منزلیں اور بھی ہیں!۔

421

فرحت طاہر
(تیسری اور آخری قسط)
’’یہ آپ مجھے کہاں لے جارہے ہیں؟‘‘ بالآخر وہ کہہ پڑی۔ عدنان بھائی نے اسی لمحے کھڑاک سے گاڑی روک دی۔ اس نے چونک کر نظر باہر کی، تو سامنے میڈی کیئر ہسپتال تھا۔ ’’فیصل کی طبیعت خراب ہے وہ اوپر فرسٹ فلور پر داخل ہے…‘‘ انہوں نے گاڑی کا دروازہ کھولتے ہوئے دھیمے لہجے میں اس کو بتایا۔ وہ ان سے وارڈ نمبر پوچھ کر گاڑی سے اتری اور تیزی سے اوپر چلی گئی۔ سیڑھیاں چڑھنے سے قبل اس کی نظر وہاں لگے کلاک پر پڑی تو نو بج رہے تھے، اور جب اوپر پہنچ کر اپنی سانسوں کو قابو کرتے ہوئے اس نے گھڑی کی طرف دیکھا تو شاید منٹ کی سوئی نے ایک چکر بھی مکمل نہیں کیا تھا۔ اس نے کمرے کا دروازہ کھولا تو فیصل بستر پر لیٹا اور عادل اس کے قریب کرسی پر بیٹھا تھا، جبکہ سہیل دیوار سے لگے کھڑے تھے۔ اس کے اچانک دروازہ کھولنے سے تینوں نے اپنی اپنی آنکھیں کھول دیں اور حیرت زدہ رہ گئے۔ فیصل آنکھ کھولنے سے پہلے ہی چلاّ اٹھا ’’میری امی آگئیں…!‘‘ شاید ممتا کی خوشبو ہی الگ ہوتی ہے۔ وہ اٹھ کر بیٹھ گیا اور شیریں کی بانہوں میں سما گیا۔ دونوں کی آنکھیں ایک دوسرے کے لیے محبت برسا رہی تھیں۔ یہ منظر باقی لوگوں کو بھی جذباتی کر گیا۔ سہیل آہستہ سے دروازہ کھول کر باہر نکل گئے، وہاں عدنان بھائی کو کھڑے دیکھ کر سہیل کی سمجھ میں ساری بات آگئی۔ وہ بڑھ کر عدنان بھائی کے گلے لگ گئے ’’آپ نے میرے بیٹے کی جان بچالی۔‘‘
’’ایسا نہ کہو میرے بھائی! فیصل نے ہمیں ایک غلط فیصلے سے بچا لیا ہے۔‘‘ وہ دونوں اور گرم جوشی سے ایک دوسرے سے لپٹ گئے۔ اسی وقت دروازہ کھلا اور شیریں فیصل کو لیے ہوئے نمودار ہوئی۔ فیصل اس وقت کھلکھلا رہا تھا اور بیماری کی کوئی علامت اس کے چہرے پر نہ تھی۔ کیا واقعی ماںکی محبت معجزہ رکھتی ہے؟ اور جب بیماری نہ رہے تو ہسپتال میں رہنے کا کیا جواز ہوسکتا ہے! لہٰذا بل وغیرہ ادا کرکے وہ لوگ گھر کی طرف روانہ ہوگئے۔ گاڑی میں بیٹھنے سے قبل عدنان بھائی نے شیریں کے سر پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا ’’دیکھو یہ میری بہن ہے! اگر کبھی اس کی آنکھ میں آنسو آئے تو مجھ سے برا کوئی نہ ہوگا…‘‘ جذبات سے سب گنگ تھے، کوئی کچھ نہ کہہ سکا۔ فیصل کو پیار کرکے عدنان بھائی اپنی گاڑی کی طرف بڑھ گئے۔ راستے بھر فیصل اپنی بانہیں شیریں کے گلے میں حمائل کیے رہا اور وقفے وقفے سے اپنے ننھے ننھے ہونٹ شیریں کے گالوں کو مس کرکے اس کے وجود کا یقین کرتا رہا۔
جب وہ گھر پہنچے اور سعدیہ نے دروازہ کھولا تو وہ شیریں اور اس کی گود میں فیصل کو دیکھ کر حیران رہ گئی۔ لبوں نے کچھ پوچھنا چاہا مگر اسی وقت عدنان بھی آکر کھڑے ہوگئے۔ ’’آئیں عدنان بھائی کھانا کھاتے ہیں، بڑی سخت بھوک لگی ہے۔‘‘ عادل ان کو دیکھ کر چہکتا ہوا بولا۔
