نئے شاعر… تمثیل حفصہ

309

اسامہ امیر
تمثیل حفصہ کوئٹہ کے معروف ادبی گھرانے سے تعلق رکھتی ہیں‘ سعید گوہر ان کے والد ہیں اور دانیال طریر ان کے بڑے بھائی۔ ادبی گھرانے سے تعلق ادب اور آرٹ سے ان کی دل چسپی کا سبب بنا۔ انھوں نے دونوں شعبوں کی باقاعدہ تعلیم حاصل کی۔ اور فائن آرٹس میں ایم فل کرنے کے ساتھ ساتھ کوئٹہ کی ایک یونیورسٹی کے فائن آرٹس ڈپارٹمنٹ میں لیکچرار ہیں۔ ان کی خوش نصیبی ہے کہ ان کا شوق ہی ان کا پیشہ بنا۔ انھوں نے کافی ادبی کتابوں کے ٹائٹل بھی ڈیزائن کیے ہیں۔ شاعری کے ساتھ ساتھ کہانیاں اور افسانے بھی لکھتی ہیں۔ ان کے گھرانے میں کئی بڑے ادبی نام موجود ہیں۔ تمثیل حفصہ نے شاعری کا باقاعدہ آغاز تو کافی پہلے کیا لیکن ان کی توجہ آرٹ پر زیادہ رہی۔ ان کی پسندیدہ صنف غزل اور نظم ہے اور نثر میں بھی طبع آزمائی کرتی ہیں۔ ان کے بقول ہر منفرد لکھنے والا ادیب اور شاعر مجھے متاثر کرتا ہے۔
تمثیل بھرتی رہتی ہے ہر لفظ میں تو رنگ
پھر رنگ میں لپیٹ کے رکھ دیتی ہے تو لفظ
٭
سرخ وحشت، سبز آنکھیں، زہر نیلا، رات کالی
شور ماتم، راکھ ہر سو, گھولتے ہو، بولتے ہو
٭
میں آیت نیلے رنگوں کی
آکاش پہ لکھی جاتی ہوں
٭
میں اس لیے بھی نیند کو ترسی ہوں عمر بھر
تو سو سکے سکون سے تجھ کو سلا دیا
٭
اک خواب نور نور سے لپٹا ہوا تھا وہ
حیرت نے میری آنکھ کا پردہ ہلا دیا
٭
مجھ کو تنہائی کی آغوش میں ڈر لگتا ہے
جیسے بیٹھے ہوں میرے پاس میں سائے سائے
٭
جھیل کے پانی سے ہاتھوں میں اٹھایا تھا کنول
اس میں اک عکس بنا عکس میں پائے سائے
٭
رات کی آخری تلاوت میں
میری آنکھیں تمھارا صدقہ ہو
٭
میں بچپن سے تھی کٹھ پتلی، یہ قصہ میں نہیں بھولی
ذرا سوچو ذرا سوچو، میں گڑیا سے نہیں کھیلی
٭
دھوپ کا موسم کرب سے تڑپا خالی خالی گلیوں میں
پیلا سورج ڈوبے گا تو پھر میں تجھ کو مانگوں گی
٭

حصہ