ماریہ عندلیب
بچھڑے ہوئے یاروں کی صدا کیوں نہیں آتی
اب روزنِ زنداں سے ہوا کیوں نہیں آتی
اے موسمِ خوشبو کی طرح روٹھنے والے
پیغام تیرا لے کے صبا کیوں نہیں آتی
کہتے ہیں وقت سب سے بڑا مرہم ہوتا ہے۔ ایک ایسا مرہم جو بڑے سے بڑا زخم مندمل کردیتا ہے۔ لیکن بعض زخم ایسے ہوتے ہیں جو وقت گزرنے کے ساتھ بجائے بھرنے کے رسنے لگتے ہیں۔
یہ زخم دراصل ناسور ہوتے ہیں… ایسے ناسور جن کا دکھ انسان کو قبر میں لے جاتا ہے… اور جن کا فیصلہ روزِِ محشر اللہ تعالیٰ کی عدالت میں ہی ہوگا۔
آج سے قریباً نصف صدی قبل ہونے والا قیامت خیز واقعہ بھی ایک ایسا ہی سانحہ ہے۔ 46 سال پہلے پاکستان کا ایک بازو کٹ کر الگ ہونے والا زخم… ایسا کاری وار جوگھات لگائے دشمن نے آستین کے سانپوں کے ساتھ مل کر ایسے کیا کہ ملک کی بنیادیں ہل کر رہ گئیں۔
دیکھا جو تیر کھا کے کمین گاہ کی طرف
اپنے ہی دوستوں سے ملاقات ہو گئی
جب ضمیر فروشوں اور ملک دشمنوں کی فوجِ ظفر موج، مجیب و مکتی باہنی اور ’’اُدھر تم اِدھر ہم‘‘ کے زہر آلود نعرے دینے والے غدار وں نے چند ٹکوں کے عوِض اپنے ضمیر ہی نہیں دھرتی ماں کا سودا کیا۔
دوسری جانب ملک و قوم کی محبت سے لبریز، مٹی کے البدر اور الشمس جیسے بیٹوں نے اپنے لہو سے قربانیوںکی وہ عظیم اور لازوال داستان رقم کی جس کی مثال نہیں ملتی۔
مٹی کی محبت میں ہم آشفتہ سروں نے
وہ قرض اتارے ہیں جو واجب بھی نہ تھے
وقت کا پہیہ تیزی سے یوں چلا کہ قیامت جیسے لمحے مہینوں اور برسوں کا سفر طے کر گئے… مگر ایک بار پھر عیار دشمن کے مکار افسر نے کہا کہ ہم وہاں زخم لگائیں گے جہاں انہیں سب سے زیادہ تکلیف ہوگی۔
پھر چشمِ فلک نے دیکھا کہ بزدل ہندو بنیے نے ایسی گھنائونی حرکت کی کہ دنیا کی تاریخ میں جس کی نظیر نہیں ملتی۔
حادثے سے بڑا سانحہ ہوگیا
16دسمبر 2014ء کی وہ صبح، جب مائوں نے اپنے لختِ جگر اسکول روانہ کیے تو وہ نہیں جانتی تھیں کہ ان کے بچے آج پھر کبھی واپس نہ آنے کے لیے جارہے ہیں۔
یہ جدائیوں کے رستے بڑی دور تک گئے ہیں
وہ معصوم جب اسکول روانہ ہوئے تو ان کا استقبال بزدل دشمن کی گولی اور بارود نے ایسے کیا کہ وہ منوں مٹی تلے جا سوئے۔
ان صورتوں کو ترسے گی چشم جہاں کہ آج
کمیاب ہیں تو کل ہمیں نایاب دیکھنا
جو زندہ بچے
’ وہ‘
اپنے پیاروں کی یاد یں بتانے کو زندہ…
اس حادثے کے بعد ہم نے قارئین کی نذر ان کی آپ بیتی انہی کی زبانی کی تھی۔ آج 3 برس بعد ہم نے ان سے رابطہ کیا تاکہ جان سکیں کہ وہ اس دکھ، صدمے اور تکلیف سے نکل پائے کہ نہیں… گزرے ماہ و سال کے دن ان کے لیے کتنے کٹھن، کتنے آسان رہے… آئیے انہی سے سنتے، جانتے ہیں:
سنڈے میگزین: 16دسمبر اپنے ساتھ آپ لوگوں کے لیے کیا یادیں لاتا ہے؟
