وہ ایک سانحہ

360

یہ ایک سوگوار شام تھی۔ ڈھاکہ کے ریس کورس میں آج عجیب ہی منظر تھا۔ سینہ پھلائے اور گردن کو غرور کا خم دے کر جنرل جگجیت سنگھ اروڑہ نے جنرل نیازی کے تمغے اور رینک سرعام نوچ ڈالے۔
ذلت ورسوائی، بے بسی و بیچارگی کا یہ منظر چرخ نیلی فام نے شاید ہی کبھی دیکھا ہوگا۔ اس سانحہ عظیم پر ہزاروں آنکھیں اشکبار تھیں۔ دل غم سے معمور تھے، سینہ درد کی شدت سے پھٹ پھٹنے کو تھا۔ پاکستان کہلانے والے کرڑوں افراد چیخ چیخ کر رونے لگے۔ اسی دن طاقت کے نشے سے سرشار بھارتی وزیر اعظم اندرا گاندھی نے پارلیمنٹ سے خطاب کرتے ہوئے کہا: ’’یہ فتح جو ہمیں حاصل ہوئی ہے یہ ہماری افواج کی فتح نہیں بلکہ ہمارے نظریے کی فتح ہے۔ ہم نے ان (پاکستانی مسلمانوں) سے کہا تھا کہ ان کا نظریہ باطل ہے اور ہمارا نظریہ برحق ہے لیکن وہ نہ مانے اور ہم نے ثابت کردیا کہ ان کا نظریہ باطل تھا۔ ہم نے ان کا نظریہ بحرہند میں غرق کردیا۔‘‘
16دسمبر کے دن ہر اس شخص کا دل… جو پاکستان اور خصوصاً مسلمانوں کی سلامتی کے لیے دھڑکتا ہے۔ مضطرب رہتا ہے۔ خیالات کا سیل رواں کسی طوفانی دریا کے مانند بہہ رہا ہے۔ خیال کی لہریں دماغ کے ساحل پر اس زور سے سر پٹختی ہیں کہ دماغ کی چولیںہل جاتی ہیں۔ ہر صاحب علم شخص یہ سوچنے پر مجبور ہے کہ پاکستان کا ٹوٹ جانا بڑا المیہ تھا یا اندلس کا عیسائی بادشاہ فرڈی نینڈ اور اس کی ملکہ ازابیلا کے قبضے میں چلا جانا بڑا سانحہ تھا۔ کیوں کہ دونوں واقعات نے مسلم دنیا کی تاریخ میں تغیر پیدا کیا۔ سقوط ڈھاکہ کا سانحہ نہ صرف علیحدگی پسند تحریکوں کے لیے سنگ میل ثابت ہوئی بلکہ پاکستان میں بھی اُٹھنے والی ہر علاقائی تحریک لاشعوری طور پر مشرقی پاکستان کے نقش قدم پر چلنے لگی۔
مشرقی پاکستان کے اَلمیے پر کالم نگاروں تجزیہ نگاروں، مصنفوں اور عسکری دانشوروں سمیت سبھی اس بات پر متفق ہیں کہ سقوط ڈھاکہ میں فوجی حکمرانوں کی بے حسی اور عوام کی بے بسی دونوں کا دخل تھا۔ ڈاکٹر صفدر محمود اپنی کتاب ’’پاکستان کیوں ٹوٹا؟‘‘ میں سیاست دانوں کو مورد الزام ٹھہراتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’حزب اختلاف کے رہنمائوں کے اندرونی اختلافات، مجیب الرحمن کے چھ نکات پر اصرار، بھاشانی اور بھٹو کے عدم تعاون کے رویے کے نتیجے میں گول میز کانفرنس کو ناکامی کاسامنا کرنا پڑا اور اس کے ساتھ ہی پر امن اقتدار کی آخری کوشش دَم توڑ گئی۔ گول میز کانفرنس کی ناکامی گھمبیر سیاسی حالات کا پیش خیمہ ثابت ہوئی اور اس نے پاکستان کی تاریخ کا دھارا بدل کر رکھ دیا۔ اگر سیاست دان پرامن انتقال اقتدار کی راہ میں حائل نہ ہوتے اور ایوب خان کے پارلیمانی نظام براہ راست انتخابات کے مطالبے کو تسلیم کرتے، آئندہ انتخابات میں اُمیدوار نہ بننے کی پیش کش قبول کرلیتے تو شاید ہمیں 1971ء کے المیے کا سامنا نہ کرنا پڑتا۔‘‘
زمانے کی نبض ہمارے ہاتھ میں تھی بیماری کا علم ہوتے ہوئے بھی ہم مرض کی تشخیص نہیں کرپارہے تھے۔ عقل کے دریچے اس وقت ’’وا‘‘ ہوئے جب ہم بہت کچھ کھوچکے تھے۔ خطرہ آہستہ آہستہ کسی عفریت کی مانندہمارا تعاقب شروع کرچکا تھا۔ گلی گلی اور قریہ قریہ اس نعرے کی گونج تھی۔
خون دیا چھی…خون لے چھی
