مریم رب نواز
’’بابا جانی! کب فارغ ہوں گے آپ؟ جلدی کریں ناں…‘‘ ہانیہ نے کھانے کے بعد بھی بابا کو کتابوں میں غرق دیکھ کر رونی صورت بنا کر کہا۔
’’میری جان! میں آپ کا ہی انتظار کررہا تھا… آئیں، بیٹھیں۔‘‘ بابا جان محبت میں اسے یونہی مخاطب کرتے۔ انہوں نے اپنی کتابیں سمیٹ کر ہانیہ کے لیے جگہ بنائی۔ ہانیہ جب سے اسکول سے آئی تھی، بابا جان کا دماغ کھا رہی تھی۔ اس کے اسکول میں 16 دسمبر کے حوالے سے Speak Forum کا انعقاد کیا گیا تھا جس میں طلبہ و طالبات کو مختلف عنوانات پر مدلل انداز میں اپنی بات ثابت کرنا تھی۔ ہانیہ کو ’’سقوطِ ڈھاکا اور ہمارا کردار‘‘ کے عنوان پر بات کرنا تھی، اسی کے لیے عبدالصمد صاحب صبح سے کتب بینی میں مصروف تھے۔ انہیں تاریخ سے بے انتہا دلچسپی تھی اور جب تاریخ کی کوئی کتاب ان کے ہاتھ لگ جاتی اُسے جب تک مکمل نہ کرلیتے انہیں سکون نہ آتا، اور ہانیہ اس بات سے بہت چڑی ہوئی تھی کیوں کہ اس کو کل اپنی تقریر فائنل کرکے ٹیچر کو دکھانی تھی۔ ہانیہ کے کہنے پر انہوں نے کتابیں رکھ دیں۔
عبدالصمد خان نیازی صاحب تقسیم سے قبل ہندوستان کے ایک چھوٹے سے قصبے میں اپنے گھر والوں کے ساتھ مقیم تھے۔ ان کی پانچ بہنیں اور سات بھائی تھے۔ جب تقسیمِ پاک و ہند ہوئی تو دیگر مسلمانوں کے ساتھ اُن کے گھر والوں نے بھی ہجرت کا ارادہ کیا اور ایک بڑے قافلے کے ساتھ ہوگئے۔ ہجرت میں ان لوگوں نے بڑی مشقتوں کا سامنا کیا اور پاکستان صرف عبدالصمد صاحب اور ان کی دو بہنیں ہی لٹی پٹی حالت میں پہنچ سکے۔ عبدالصمد صاحب کے ایک بڑے بھائی عبدالاحد خان پہلے ہی اپنی فیملی کے ساتھ پشاور میں مقیم تھے، ہجرت کے بعد یہ لوگ اُن کے پاس ہی ٹھیر گئے۔
وقت سرکتے سرکتے ان کے زخموں پر مرہم رکھتا گیا، لیکن یہ انہی قربانیوں کا نتیجہ تھا کہ ان کی حب الوطنی بے مثال تھی۔ آج بھی کوئی ان کے سامنے قیام پاکستان یا ہجرت کے حوالے سے بات کرتا تو ان کی آنکھیں نمناک ہوجاتیں۔
عبدالصمد اور ان کے بھائی عبدالاحد دونوں ایک ہی گھر میں الگ الگ پورشن میں رہتے۔ عبدالاحد کو اللہ تعالیٰ نے ایک بیٹے عثمان اور بیٹی بینا سے نوازا تھا، جب کہ عبدالصمد صاحب کے دو بیٹے عفان، عرفان اور بیٹی ہانیہ تھی۔
