جسٹس نجفی کمیشن رپورٹ کی اشاعت‘ شہباز شریف کی نئی مشکلات

437

’’کفر ٹوٹا خدا خدا کر کے‘‘ … ’’تھا جس کا انتظار وہ شاہکار آ گیا‘‘ … 17 جون 2014ء کو ماڈل ٹائون لاہور میں واقع منہاج القرآن کے مرکزی دفاتر میں جو افسوس ناک سانحہ رونما ہوا، سیدھی فائرنگ سے اس میں خواتین سمیت 14 بے گناہ افرادموت کی آغوش میں چلے گئے جب کہ چھ درجن سے زائد زخمی ہوئے جن میں سے کئی مستقل طور پر جسمانی معذوری کے شکار ہو چکے ہیں… یہ اتنا بڑا سانحہ ہے جس کا کسی آئین و قانون پر عمل پیرا مہذب معاشرے میں تصور نہیں کیا جا سکتا اور پھر اس سے بھی بڑا ظلم یہ ہے کہ آج تک اس سانحہ کے ذمہ داروں کا سراغ نہیں لگایا جا سکا… حکومت نے خود واقعہ کے بعد چیف سیکرٹری پنجاب کی وساطت سے ایک درخواست کے ذریعے عدالت عالیہ لاہور کے منصف اعلیٰ سے استدعا کی کہ واقعہ کی تحقیقات کے لیے کمیشن تشکیل دیا جائے۔ اس استدعا پر جب منصف اعلیٰ نے جسٹس باقر نجفی پر مشتمل ایک رکنی تحقیقاتی کمیشن تشکیل دے دیا تو پہلے حکومتی ارباب اختیار اور واقعہ میں براہ راست شریک بیورو کریسی کے حکام نے اس کمیشن سے عدم تعاون کا رویہ اپنایا اور پھر جب 9 اگست 2014ء کو کمیشن نے اپنی رپورٹ تیار کر کے حکومت کو پیش کر دی تو حکومت نے اسے منظر عام پر لانے اور اس کی روشنی میں مجرموں کا سراغ لگا کر ان کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی کرنے کی بجائے اس رپورٹ کو نظر انداز کرنے اور عوام سے پوشیدہ رکھنے کی سر توڑ کوشش کی پھر جب متاثرہ فریق پاکستان عوامی تحریک کے کچھ لوگوں نے اس رپورٹ کو منظر عام پر لانے کے لیے عدالت عالیہ لاہور سے رجوع کیا اور جسٹس علی اکبر نقوی پر مشتمل ایک رکنی عدالتی بنچ نے رپورٹ کی اشاعت عام کا حکم دیاتب بھی حکومت نے اس حکم پر عملدرآمد کی بجائے اس کے خلاف عدالت عالیہ کے فل بنچ میں اپیل دائر کر دی۔ اس اپیل کی سماعت جسٹس عابد عزیز شیخ کی سربراہی میں جسٹس شہباز علی رضوی اور جسٹس قاضی محمد امین پر مشتمل تین رکنی فل بنچ نے کی اور 24 نومبر 2017ء کو فیصلہ محفوظ کر لیا جو 5 دسمبر کو سنایا گیا اس فیصلہ کے خلاف بھی پہلے تو حکومت کی جانب سے عدالت عظمیٰ سے رجوع کرنے کا عندیہ دیا گیا تاہم شاید قانونی مشیروں کی جانب سے مایوس کئے جانے یا دیگر نامعلوم وجوہ کی بنا پر حکومت نے رپورٹ جاری کر دی…!!!