’’نہیں میرے بھائی! فیصل اپنی ماں کی گود میں پہنچ گیا، میرے بچے بھی اپنی ماں کے بغیر اداس ہیں۔ چلو سعدیہ گھر چلو!‘‘ خوشی اور نہ جانے کن جذبوں سے سعدیہ کی آنکھیں بھیگ گئیں اور وہ شیریں سے لپٹ گئی۔ شاید پہلی دفعہ ان دونوں میں محبت اور گرم جوشی کا معانقہ ہوا تھا۔ سب خاموش تھے مگر آنسو زبان بن چکے تھے۔ سبھی کچھ تو ادا کردیا تھا پانی کے ان نمکین قطروں نے۔ شیریں نے اپنے آنسو سمیٹتے ہوئے سعدیہ کو اپنے سے الگ کیا اور اس کے ماتھے پر ہلکے سے بوسہ دیا اور خدا حافظ کہا۔ عدنان نے حرا کو گود میں لیا، سعدیہ نے سامان سمیٹا اور وہ دونوں روانہ ہوگئے۔ اتنی جلدی کہ ابا اور امی سے بھی نہ مل سکے جو کمرے میں نماز پڑھ کر فیصل کی صحت یابی کے لیے وظیفہ پڑھ رہے تھے اور آوازیں سن کر وہیں آگئے تھے۔
جیسے ہی وہ لوگ روانہ ہوئے عادل نے ایک بہت بڑا سانس لیا، گویا کئی گھنٹوں بعد لیا ہو، اور بولا ’’خدا کا شکر ہے سعدیہ اپنے گھر دفعان ہوئی، ورنہ اُس کے ہاتھ کے پکے کھانے کھا کر میں تو بہت نقاہت محسوس کررہا تھا! لائیں بھائی جان جلدی سے پیسے دیں، باہر سے تکے کباب لے کر آتا ہوں۔‘‘ فضا سب کے قہقہوں سے گونج اٹھی جن میں فیصل کی معصوم کھلکھلاہٹ بھی تھی۔کھانے پر سب خوش تھے۔
’’یہ فیصل کا بچہ تو لیڈر بنے گا بڑے ہوکر! کیسی کامیاب بھوک ہڑتال کی ہے اس نے!‘‘ عادل نے کھانے سے بھرپور انصاف کرتے ہوئے کہا، پھر شیریں سے مخاطب ہوکر بولا:
’’ویسے بھابھی جان اس نے ہم سب کی خوب ترجمانی کی۔ سب کا برا حال تھا۔ دیکھیں امی جان کا دو دن میں ہی اتنا بلڈ پریشر ہائی ہوگیا…ابا جان کو نہ کل سے گھنٹے گھنٹے والی چائے ملی ہے اور نہ خبروں پر تبصرہ ہوسکا ہے۔ خود میرا کمرہ ملبہ بن کر رہ گیا ہے، کوئی چیز مل کر نہیںدے رہی، اور رہے بے چارے بھائی جان، تو ان کا تو پورا مستقبل ہی خطرے میں تھا…!‘‘ اس نے سہیل کو معنی خیز نظروں سے دیکھا۔
’’…فکر نہ کرو، آجائے گی تمہارا کمرہ سمیٹنے والی بھی! کیوں فیصل! چاچا سے کہو شادی کرلیں!!‘‘
’’چاچا کی شادی، آ ہا…‘‘ اس نے تالیاں بجانی شروع کردیں۔
’’مگر کس سے؟‘‘ عادل نے تجسس سے پوچھا۔ ’’ریما سے!‘‘ شیریں نے جواب دیا۔
’’…مگر وہ تو فیصل کی امی بن رہی تھیں۔کہیں اس کو میری دلہن بناکر آپ اپنا مستقبل تو محفوظ نہیں کرنا چاہتیں…کیوں بھائی جان؟‘‘ اس نے شرارت سے بھائی کو دیکھا مگر سہیل کے چہرے پر غصے کے آثار دیکھ کر سہمنے کی اداکاری کرنے لگا۔ فیصل بے چارے کی سمجھ میں کچھ نہ آیا تھا، وہ شیریں کے ہاتھوں پر اپنے ننھے ننھے ہاتھ رکھ کر بولا ’’میری امی تو یہ ہیں!‘‘ گویا اس نے پھر اپنا فیصلہ سنا دیا۔