عثمان ماس کمیونی کیشن میں ماسٹر کے بعد اب جاب کررہا تھا۔ عفان MSC کے فائنل ایئر میں تھا، جب کہ عرفان نے اپنے لیے کیمیکل انجینئرنگ کی فیلڈ کو منتخب کیا تھا۔ بینا BSCکررہی تھی، اور گھر بھر کی لاڈلی ہانیہ عبدالصمد آرمی پبلک اسکول میں ابھی میٹرک میں تھی۔ خبریں آرہی تھیں کہ جنرل نیازی نے پاکستانی عوام کے جذبات کو روندتے ہوئے پاکستان اور پاکستانی عوام کا سر شرم سے جھکا دیا اور دشمن کے سامنے ہتھیار پھینک دیے۔ وہ ہانیہ کو بتا رہے تھے۔
یہ خبر پاکستان کے عوام پر بجلی بن کر گری تھی، یہ وہ مظلوم لوگ تھے جو اپنا سب کچھ چھوڑ کر پاکستان کی محبت میں ہجرت کرکے آئے تھے، جن کے اپنے عزیز ان سے بچھڑ گئے تھے، جن کی بہنوں کو ان کی آنکھوں کے سامنے غنڈے لے جاتے اور وہ کچھ کرنے کے قابل نہ ہوتے… جنہوں نے ان ماں باپ کی آخری سانسیں بہت قریب سے سنی تھیں جنہوں نے اپنی اولاد کو اپنی آنکھوں کے سامنے کٹ کر گرتے مرتے دیکھا تھا… اس سب کے باوجود جب لٹی پٹی حالت میں پاکستان کی سرزمین پر انہوں نے قدم رکھا تو وہ اپنی ساری تکالیف اور درد و غم بھول گئے، کیوں کہ انہوں نے اپنی منزلِ مقصود کو پا لیا تھا جس کے لیے انہوں نے یہ سب قربانیاں دی تھیں۔ مگر پاکستان بننے کے صرف 24 سال بعد مشرقی پاکستان کا علیحدہ ہونا… لوگ اس صدمے کو برداشت نہ کر پارہے تھے۔ ان کا دایاں بازو کاٹ کر الگ کردیا گیا تھا اور انہی کسی پل چین نہیں آرہا تھا۔ عبدالصمد صاحب کی آواز بھرّا رہی تھی۔ کسی غیر مرئی نقطے پر نگاہیں جمائے گویا وہ برسوں پیچھے چلے گئے تھے اور اپنی آنکھوں سے سب دیکھ رہے تھے۔ ہانیہ ہتھیلی پر ٹھوڑی رکھے ہوئے توجہ سے عبدالصمد صاحب کو سنتے اپنے آنسوئوں پر قابو پانے کی کوشش کررہی تھی۔
…٭…
’’خود اپنے گھر میں بگاڑ ہو جب، عدو سے آخر کوئی گلہ کیا؟
نحوستیں ساتھ لے کر وارد ہوئی ہے شامِ سقوط ڈھاکا
16 دسمبر1971ء سے آج کے دن تک کا عرصہ، درمیان میں برسوں گزر گئے لیکن یہ زخم آج تک مندمل نہ ہوسکا‘‘۔ ہانیہ پُراعتماد انداز میں تقریر کا آغاز کر چکی تھی۔
’’وہاں ڈھاکا کے پلٹن میدان میں شکست کے معاہدے پر دستخط نہیں ہوئے تھے بلکہ قوم کی عزت و وقار کو بیچ دیا گیا تھا۔ جنرل نیازی کا شکست کی طرف بڑھتا ہر قدم قوم کے جذبات کو روندتا جارہا تھا۔ یہ سانحہ اس قوم کے لیے ناقابلِ برداشت تھا جو اتنی قربانیوں کے بعد پاک وطن کے حصول میں کامیاب ہوسکی تھی۔ وطنِ عزیز کی تقسیم ان کو گوارا نہ تھی، اس وقت قوم کے اندر آہ و فغاں اور سوگ کا وہ عالم تھا جیسے کسی قریب ترین عزیز کی موت کی اطلاع آئی ہو۔‘‘ ہانیہ کی آواز بھرّا رہی تھی، بمشکل خود پر قابو پاتے ہوئے اس نے سلسلہ کلام کو وہیں سے جوڑا:
