ﷺ کی اصل خصوصیت اور اصل دعوت کتاب و حکمت ہے۔ یہ ہی روشنی کا وہ منبع ہے جو زندگی کی اندھیری شب میں اجالے کا ضامن ہے۔ اس گفتگو کے بعد جامعہ کراچی کی معلمہ ثمینہ نواز نے خوبصورت نعت پیش کرکے حبِ رسول ﷺکے جذبہ کو مہمیز کیا۔اگلا پروگرام نگران جامعات مبین طاہرہ کا تھا جس میں انہوں نے سالانہ اہداف کا جائزہ پیش کیا اور آئندہ کے لائحہ عمل پر روشنی ڈالتے ہوئے جامعات کو یہ باور کرایا محنت اتنی خاموشی اور لگن سے کریں کہ آپ کی کامیابی شور مچادے۔نگران جامعات کے بعد مرکزی نگران سیاسی سیل جماعت اسلامی حلقہ خواتین عائشہ منور کی گفتگو تھی جس میں انہوں نے الیکشن ۲۰۱۸ ء اور جامعات المحصنات پاکستان کے کردار کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ مذہب کی جو حیثیت انفرادی طور پر ہے وہی اجتماعی طور پر بھی ہے۔ نظم کے تحت مختلف اداروں کی تشکیل کا مقصد اسی اجتماعیت کا فروغ اور دعوت کے کام کا پھیلائو ہے ۔یہی وہ بنیادی ہدف ہے جو ہمیں حاصل کرنا ہے۔
اس کنونشن کی خاص بات یہ تھی کہ اس میں ملک کی مختلف علاقوں سے تعلق رکھنے والی جامعات موجود تھیں اسی لئے جہاں لہجوں اور روایتوں کی رنگا رنگی نظر آرہی تھی وہیں موسم کی شدت ہر علاقہ میں مختلف ہونے کی بنا پر چترال کی خواتین کراچی میں پنکھے چلتے ہوئے دیکھ کر تعجب سے کہتی نظر آئیں کہ ’’باجی آپ لوگ تو دسمبر میں بھی یہاں پنکھے چلا رہے ہیں۔۔۔۔‘‘ ،ہم دل میں یہ سوچ کر ہنس رہے تھے کہ کراچی میں جب تیز پنکھا چلاکر کمبل اوڑھ لیا جائے تو اس شرماتے لجاتے موسم کو ہم سردی کہتے ہیںجو یہاں تبرکاً آتی ہے۔
کنونشن کے پہلے روز قیمہ جماعت اسلامی حلقہ خواتین دردانہ صدیقی نے خصوصی طور پر شرکت کی ۔انہوں نے اپنے خطاب میں کہا کہ نبی ﷺ کا مشن اور ان کا ورثہ علم ہے۔علم ہی شعور کی آبیاری کرتا اور بتاتا ہے کہ خلافت کی گراں بار ذمہ داری کیسے اٹھانی ہے۔آج جب لارڈ میکالے کے نظامِ تعلیم کے اثرات چاروں طرف نظر آرہے ہیں تو معلم کی ذمہ داری دو چند ہو جاتی ہے۔جامعات المحصنات پاکستان صرف امید نہیں روشن مستقبل کی ضمانت ہے۔
کنونشن کے اگلے روز کا آغا ز’’برکاتِ سحر خیزی ‘‘ کے موضوع پر تذکیری گفتگو سے ہو ا جو الخدمت ٹرسٹ کی چئیر پرسن طلعت ظہیر نے پیش کی ۔ انہوں نے کہا کہ نماز فجر قربِ الہیٰ کا ذریعہ ہونے کے ساتھ ساتھ انسانی جسم پر بیشمار مفید اثرات مرتب کرتی ہے۔ اس سے بینائی اور یا داشت تیز ہوتی ہے اور بہت سی بیماریوں سے انسان بچ جاتا ہے۔اس پروگرام کے بعد ناشتہ کا وقفہ ہوا۔