مہتاب: 16 دسمبر خوفناک اور درد بھری یادوں کے ساتھ ہر سال آتا ہے… اور ہمارے دلوں پر لگے گھائو گہرے اور مزید گہرے کردیتا ہے۔ لوگوں کی نظروں میں مہینے برسوں میں بدل رہے ہیں… دن تیزی سے گزر رہے ہیں، لیکن ہمیں لگتا ہے ہم وہیں کھڑے ہیں۔
ہمارے لیے لمحے ٹھیر گئے ہیں، وقت تھم گیا ہے اور ماہ و سال منجمد ہوگئے ہیں۔ گو لوگوں کے لیے لمحے بیت رہے ہیں…آرہے ہیں، جا رہے ہیں… اور وہ آگے بڑھ رہے ہیں۔ لیکن ہم تو جیسے جم سے گئے ہیں۔
وہ سارے مناظر میری آنکھوں کے سامنے تازہ ہیں۔ موت بھی میرے بھائی کو مجھ سے الگ نہ کرسکی۔ آج بھی میرا بھائی میرے ساتھ رہتا ہے۔ میں اُس کے ساتھ اٹھتا بیٹھتا، باتیں کرتا ہوں۔ اُس کے ہونے کا احساس ہمیشہ میرے ساتھ ہے۔ لیکن یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ ہم نے اسے کھو دیا۔
16 دسمبر اپنے ہمراہ ہمارے اپنوں کی یادیں لاتا ہے۔ نہ صرف بھائی بلکہ اپنے دیگر ساتھیوں کی یاد شدت سے ستاتی ہے۔ بالخصوص کلاس 8 جس کے تقریباً تمام ہی طلبہ اس وحشت ناک واقعے میں شہید ہوگئے ،کی باتیں آج بھی رلاتی ہیں۔
اس دن اپنے پیاروں کی صدائیں کانوں میں گونجتی ہیں۔ یہ درد تیر کی طرح دل میں پیوست ہے کہ بھائی نے مجھے مدد کے لیے پکارا ہوگا، آواز دی ہوگی، اُس کی نظروں نے مجھے تلاشا ہوگا۔
لیکن وہاں زہرآلود بارودی فضا میں کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی تھی، اُس کی آواز مجھ تک کیسے آتی؟ گو سفاک دہشت گرد کراہتے زخمی بچوں کو دوبارہ پلٹ کر نشانہ بناتے، مگر یہ سب کرنے میں انہیں آدھا، پونا گھنٹہ لگا۔ اس اثناء فائرنگ کے شور میں کی جانے والی مدد کی پکار آج بھی ایسے ہی تازہ ہے گویا کل ہی کی بات ہو، جب موت بانٹنے والے دہشت گردوں نے مجھ سے میرا بھائی جدا کیا۔
بھائی کو تکلیف پہنچنے کا احساس مجھے مضطرب کردیتا ہے۔ کانٹا بھی چبھے تو انسان کی چیخ نکلتی ہے۔ جب اس کے جسم میں گولیوں نے سوراخ کیے توکیا وہ تڑپا نہ ہوگا؟ یقینا اس کرب میں اس نے ممی پاپا اور مجھے بلایا ہوگا۔ کبھی کبھی خیال آتا ہے کاش اُس کی جگہ میں ہوتا۔
سنڈے میگزین: سانحہ آرمی پبلک اسکول پشاور کو تین برس بیت۔ کیا آپ اس صدمے سے باہر آسکے؟
مہتاب: دن، ماہ و سال آپ کہہ رہی ہیں کہ گزرگئے، لیکن ہمیں تو لگتا ہے کہ جیسے آج ہی کی بات ہو جب ہم دونوں اسکول جا رہے تھے۔ اُس روز ہم بہتexcited تھے، کیونکہ آرمی ڈاکٹرز نے ایمرجنسی کی صورت میں دی جانے والی فرسٹ ایڈ ٹریننگ دینا تھی۔ اور وہ بھی دوسری کلاسز کے ساتھ آڈیٹوریم میں۔
سب اسٹوڈنٹس کی طرح وہ بھی روٹین کلاسزکے علاوہ ہونے والی سرگرمیاں enjoyکرتا تھا۔ اس کا زندگی سے بھرپور چہرہ اس وقت بھی مجھے یاد ہے اور ہمیشہ یاد رہے گا۔ گھر میں ممی، پاپا اور سب کو ایسا لگتا ہے کہ وہ اچانک آکر ہمیں سرپرائز دے گا۔ مما کی آنکھوں پر پیچھے سے ہاتھ رکھ کر پوچھے گا: بوجھیے کون؟