آمارا بانگلا…تومارابانگلا
بانگلادیش
1965ء کی جنگ والا وہ جوش وجذبہ سرد پڑ چکا تھا۔ سب ایک بار پھر اس انتظار میں تھے کہ کب ہمارا کمانڈر کہے گاکہ’’ مکتی باہنی اور بھارت کو نہیں معلوم کہ اُنھوں نے کس قوم کے سپوتوں کو للکارا ہے۔ ‘‘مگر اب کی بار ایک نیا جملہ سننے کو ملا۔
Gentalmen, Cease fire, we re Losers
بھرم کا بت پاش پاش ہوگیا۔ مرد کازیور ہتھیاربے وقعتی کے احساس سے زمین میں سماگیا۔
آہ… ایسا لگا جیسے کسی نے عین دل پر چرکہ مارا ہو۔ آنسوووں اور آہوں کاایک سیلاب تھا جو رُکنے میں نہیں آتا تھا۔ صدیق سالک کہتے ہیں کہ ’’التوائے اجلاس کا جونہی اعلان ہوا ڈھاکہ میں اشتعال کی لہر دوڑ گئی۔ اعلان کے آدھ گھنٹے کے اندر عوام لاٹھیاں اور لوہے کی سلاخیں لے کر بازاروں میں نکل آئے، وہ مخالفانہ نعرے بلند کررہے تھے اور گالیاں دے رہے تھے۔ ویسے تو سیکڑوں وجوہات ایسی ہیں جو مشرقی پاکستان کی علیحدگی کا سبب بنے۔ چند کا ذکر یہاں ناگزیر ہے کیوں کہ اب پاکستان ایک بار پھر سازشوں کے دوراہے پر کھڑا ہے۔
1:۔ مغربی پاکستان کی سیاست پر جاگیرداروں کا تسلط تھا جب کہ مشرقی پاکستان کے سیاست دانوںکی بڑی تعداد وکلا، اساتذہ اور ریٹائرڈ سرکاری ملازمین پر مشتمل تھی۔ دونوں جانب کے عوامی نمائندوں کے نظریات و عزائم متضاد تھے اور ان کے لیے تیار نہیں تھی۔
2:۔ سیاسی جماعتیں انتشار کا شکار تھیں جبکہ اکثریت صوبائیت سے بالاتر ہو کر سوچنے کے لیے تیار نہیں تھیں۔
3:۔ صوبے کی معیشت اور تعلیم پر ہندوئوں کا قبضہ تھا۔ یہی نہیں بلکہ قومی دولت پر اسّی فیصد ہندو قابض تھے۔
4:۔ مشرقی پاکستان میں موجود 1290 اسکول اور 47 کالجوں کے 95فیصد پر بھی ہندوئوں کا کنٹرول تھا۔ جہاں ہندو اساتذہ نے بنگالی نوجوانوں کو مغربی پاکستان کے خلاف بھڑکانے میں اہم کردار ادا کیا۔ یہ اساتذہ طلبہ کے لیے جو کتب تجویز کرتے ان میں سے بیشتر نظریہ پاکستان کے خلاف مواد پر مشتمل ہوتیں۔
5:۔ بھارت سے پاکستان دشمن لٹریچر اسمگل ہو کر مشرقی پاکستان آنا شروع ہوا۔ اس کے علاوہ مشرقی پاکستان کے دانشوروں میں ایک طبقہ ایسا تھا جس کی ہمدردیاں بھارت کے ساتھ تھیں۔
6:۔ کئی خفیہ تنظیمیں راتوں رات پیدا ہوگئیں اور پاکستان اور پاکستانی فوج کے خلاف اشتہار بانٹنے لگیں۔ (اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ عوامی لیگ کی ایک ذیلی تنظیم ’’پور بوبنگلہ شرامک اندولس‘‘ نے یہ اشتہارہر جگہ تقسیم کیا: ’’مشرقی بنگال کی قومی آزادی کی تحریک شروع ہوچکی ہے، اس کو جنگل کی آگ کی طرح گھر گھر پہنچادو، وطن پرست اور انقلاب پسند لوگو ہتھیار اٹھالو دشمن فوج کا مقابلہ کرو اور اسے ختم کردو۔‘‘
7:۔ ملک کے مختلف حصوں میں صوبائیت، رجحانات منظر عام پر آنے لگے جس کی وجہ سے مغربی اور مشرقی پاکستان کے درمیان خلیج بڑھتی گئی۔ بائیں بازو کے سیاست دانوں نے صوبائی خود مختاری سے فائدہ اٹھایا جس کا نتیجہ بنگال بنگالیوں کا پر منتج ہوا۔ عوامی جلوسوں میں مغربی پاکستان کے خلاف اشتعال انگیز نعرہ بازی کی گئی جس سے صوبائیت کی آگ مزید تیز ہوگی۔
8:۔ بنگالی کو سرکاری زبان قرار دینے کے مطالبے لسانی تنازع کھڑا کردیا جو بالآخر تحریک کی شکل اختیار کرگیا۔