لیکن شرکاء وقفہ کے اختتام کے بے چینی سے منتظر تھے کیونکہ وقفہ کے بعد رفاہ یونیورسٹی کے سینیئر ریسرچ فیلو ارشد احمد بیگ کا لیکچر جس میں انہوں نے شرکاء کو رفعت میں مقاصد کو ہمہ دوشِ ثریا کرنے کے گر بتاتے ہوئے گویا کوزے میں دریا بند کردیا۔انہوں نے کہا کہ انسان کی اصل کامیابی اس کی اولوالعزمی اور کردار کی پختگی میں ہے۔اگر یہ نہ ہو تو بظاہر نظر آنے ولی بے شمار کا میابیوں کے باوجود وہ ایک ناکام انسان ہے۔انہوں نے بتایا کہ پرسنل ویلیو بیسڈ سسٹم (personal value based system)بنانے کے لئے ویلیو بیسڈ تھنکنگ (value based thinking)ضروری ہے۔زاویہ نظر کی تبدیلی(change of perception) ہی دراصل تبدیلی کا نقطہئِ آغاز ہے۔ان کے پر مغز لیکچر نے شرکاء کے لئے سوچوں کے نئے در وا کئے ۔
ع سوچوں کے بدلنے سے نکلتا ہے نیا دن
سورج کے چمکنے کو سویرا نہیں کہتے
دوسرے دن کا ایک اور اہم پروگرام ناظمہ صوبہ سندھ عطیہ نثار کا تھا جس کا موضوع تھا ’’جامعات نظم کے لئے کس طرح تقویت کا باعث ہیں۔۔۔‘‘انہوں نے نظم کو تعاون اور مضبوطی فراہم کرنے کے لئے جامعات کے کردار کی تعریف کی اور باہمی تعاون میں مزید اضافہ اور دوطرفہ امور کی درستگی پر سیر حاصل گفتگو کی۔
حالاتِ زمانہ ابتر ہیں، کچھ میں سوچوں کچھ تم سوچو
جو میں سوچوں میں کر گزروں، جو تم سوچو تم کر گزرو
شرکاء نے گرما گرم بھاپ اڑاتی چائے کے ساتھ اس پروگرام کے نکات نوٹ کئے۔جس کے بعد نگران جامعات مبین طاہرہ نے اختتامی گفتگو کی۔انہوں نے کہا کہ ذمہ داری اور اختیار کے ساتھ احتساب جزو لازم ہے۔یہ ویلیو بیسڈ سسٹم کا بنیادی نکتہ ہے۔کنونشن میں نمایاں کارکردگی پر اعزازی شیلڈ حاصل کرنے والی جامعات اور مرکزی شعبہ جات کے افراد کے ناموں کا بھی اعلان کیا گیا۔ یہ امر قابلِ ستائش تھا کہ مرکزی ممبر شعبہ تعلیم خالدہ طارق دورانِ پروگرام کل وقتی طور پر موجود رہیں۔جبکہ پروگرام میں ناظمہ کراچی فرحانہ اورنگ زیب،، نگران شعبہ تعلیم جماعت اسلامی حلقہ خواتین طیبہ عاطف،الخدمت ویلفئیر سوسائٹی کی چئیر پرسن منور اخلاص اور المحصنات ٹرسٹ کی ٹرسٹیز نے بھی شرکت کی۔
کنونشن کے اختتام پر افراد نم آنکھوں اور آئندہ ملنے کے وعدوں کے ساتھ ایک دوسرے کو الوداع کہہ رہے تھے ۔یقیناً قابلِ قدر ہوتے ہیں وہ لوگ جو صرف اللہ کی خاطر ایک دوسرے سے محبت کرتے اور اس کے دین کی سربلندی کے لئے کوشاں رہتے ہیں۔
یوں اس دوروزہ سیشن کا اختتام ہوا ۔۔نئے جذبوں ، نئی امنگوں اور نئے حوصلوں کے ساتھ کہ۔۔،
ع اندھیروں کو جبینِ دہر سے اب دور ہونا ہے
نئے سورج کی خاطر آسماں میں بیج بونا ہے

حصہ