حب الٰہی اور اس کے تقاضے

2697

حمنہ جمیل
عربی زبان میں محبت کے معنی دل کی چاہت اور قلبی میلان کے ہیں۔ حسی اور جبلی محبت ادنیٰ قسم کی محبت ہے، جب کہ اعلیٰ قسم کی محبت عقلی اور شعوری محبت ہے جس کی بنیاد فضیلت ہے۔
عقلی اور شعوری محبت اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی محبت سب محبتوں پر فائق ہو۔
حدیثِ مبارکہ ہے ’’جس نے اللہ تعالیٰ کے لیے محبت کی اور اللہ تعالیٰ کے لیے بغض رکھا، اور اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے عطا کیا اور اللہ تعالیٰ کے لیے روکا تو اس نے ایمان مکمل کیا۔‘‘
چونکہ اللہ تعالیٰ بھی اپنے بندے سے بہت زیادہ محبت کرتے ہیں، ماں کی محبت مثالی ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ ماں سے بھی کئی گنا زیادہ محبت کرتے ہیں تو بندے کا بھی فرض ہے کہ وہ جس سے محبت کرے اللہ کی رضا کے لیے کرے۔
قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے ’’اور جو ایمان والے ہیں وہ اللہ کی محبت زیادہ سخت رکھتے ہیں۔‘‘ اللہ کی خاطر محبت کرنے والوں کا مرتبہ بہت بلندہے، اس کا اندازہ اس حدیثِ مبارکہ سے کیا جاسکتا ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’اللہ تعالیٰ کے بندوں میں سے کچھ ایسے لوگ ہیں جو نہ نبی ہیں نہ شہید، پھر بھی انبیاء اور شہدا قیامت کے دن ان کے مرتبے پر رشک کریں گے جو انہیں اللہ تعالیٰ کے ہاں ملے گا۔‘‘
لوگوں نے کہا کہ ’’اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم وہ کون لوگ ہوں گے؟‘‘ آپؐ نے فرمایا ’’یہ وہ لوگ ہوں گے جو آپس میں ایک دوسرے کے رشتے دار نہ تھے اور نہ آپس میں لین دین کرتے تھے بلکہ محض خدا کے دین کی بنیاد پر ایک دوسرے سے محبت کرتے تھے۔ بخدا ان کے چہرے نورانی ہوں گے اور ان کے چاروں طرف نور ہی نور ہوگا۔ انہیں کوئی خوف نہ ہوگا اُس وقت جب لوگ خوف میں مبتلا ہوں گے، اور کوئی غم نہ ہوگا اُس وقت جب لوگ غم میں مبتلا ہوںگے۔‘‘
پھر آتا ہے کہ انسان کسی سے بغض رکھے تو اللہ کے لیے رکھے، یعنی اگر مومن کسی سے دشمنی رکھے تو صرف اس بات پرکہ اگر وہ اللہ کے دین کے خلاف ہو۔ اس کی بہترین مثال صحابہ کرامؓ تھے جو مکہ مکرمہ میں اپنے قریبی رشتے داروں، اور کئی تو اپنے بیوی بچوں کو بھی چھوڑ کر آگئے تھے۔ جنگِ بدر میں مومن اپنے قریبی رشتے داروں، اپنے بھائیوں سے لڑ رہے تھے، کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ کے دین اور اللہ کے رسولؐ کے دشمن تھے۔ جیسا کہ ارشاد ہوتا ہے ’’الحب ﷲ وبغض ﷲ۔
اسی طرح اگر مومن اللہ کی راہ میں کچھ دیتا ہے یا دینا چاہے تو اس کی غرض و غایت صرف اللہ کی رضا ہونی چاہیے نہ کہ ریاکاری، دکھاوا یا کوئی ذاتی مفاد۔