9:۔ حکومت مخالف ریلیوں اور جلوسوںسے بھارت نے بھرپور فائدہ اٹھایا۔ سیکڑوں ہندوئوں کو مشرقی پاکستان میں داخل کردیا گیا۔ جنھوں نے ان جلوسوں میں نہ صرف اشتعال انگیز نعرے بازی کی بلکہ بندے ماترم اور اکھنڈ بھارت کے نعرے بھی لگائے۔
10:۔ کمیو نسٹوں نے تحریک کو ہوا دینے کے لیے خوب تعاون کیا۔ چین، برما اور بھارت سے درآمد کیا جانے والا سستاکمیونسٹ لٹریچر صوبے میں چائے خانوں، عام مقامات، ریستورانوں، اسکولوں، ریلوے بک اسٹالوں غرض ہر جگہ پایا جاتا تھا۔
11:۔ یہ بات زبان زد عام تھی کہ یحییٰ خان نے مظاہرین اور ایوب خان کے خلاف عناصر کو یقین دہانی کرائی ہے کہ وہ جس طرح چاہیں کھیل کھیلیں، فوج مداخلت نہیں کرے گی۔ چنانچہ جب تک اقتدار یحییٰ خان کے حوالے نہ کر دیا گیا، فوج تماشائی کی طرح ملکی سالمیت کو دائو پر لگا دیکھتی رہی۔
12:۔ عوامی لیگ کی خونریز بغاوت کو کچلنے اور پاکستان کا اقتدار اعلیٰ بحال کرنے کے لیے ’’فوجی کارروائی کا آغاز 25 اور 26 مارچ 1971ء کی درمیانی شب کو ہوا۔ جب پہلا دھماکہ ریڈیو پاکستان ڈھاکہ میں ہوا تو شیخ مجیب نے بنگلہ دیش کے قیام کا اعلان کردیا۔
یہ چند وہ چیدہ چیدہ نکات ہیں جنھوں نے پاکستان کی سا لمیت کو دائو پر لگا دیا تھا۔ اس کے علاوہ اس وقت مغربی پاکستان کی سیاست پر ایسے مفاد پرست لیڈر چھائے ہوئے تھے جو مشرقی پاکستان کو اپنے عزائم کی راہ میں رکاوٹ سمجھتے تھے جن کا خیال تھا کہ اگر اُنھوں نے مشرقی پاکستان کو مغربی پاکستان سے علیحدہ کیا تو مشرقی پاکستان کے بھوکے ننگے لوگ مغربی پاکستان کے سرمایہ داروںکے لیے مشکلات کا باعث بنیں گے۔ چنانچہ ان لوگوں نے مشرقی پاکستان کے رہنمائوں کو تائو دلایا جس کے نتیجے میں بنگلہ دیش ہم سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جدا ہوگیا۔
بھارت نے اس وقت مکتی باہنی کو تربیت دے کر 1965ء کی ہزیمت بھی چکانی تھی، بھارت نے ہر قسم کے تعاون کے ساتھ پاکستان کو ٹکڑے ٹکڑے کرنے کی قسم کھارکھی تھی۔ بھارت 1965ء میں اپنی ذلت آمیز شکست نہیں بھولاتھا۔ اسے یہ موقع جنرل نیازی کی بے تدبیریوں اور بزدلی نے فراہم کردیا تھا۔ تمام ثبوتوں کے باوجود ہم آج بھی مشرقی پاکستان کی تاریخ کھنگالتے ہیں تو اپنے لوگوں کی بزدلی کا ذکر ضرور کرتے ہیں مگر بھارت کی ریشہ دوانیوں سے صرف نظر کرجاتے ہیں۔ زمانے میں اگرچہ تغیر آچکا ہے مگر بھارت اپنی روش نہیں بدلا۔ امریکی توتا چشموں سے اس دنیا کا بچہ بچہ واقف ہے۔ ان تمام باتوں کا علم ہوتے ہوئے بھی ہم مصلحت کے نام پر بے غیر تی کی چادر او ڑھ رکھی ہے۔
نجانے کیوں تاریخ ایک بار پھر اپنے آپ کو دہرارہی ہے۔ 1971ء میں بھارت دھیرے دھیرے مشرقی پاکستان کی طرف بڑھ رہا تھا اور اب 2010ء میں بھارت دھیرے دھیرے بلوچستان کی طرف بڑھ رہا ہے۔ ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم وہ بدقسمت قوم ہیں جو ایک غلطی کئی بار دہراتے ہیں۔
حدیث شریف کا مفہوم ہے: ’’مومن ایک سوراخ سے دوبارہ نہیں ڈسا جاتا۔‘‘ دنیا کایہ اصول رہا ہے جنگوں میں ہار جیت ہوتی رہتی ہے۔ لیکن جو قومیں اپنی غلطیاں بار بار ہراتی ہیں وہ دنیا کے نقشے سے مٹ جاتی ہیں اور اکثر وبیشتر تاریخ کے صفحات میں جگہ بھی پانے میں ناکام ٹھہرتی ہیں۔
٭…٭

حصہ