’’1971ء گزر گیا، مگر یہ ہماری قوم کا المیہ ہے کہ ہم نے اس سے عبرت حاصل کرنے کے بجائے اس باب کو ہمیشہ کے لیے بند کردیا۔
سقوطِ ڈھاکا محض 1971ء میں پیش آنے والا سانحہ نہیں بلکہ قوم پرستی کا ’’لاالٰہ الااللہ‘‘ پر حملہ ہے۔ آج حسینہ واجد اسی سقوطِ ڈھاکا کو بنگلہ دیش میں جاری رکھے ہوئے ہے اور بنگالیوں پر اپنے مظالم ڈھاتے ہوئے یہ پیغام دے رہی ہے کہ سقوطِ ڈھاکا ابھی تمام نہیں ہوا ہے… یہ جاری ہے اور بنگلہ دیش کی سرزمین پر اسلام کا نام لینے والے ہر فرد کا پیچھا کرے گا۔‘‘ ہانیہ پل بھر کو سانس لینے کے لیے رکی… سامعین اُس کی گفتگو سے خاصے متاثر نظر آرہے تھے۔
ہانیہ کو ان کی آنکھوں میں کچھ کر گزرنے کا جذبہ ہمکتا نظر آرہا تھا… وہ گویا ہوئی: ’’عزیزانِ محترم! ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم ان تمام تاریخی سانحات سے سبق لیں۔ آج پاکستان اپنی تاریخ کے دوراہے پر کھڑا ہے، ہمیں من حیث القوم اس کو بچانا ہے اور اس کے لیے تبدیلی کا سفر اپنی ذات سے شروع کرنا ہوگا۔‘‘ ہانیہ ابھی اختتامی کلمات ادا کررہی تھی کہ اچانک آڈیٹوریم کے دروازے پر کچھ دھماکا سا محسوس ہوا۔ شور… چیخ و پکار… گولیوں کی تڑتڑ… بھاری بوٹوں کی آوازیں… ہر طرف ہاہاکار مچی ہوئی تھی۔ لمحوں میں آڈیٹوریم کی حالت بدل گئی۔
اچانک ہانیہ کو اپنے شانے کے قریب گرم لوہے کی سیخ گھستی محسوس ہوئی۔ دماغ کچھ بھی سمجھنے سے قاصر تھا۔ اس نے ڈائس پر اپنے خون کو گرتے دیکھا تھا۔ کندھے کے قریب بہت تکلیف محسوس ہورہی تھی۔ اچانک اسے اپنے دائیں طرف سے آواز آئی۔ کچھ مانوس سی، شاید بابا جان کی… پھر اس پر تاریکیاں حاوی ہوتی چلی گئیں۔
…٭…
عبدالصمد خان اور عبدالاحد خان صاحب اپنے بیٹوں کے ساتھ آرمی پبلک اسکول کے آڈیٹوریم میں کھڑے تھے، ہر طرف خون کی مہک پھیلی ہوئی تھی، کرسیاں اوندھی پڑی تھیں۔ چلتے چلتے وہ ڈائس تک پہنچ گئے تھے۔ انہیں بتایا گیا تھا کہ ان کی لاڈلی پرنسس یہیں ڈائس پر کھڑی تھی جب…
آج صبح کی تو بات تھی، فقط چار گھنٹے پہلے جب اس نے نکلتے وقت بابا جانی کا ہاتھ چوم کر اپنی کامیابی کی دعا کے لیے کہا تھا، اور جب انہوں نے اسے تنگ کرنے کے لیے دعا سے منع کردیا تھا تو ہانیہ کتنے وثوق سے کہنے لگی تھی ’’بابا جان! مجھے اپنی کامیابی کا یقین ہے، کیوں کہ آپ میرے لیے دعا کرتے ہیں۔‘‘ اور وہ مسکرا اٹھے تھے۔ اسے کیا معلوم تھا کہ کامیابی تو اس کے لیے لکھی جا چکی ہے، ابدی زندگی کی کامیابی۔