’’کیوں، ریما اتنی پیاری لڑکی ہے! تمہارے ساتھ اس کی جوڑی بہت اچھی لگے گی۔‘‘ شیریں ڈائننگ ٹیبل سے اٹھ کر اپنی ساس کے برابر میں بیٹھتے ہوئے بولی۔ ’’کیوں امی جان! میں ٹھیک کہہ رہی ہوں ناں؟‘‘ امی تو تذبذب کا شکار تھیں مگر عادل بول پڑا:
’’… سوچ لیں بھابھی جان! اگر ریما یہاں آگئی تو پھر عذرا آپا بھی اپنے اسلحہ سے لیس آئیں گی۔ پھر وہی چپقلش شروع…‘‘
’’کوئی نہیں ہوگی۔ وہ کوئی دشمن تو نہیں ہیں، بڑی ہیں ہم سب کی…!‘‘
’’بس بس رہنے دو اپنی عالی ظرفی!‘‘ سہیل نے اس بحث میں پہلی مرتبہ حصہ لیا اور مارے غصے کے اپنی کرسی سے اٹھ کر کھڑے ہوگئے… ادلے بدلے کی شادی کا میں ہرگز فیور نہیں کروںگا…!‘‘ سختی سے اپنی بات ختم کرکے وہ کمرے کی طرف چلے گئے۔ کچھ زیادہ ہی جلے ہوئے تھے وہ عذرا آپا کی حرکتوں سے۔
’’دیکھ لیں! بھائی جان نہیں مانیں گے۔‘‘ عادل دل مسوس کر بولا۔
’’وہ مان جائیں گے! تم اپنا مائنڈ بنائو اور ادلے بدلے کا کیا سوال؟ یہ رشتے تو خوشی کے ہوتے ہیں، ان میں بلیک میلنگ کی سیاست کا کیا کام؟ دیکھو اگر عدنان بھائی سعدیہ کے ساتھ برا سلوک کریں تو عدل تو یہی ہے کہ تم ویسا ہی سلوک ریما کے ساتھ کرو، مگر میرے بھائی عدل سے آگے بھی ایک منزل ہے احسان! وہ یہ کہ تم ریما سے بدسلوکی نہ کرو خواہ سعدیہ یا امی تمہیں کتنا ہی اکسائیں۔ یہ باتیں بظاہر کتابی لگیں گی مگر ان پر عمل ہماری زندگی کو جنت بنا سکتا ہے۔ میں ٹھیک کہہ رہی ہوں ناں ابا جان…‘‘
’’ہاں بیٹے! تم بالکل ٹھیک کہہ رہی ہو۔‘‘ ابا جان پیار سے اپنی بہو کو دیکھتے ہوئے بولے ’’تم جیسے خیالات رکھنے والے دنیا میں ناپید ہیں! کاش اکثریت ایسا ہی سوچنے لگے۔ یہ ہم مرد ہی ہوتے ہیں جو خود غلط فیصلہ کرتے ہیں اور نام عورت کا آتا ہے کہ اس نے بہکایا۔ گھر کو ٹوٹنے سے بچانے میں مرد کا کردار بہت اہم ہے۔‘‘
ادھر جب سعدیہ اور عدنان گھر پہنچے توعذرا آپا ان دونوں کو دیکھ کر سوچ میں پڑ گئیں، پھر ہڑبڑا کر بولیں:
’’فیصل کہاں ہے؟ کیسا ہے وہ…؟‘‘ سعدیہ چپ کھڑی تھی، عدنان نے خاموشی توڑی ’’اپنی ماں کے پاس اور کہاں…؟‘‘
’’تو کیا خدانخواستہ فیصل؟؟ سیما…؟‘‘ ان کی آنکھیں ڈبڈبانے لگیں۔
’’فیصل اپنے ماں باپ کے پاس ہے…!‘‘ اب عدنان نے بات کو زیادہ واضح کرکے کہا۔
’’تو کیا وہ آگئی…؟ فیصل پر تو اس نے جیسے جادو سا کیا ہوا ہے! ایسی ہی محبت تھی تو چھوڑ کر کیوں گئی؟ آخر سوتیلی…‘‘ سگی اور سوتیلی ماں کے فرق پر ان کا بیان جاری رہتا مگر عدنان نے چشمے کے اوپر سے اتنی زور سے عذرا آپا کو گھورا کہ اگر وہ نمک یا شکر کی بنی ہوتیں تو پگھل چکی ہوتیں۔ مگر اس بدلتی ہوئی نظر نے ان کو ماحول کے بدلنے کا احساس دلا دیا۔ چنانچہ صبح ہوتے ہی وہ اپنے گھر روانہ ہوگئیں اور سعدیہ نے سکون کا سانس لیا۔