جانے والوں کو نہ روکو کہ بھرم رہ جائے
تم پکارو بھی تو کب اس کو ٹھہر جانا ہے
اس کی آنکھیں ڈبڈباتی دیکھ کر ہم نے اس سے سوال کیاکہ اس کی شہادت پر فخر ہوتا ہے؟
کچھ توقف کے بعد اپنی آواز پہ قابو پاتے ہوئے وہ یوں گویا ہوا: یہی ایک بات ہم سب کو ڈھارس دئیے ہوئے ہے۔ وہ بڑے کہتے ہیں ناں کہ جانا تو سب کو ہے۔ بالکل صحیح کہتے ہیں۔ مگر وہ بہت جلدی چلا گیا۔ تاہم جس رستے میں وہ شہید ہوا وہ یقینا خوش نصیبوں کا مقدر بنتا ہے۔
ہمیں اس کی شہادت پہ ناز ہے اور شاید یہی وجہ ہے کہ اس کے جانے کے باوجود اس کے ہونے کا احساس ہمیشہ پاس رہتا ہے۔ ہم ہی نہیں ہمارا علاقہ، شہر اور صوبہ ان شہدا کو اپنا ہیرو مانتے ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ اس واقعے کے بعد دور دراز علاقوں میں مقیم طلبہ (کی ریکارڈ تعداد) نے جہاد بالعلم کرنے کے لیے ہمارے اسکول کا انتخاب کیا۔
سنڈے میگزین: کیا آپ حکومتی سطح پر اٹھائے گئے اقدامات سے مطمئن ہیں؟
مہتاب: حکومتی سطح پر اٹھایا جانے والا کوئی بھی step ہمارے شہداء کو واپس نہیں لا سکتا۔ البتہ حکومتی سطح پر ایسا مربوط نظام تشکیل دیا جا سکتا ہے جس کے تحت مجرموں کو جلد اور فوری سزا دی جائے۔ قانون کی عمل داری کے ذریعے ہی مستقبل میں ایسے کسی واقعے سے بچا جا سکتا ہے۔
سنڈے میگزین: کیا نئے دوستوں کے آنے سے پرانے دوستوں کی جدائی کا غم کم ہوا؟
مہتاب: نئے آنے والے زندگی میں آئے لیکن پرانے دوست اور ساتھی ہمیشہ کی طرح ساتھ ہیں۔ بھلانا بھی چاہیں تو بھلا نہیں پاتے۔ وہ زندہ نہیں تو کیا، قدم قدم پر ان کی یادیں زندہ ہیں۔
سنڈے میگزین: اپنے بھائی کی یاد کب کب ستاتی ہے؟
مہتاب: آپ سب تو 16 دسمبر کے دِن ان شہداء کو یاد کرتے ہیں۔ ہمارے ساتھ تو ان کی یاد سایہ بن کر رہتی ہے۔ صبح اسکول جاتے ہوئے، بریک میں لنچ کرتے ہوئے، اسکول سے واپس آتے ہوئے، شام کو گرائونڈ میں کھیلتے ہوئے… وہ ہمہ وقت میری یادوں میں ہوتا ہے۔
ہرعید (بطورِ خاص بقرعید)، تہوار اور ہرہر فنکشن پر تو وہ شدت سے یاد آتا ہے۔
سنڈے میگزین: اس واقعے کو گزرے تین سال ہوگئے۔کیا اب اسکول آنا جانا آسان ہوگیا ہے؟
مہتاب: اسکول آنا آسان یا مشکل کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اسکول تو آنا ہی ہے۔ علم حاصل کرنا، مزید پڑھنا اور آگے بڑھنا ہے۔ حدیث کا خلاصہ ہے: علم مومن کی گمشدہ متاع ہے۔ متاعِ حیات کے حصول کے لیے درسگاہ سے اپنا رشتہ بنائے رکھنا ہے۔
ہم اگر گھر بیٹھ جائیں گے، ڈر کے اسکول ہی نہیں جائیں گے، تعلیم کو خیر بادکہہ دیں گے تو اس سے ہمارے دشمن کا ایجنڈا پورا ہوگا۔ دشمن تو یہی چاہتا ہے کہ ہم جاہل رہیں۔ جبکہ ہمیں تو خشکی کا سینہ چیرنا، افلاک کی وسعتوں کو پانا، سمندروں کے خزینے دریافت کرنا، اپنا مقام بنانا، اپنے والدین اور ملک کا نام روشن کرنا ہے۔