خود کلامی

295

افشاں نوید
تمہیں اپنے ہاتھوں سے تیار کرکے سبز سوئیٹر پہنا کر میں نے خدا حافظ کہتے ہوئے کب سوچا تھا کہ اب اس دروازے سے تم نہیں’’تابوت‘‘ اندر آئے گا!
تم مجھ سے کہہ کر تو جاتے کہ تم اسکول سے سیدھے جنت میں چلے جائو گے!!
ابھی تو پچھلی سرما رُت کی راکھ ٹھنڈی بھی نہ ہوئی تھی کہ 16 دسمبر پھر لوٹ آیا ہے۔
ہوائیں مسلسل پتوں سے سر ٹکرا رہی ہیں۔ دیکھو تو کس طرح تمہارے جانے کا ماتم کررہی ہیں!
تم تتلیوں کے پیچھے دوڑا کرتے تھے، پھول اور جگنو تمہیں کتنے پیارے تھے!!
اور مجھے تمہارے ہم عمر سبھی دوست پھول، تتلیوں اور جگنوئوں سے زیادہ پیارے لگتے تھے۔
مگر… تمہاری بند مٹھی سے کبھی کبھی جگنو یوں ہی نکل جایا کرتا تھا!!!
جب سے تم نے مٹی کا گھر آباد کیا ہے میں نے لمحہ بھر کو بھی تمہاری تصویر پر گرد نہیں پڑنے دی ہے۔ میں صحن میں مٹی کے گملوں کے پاس گھنٹوں بیٹھی رہتی ہوں، مجھے مٹی سے تمہاری خوشبو آتی ہے۔
اِس بار دسمبر کے تصور نے ہی رگوں میں لہو جمادیا ہے۔
گرم کپڑوں کے صندوق کا کھلنا تھا… وہ تمہارا مفلر، جیکٹ، دستانے، سوئیٹر… تمہاری یادوں کے صندوق کھلتے چلے گئے۔
سبز سوئیٹر میں مَیں نے تمہیں آخری منظر کی طرح دیکھا تھا۔
زندگی مجھ سے آخری بار دسمبر میں ملی تھی جو رگ سے جان نکلنے کا موسم تھا۔
دسمبر سے تو ہمارا ملّی تعارف ہی یہ تھا کہ یہ ہے کئی غم پنپنے کا موسم… سسکنے، سلگنے، تڑپنے کا موسم… دشمن نے 16 دسمبر کا انتخاب یوں ہی تو نہیں کیا تھا!!!
ہاں! اس موسم میں تم راستے میں پڑے ہوئے پتے دونوں ہاتھوں میں بھر لاتے تھے۔
تمہیں پتوں کے جھڑنے… اور درختوں کے کٹنے کا کتنا ملال ہوتا تھا ناں!
جب گھر کے سامنے نیم کے درخت سے چڑیا کا گھونسلہ گر پڑا تھا تو تم کتنا بے چین ہوئے تھے اور کہتے تھے ’’میں دکان سے انڈے لاکر اس کا گھونسلہ دوبارہ رکھ دوں!‘‘ تم سے چڑیا کی بے چینی دیکھی نہ جاتی تھی۔
مگر … تمہارا دشمن… ہاں وہ بہت بونا تھا… بہت پست… بہت ہی چھوٹا… میں تو سمجھتی تھی کہ دشمن ہمیشہ قدآور ہوتا ہے…!!!
اب تمہاری یادوں کے چراغوں کی روشنی ہے اور بس…!!
تمہیں عادت تھی میرے ساتھ چھپن چھپائی کھیلنے کی… تم جگہ بدل بدل کر چھپا کرتے تھے، میں تمہیں ڈھونڈ نکالتی اور… کبھی کبھی جھوٹ موٹ ہار مان لیا کرتی۔
مگر… اِس بار تم ایسے چھپے ہو کہ میں سچ مچ ہار گئی ہوں…!!
میری ہر شام اب شامِ غریباں میں بدل گئی ہے۔
لگتا ہے میری روح پر لگے زخموں نے گھنگرو باندھ رکھے ہیں، ذرا سی ضرب سے یہ بج اٹھتے ہیں، اور تب تمہاری یادوں کا نہ ختم ہونے والا رقص شروع ہوجاتا ہے۔
سولہ دسمبر کے بعد سے میری پلکیں یا آنچل… دونوں میں سے ایک چیز ہمیشہ نم رہتی ہے…!!
جیون تو ہے جب تک سانسوں کی ڈور ہے… مگر تم جیون سے روح کی طرح رخصت ہوگئے۔
اب میں اور تمہارے بابا ایک دوجے کے مزاروں کی مجاوری میں مصروف رہتے ہیں۔ میری جان دسمبر تو تھا ہی ٹھنڈی آہیں بھرنے کا نام… ایک احساس کا نام… 1971ء کے بعد کا ہر دسمبر کسی سے بچھڑنے کے دکھ کو تازہ کرجاتا ہے۔
یوں ہی گرتے نہیں برگ و شجر دسمبر میں
بچھڑ گیا تھا کوئی ہم سفر دسمبر میں
کسی کے ہجر سے گزرو تو پھر بتائیں گے
کہ کیسے چلتے ہیں ہم آگ پر دسمبر میں
تمہاری روشن پیشانی پر میری جاگتی آنکھوں سے دیکھے ہوئے خوابوں کی تعبیریں لکھی تھیں، اب اس تعبیر کو پانے کے لیے مجھے زبردستی خوابوں کی وادی میں جانا پڑتا ہے…!!
سکون تو اب کہیں بھی نہیں ہے، وہ تو تمہارے ساتھ ہی ہماری چوکھٹ کا رستہ بھول گیا۔
راہ گزر سے آگے بھی راہ گزرہی ہے۔
قبروں پر ہمیشہ پھول رکھے جاتے ہیں مگر پچھلے برس ہم نے پھول قبروں میں رکھ دئیے اس امید پر کہ شاید مثلِ ابراہیمؑ تمہارے پاکیزہ معصوم وجود اس دھرتی کی آگ کو گلزار بنادیں… مگر… اب تک ہم شہرِ آسیب میں جیتے ہیں جہاں لاشیں تو روز ملتی ہیں پر قاتل نہیں ملتے…!!
جانے کیوں اب مجھ سے اسکول کے بچوں کی وین نہیں دیکھی جاتی، اب دریا کو دیکھ کر میرے اندر کے سراب جاگ اٹھتے ہیں۔
مچھلی نے پیغمبر کو ساحل پر زندہ اگل دیا تھا… مگر یہ اشرف المخلوقات… انہوں نے انسانیت کے ساحل سے زندگی چھین لی…!! آہ! زندگی! جو دینے والے کے سوا لینے کا کوئی بھی حق دار نہیں۔
میں نے کتابوں میں پڑھا تھا کہ ’’ماں کے آنسو رخساروں کا سفر کرکے ابھی زمین پر نہیں گرتے کہ ’’حرفِ کُن‘‘ بن جایا کرتے ہیں…!!
عدالت تو برحق ہے یہاں لگے یا وہاں …
جب آستینوں کے لہو خود پکار اٹھیں گے اور مجرم زنجیروں میں جکڑے ہوں گے… اور ان کے جرم ان کی پیشانیوں پر لکھے ہوں گے…!! اب اسی آس پر جی رہی ہوں۔
میں تو خوش قسمت ٹھیری کہ… میری آنکھیں باوضو رہتی ہیں… جب سے تم گئے ہو…!!
…٭…٭…٭…

حصہ