ہماری زکوٰۃ، صدقہ، خیرات، مساجد کی امداد اور جہادی فنڈ وغیرہ صرف اُسی وقت قبول ہوتے ہیں اور خیر و برکت و ثواب کا باعث بنتے ہیں جب ان سے مقصود اللہ تعالیٰ کی رضا ہوتی ہے۔
اور اسی طرح حدیث کے آخری حصے میں آتا ہے کہ کسی کی امداد روکنے میں بھی اللہ تعالیٰ کی رضا شامل ہونی چاہیے، یعنی کسی دوست کو مالی امداد دی جاتی ہو اور پتا چلے کہ وہ اس امداد کو برائی کے راستوں پر خرچ کرتا ہے تو اس کی امداد بند کردو، اللہ کی رضا کے لیے۔
اس حدیث ِمبارکہ سے واضح ہوتا ہے کہ مومن کا ہر کام، ہر عمل اللہ کی رضا کے لیے ہونا چاہیے۔ ان طریقوں پر عمل کرکے ہی انسان اللہ کی قربت اور محبت کی بلندیوں کو چھو سکتا ہے۔
دلوں کو معرفت کے نور سے تُو نے کیا روشن
دکھایا بے نشاں ہو کر اپنا نشاں تُو نے
حضرت ابوذرؓ بیان کرتے ہیں کہ رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’افضل ترین عمل یہ ہے کہ اللہ ہی کے لیے دوستی رکھی جائے اور اللہ ہی کے لیے دشمنی رکھی جائے۔‘‘
یعنی کسی سے محبت کی جائے تو اس لیے کہ اللہ کو ایسا کرنا پسند ہے، مثلاً جیسے رسولؐ سے محبت، صحابہ کرامؓ سے محبت، نیک لوگوں سے محبت، والدین، رشتے داروں سے محبت وغیرہ۔ اور ایسے ہی کسی سے نفرت ہو تو کسی ذاتی غرض کے لیے نہ ہو مثلاً اُس مشرک سے نفرت کرنا جو سمجھانے کے باوجود شرک سے باز نہیں آتا، اُس بدزبان سے نفرت کرنا جو سمجھانے بجھانے کے باوجود ہر ایک کی عزت خراب کرتا ہو۔
حضرت ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’اللہ تعالیٰ قیامت کے دن فرمائے گا کہ کہاں ہیں وہ لوگ جو میری بزرگی اور عظمت کے خیال سے ایک دوسرے سے محبت رکھتے تھے۔ آج کے دن جب کہ میرے سائے کے سوا کوئی سایہ نہیں میں انہیں اپنے سائے میں جگہ دوں گا۔‘‘ (مسلم)
ہمارے دلوں میں اللہ تعالیٰ کی محبت کا جگہ پکڑ لینا وہ خوش بختی ہے کہ جب یہ حاصل ہوجائے تو یہ دنیوی زندگی بہشت بن جاتی ہے، یعنی جب حُبِّ الٰہی کا جذبہ دنیوی زندگی کی مشکلات و مصائب کی شدت اور اذیت کو بے انتہا کمزور کردیتا ہے اور بہت سے ایسے حادثات و واقعات جنہیں عام لوگ بڑی مصیبتیں سمجھتے ہیں حُبِّ الٰہی کا جذبہ رکھنے والوں کے لیے سرے سے مصیبتیں بنتی ہی نہیں۔ غرضیکہ حُبِّ الٰہی کا جذبہ ایک ایسا مخلص، ہمدرد اور دل سوز رفیق ہے جو ہر دم ساتھ رہتا، ہر پریشانی میں دل جوئی کرتا، ہر بے کار غم سے بچاتا اور ہر کارآمد غم میں سہارا بنتا ہے۔ مولانا رومؒ نے حُبِّ الٰہی کو دل کی تمام بیماریوں کا علاج بتایا ہے اور فرماتے ہیں:
شاد باش اے عشقِ خوش سودائے ما
اے طبیبِ جملہ علّت ہائے ما

حصہ