رات کو وہ لوگ گھر آئے تو ریما سو چکی تھی۔ صبح اس کو سعدیہ کے آنے کی خبر ہوئی تو اس نے شکایت بھرے لہجے میں کہا:
’’آپ کیوں چلی گئی تھیں سارہ، زارا کو چھوڑ کر؟ سچ بھابھی! یہ آپ کو اتنا یاد کررہی تھیں، مجھے تو تنگ کرکے رکھ دیا دونوں نے…‘‘ پھر جب اسے پتا چلا کہ عذرا آپا بھی چلی گئی ہیں تو وہ اپنی خوشی نہ چھپا سکی ’’…اُف خدا کتنی اچھی صبح ہے! جبھی تو میںکہہ رہی تھی کہ میں اتنی دیر تک سوتی رہی اور کسی نے مجھے جھنجھوڑا نہیں۔کتناخوشگوار لگ رہا ہے…آج تو میں ڈٹ کر ناشتا کروں گی…آپا نے تو زندگی اجیرن کر رکھی تھی، ہر وقت روک ٹوک۔‘‘ سعدیہ کو اپنی ہنسی ضبط کرنی مشکل ہوگئی اور وہ بولتی رہی ’’کتنی اچھی ہیں شیریں بھابھی! ہر وقت ہنستی رہتی ہیں، مگر بس آپا تو اُن کا پیچھا پکڑ لیتی ہیں…اب کتنا مزا آتا ہے چچا جان کے گھر جاکر، ورنہ سیما باجی کے انتقال کے بعد تو جاتے ہوئے ڈر لگتا تھا۔ فیصل کو کتنا پیار کرتی ہیں اور سہیل بھائی بھی اب کتنا خوش رہنے لگے ہیں…‘‘ یہ شیریں کے حق میں ایک سچی گواہی تھی جو ایک معصوم اور سادہ فطرت لڑکی کے منہ سے نکلی، حالانکہ بظاہر ان دونوں میں ایک خطرناک سا رشتہ تھا۔
جس دن عذرا آپا گھر گئیں اُس کے اگلے دن اُن کے شوہر ارشد بھائی نے عدنان کو آفس میں فون کیا اور بولے’’آپ نے طوفان کو میرے گھر کا راستہ دکھا دیا ہے! کیا وہاں کوئی چیز تباہ کرنے کو باقی نہیں رہی؟‘‘
عدنان نے ہنستے ہوئے کہا ’’عذرا آپا کو ٹھیک کرنا آپ کا کام ہے!‘‘
’’ہاں میری ہی گردن سب سے پتلی ہے ناں!‘‘ وہ بے بسی سے بولے۔
زندگی بحران سے نکل کر کتنی خوشگوار ہوگئی تھی۔ اب یہ بات نہیں کہ گھر میں اس کے بعد پھر کوئی اونچ نیچ نہ ہوئی۔ زندگی میں دکھ، پریشانیاں اور چھوٹے موٹے جھگڑے آہی جاتے ہیں، ان کا کیا گلہ! مگر دلوں کو وسیع ہونا چاہیے۔ دلوں میں کوئی دراڑ نہ ہو ورنہ گھر مضبوط قلعے کے بجائے ریت کا گھروندہ ثابت ہوتے ہیں!
آج عید تھی۔ ہر طرف خوشیاں، مگر احمد ولا میں کچھ دوبالا تھیں، کیونکہ آج ہی شیریں کی جڑواں بیٹیوں کی تقریبِ عقیقہ تھی۔ سعدیہ گھر میں داخل ہوئی تو شیریں اس کی آمد سے بے خبر ٹیلی فون پر کسی سے باتوں میں مصروف تھی۔ دوسری طرف سے شاید بچیوں کی شکل و صورت کے بارے میں پوچھا گیا۔ شیریں اپنے مخصوص لہجے میں بول اٹھی:
’’ماشاء اللہ دونوں اپنی پھپھو پر ہیں۔ دیکھو تو پیار آجائے۔‘‘ شیریں باتوں میں مگن تھی اور سعدیہ نے سوچا ’’بھابھی یہ بھی تو کہہ سکتی تھیں کہ شکل پھپھو پر ہے…اللہ نہ کرے مزاج بھی اس جیسا ہو۔‘‘
انصاف کا تقاضا تو یہی تھا، مگر سعدیہ کو اندازہ نہ تھا کہ جو لوگ عدل کی منزل سے گزر جاتے ہیں احسان کے لیے اُن کا دروازہ خودبخود کھل جاتا ہے!

حصہ