یوں یہ آزاد عدلیہ کا دبائو اور فعال ذرائع ابلاغ کا احتسابی کردار ہے جس نے حکومت کو طویل عرصہ سے چھپائی ہوئی رپورٹ کو منظر عام پر لانے پر مجبور کیا۔ رپورٹ میں 17 جون 2014ء کے وقوعہ کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ منہاج القرآن انٹرنیشنل سیکرٹریٹ کے باہر قانونی طور پر رکاوٹیں کھڑی کی گئی تھیں جنہیں ہٹانے کے لیے پولیس نے غیر قانونی کارروائی کی۔ رپورٹ کے صفحہ 65 میں تحریر کیا گیا کہ ڈاکٹر طاہر القادری کی جانب سے 23 جون 2014ء کو لاہور سے راولپنڈی لانگ مارچ کا اعلان کیا گیا جس کے بعد وزیر قانون پنجاب رانا ثناء اللہ نے سخت موقف اختیار کیا اور صوبائی انتظامیہ کے اجلاس میں بتایا کہ وہ ہر گز لانگ مارچ نہیں ہونے دیں گے۔ رپورٹ کے مطابق ڈاکٹر توقیر نے وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف کے ایماء پر منہاج القرآن سیکرٹریٹ سے رکاوٹیں ہٹانے کا حکم دیا تھا جب کہ ہائیکورٹ نے اپنے حکمنامہ کے تحت ان رکاوٹوں کو جائز قرار دے رکھا تھا۔ ڈاکٹر توقیر کے حکم پر ٹی ایم اے سے گلبرگ ٹائون اور زون 2 کے ٹی ایم اوز 16 جون کو رات کے وقت رکاوٹیں ہٹانے کے موقع پر گئے، جس کی کارکنوں نے مزاحمت کی اور پتھر پھینکے۔ اس کے جواب میں پولیس نے کارکنوں پر سیدھی فائرنگ شروع کر دی۔ پولیس اہلکاروں کی جانب سے کسی نے بھی اس شخص کی نشاندہی نہیں کی جس کے حکم پر فائرنگ کی گئی۔ انکوائری رپورٹ میں سانحہ ماڈل ٹائون کی تحقیقات کی روشنی میں حتمی نتیجہ اخذ کرتے ہوئے لکھا گیا ہے کہ وزیر قانون رانا ثناء اللہ کی سربراہی میں آپریشن کے لیے کی گئی منصوبہ بندی پر عملدرآمد کیا گیا جس کے نتیجے میں قیمتی جانیں ضائع ہوئیں جب کہ اس نقصان سے بچا جا سکتا تھا۔ اس سلسلہ میں آپریشن روکنے سے متعلق وزیر اعلیٰ پنجاب کا بیان بعد کا خیال ہے۔
رپورٹ کے منظر عام پر آنے کے بعد اگرچہ صوبائی وزیر قانون رانا ثناء اللہ نے رپورٹ کو نقائص کا مجموعہ اور قیاس آرائیوں پر مبنی قرار دیا ہے اور یہ دعویٰ بھی کیا ہے کہ رپورٹ میں صوبائی وزیر اعلیٰ میاں شہباز شریف اور خود رانا ثناء اللہ سمیت کسی بھی فرد کو براہ راست سانحہ کا ذمہ دار قرار نہیں دیا گیا تاہم رانا ثناء اللہ جو غیر ذمہ دارانہ بیانات دینے کی شہرت رکھتے ہیں اور ان کے یہ بیانات صوبائی حکومت اور وزیر اعلیٰ کو کئی مسائل سے دو چار کر چکی ہے ان کے اس طرح کے ایک اور بیان سے حکومت کی ماڈل ٹائون کے المناک سانحہ کی ذمہ داری سے جان نہیں چھوٹ سکتی… رپورٹ کے منظر عام پر آنے کے بعد حکومت کو جس صورت حال کا سامنا ہے۔ وہ اس حوالے سے زیادہ سنگین ہے کہ 14 افراد کے قتل کی ایف آئی آر سے خود کو بری الذمہ کرانے کا چیلنج درپیش ہے۔ اگرچہ رپورٹ میں وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف سمیت کسی کو بطور ملزم نامزد نہیں کیا گیا تاہم رپورٹ میں اس سانحہ کی ساری ذمہ داری پنجاب حکومت پر ڈالے جانے سے اس سانحہ کا بوجھ وزیر اعلیٰ، وزیر قانون رانا ثناء اللہ اور حکومتی انتظامی مشینری کے دوسرے متعلقہ افراد پر ہی پڑے گا اس لیے حکومت کو محض یہ سوچ کر مطمئن نہیں ہو جانا چاہئے کہ اس رپورٹ کی عدالتی فیصلے والی حیثیت نہیں ہے۔ یہ سنگین نوعیت کا فوجداری مقدمہ ہے جس میں نامزد ملزمان کی دیت کی ادائیگی کی بنیاد پر مدعی پارٹی سے راضی نامہ کے تحت تو بچت ہو سکتی ہے مگر کیس کے میرٹ کے تحت جس میں یقینا جسٹس نجفی کی انکوائری رپورٹ سے مدد لی جائے گی، ملزمان کا خود کو بری الذمہ قرار دلانا خاصہ مشکل نظر آتا ہے۔
جسٹس باقر نجفی رپورٹ کی قانونی پیچیدگیوں کے علاوہ اس رپورٹ کے منظر عام پر آنے کے بعد ملک خصوصاً پنجاب کی سیاسی صورت حال میں بھی زبردست ہلچل برپا ہے… پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹر طاہر القادری اپنے فوری رد عمل میں واضح الفاظ میں دھمکی دی ہے کہ حکومت نے جسٹس باقر نجفی رپورٹ پر عملدرآمد نہ کیا تو وہ احتجاج کی کال دیں گے انہوں نے مطالبہ کیا ہے کہ رپورٹ کی روشنی میں مرکزی ملزمان وزیر اعلیٰ شہباز شریف اور صوبائی وزیر قانون رانا ثناء اللہ کو گرفتار کیا جائے… ڈاکٹر طاہر القادری نے عوامی تحریک کے عہدیداروں کو ہدایت کی ہے کہ ان کا احتجاجی کنٹینر چوبیس گھنٹے تیار کھا جائے اور کارکنان ہمہ وقت احتجاج کے لیے تیار اور کال کے منتظر رہیں… پاکستان عوامی تحریک اور منہاج القرآن کے کارکنوں کی جانب سے ہلکے پھلکے مظاہروں کا سلسلہ شروع بھی کیا جا چکا ہے…!!!
پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹر طاہر القادری کا ماضی کا کردار یقینا قابل رشک نہیں بلکہ عدالت عالیہ لاہور نے ان کے دائر کردہ ایک کیس ہی میں طاہر القادری کے بارے میں منافقت و مفاد پرستی، جھوٹ اور دہرا کردار رکھنے وغیرہ کے بارے میں جو فیصلہ تحریر کر چکی ہے اس کی کوئی دوسری مثال شاید ہی تلاش کی جا سکے مگر اس وقت زمینی حقیقت یہی ہے کہ وہ ایک بار پھر ملکی سیاست میں بہت زیادہ اہمیت اختیار کر چکے ہیں۔ جسٹس باقر نجفی رپورٹ کی اشاعت کے بعد انہیں خواہی نخواہی یہ حیثیت حاصل ہو گئی ہے کہ حزب اختلاف کی جماعتیں ان کے گرد جمع ہو رہی ہیں۔ پیپلز پارٹی جس کی 2008ء سے 2013 ء کی حکومت کے دوران ڈاکٹر طاہر القادری نے کنٹینر احتجاج کا آغاز کرتے ہوئے اسلام آباد میں پہلی بار دھرنا دیا تھا، اس کے شریک چیئرمین بلکہ مدار مہام سابق صدر مملکت آصف علی زرداری نے پہلے طاہر القادری کی تحریک کی حمایت کا اعلان کیا اور پھر اچانک ہنگامی طور پر بنفس نفیس لاہور پہنچ کر جمعرات کے روز ادارہ منہاج القرآن میں ڈاکٹر طاہر القادری کے در دولت پر حاضری دی ہے اور وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف کی اقتدار سے علیحدگی کے ایک نکاتی ایجنڈے پر مل کر تحریک چلانے کا اعلان کر دیا ہے… تحریک انصاف کے کپتان عمران خان بھی پیپلز پارٹی کے خلاف اپنی ماضی قریب کے تمام تر اعلانات و الزامات کو فراموش کر کے ڈاکٹر طاہر القادری کے احتجاجی کنٹینر پر پیپلز پارٹی کے شانہ بشانہ کھڑے ہونے کو بے تاب ہیں… مسلم لیگ (ق) کے سربراہ چودھری شجاعت حسین اور چودھری پرویز الٰہی نے بھی اپنے بعض تحفظات کے باوجود پہلے ہی ڈاکٹر طاہر القادری کے احتجاج میں دامے، درمے، سخنے تعاون کا اعلان کر دیا ہے… اسی طرح حزب اختلاف کی دیگر جماعتوں کے بھی اس احتجاجی تحریک سے الگ رہنے کے امکانات کم ہیں کیونکہ یہ انسانی خون اور چودہ معصوم جانوں کے قصاص کا معاملہ ہے جسے آسانی سے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا…!!!
دوسری جانب پیر آف سیال شریف خواجہ حمید الدین سیالوی بھی صوبائی وزیر قانون رانا ثناء اللہ کے استعفے کے اپنے مطالبہ پر ڈٹ گئے ہیں اور انہوں نے دو ٹوک الفاظ میں نواز لیگ سے لاتعلقی کا اظہار کر دیا ہے… بدھ کے روز پریس کانفرنس کرتے ہوئے انہوں نے کہا رانا ثناء اللہ کے استعفے کا مطالبہ حتمی ہے، اب صرف رانا ثناء اللہ نہیں بلکہ دیگر ارکان اسمبلی کو بھی مستعفی ہونا پڑے گا، ہم پر انگلیاں اٹھ رہی ہیں کہ حکومت سے ڈیل ہو گئی ہے اس لیے میں حکومت سے علیحدگی کا اعلان کرتا ہوں ہمارا آئندہ مسلم لیگ (ن) سے کوئی تعلق نہیں ہو گا۔ وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے رابطہ کر کے دو دن کی مہلت مانگی تھی اور ہم سے وعدہ کیا تھا کہ رانا ثناء اللہ دو دن بعد استعفیٰ دے دیں گے۔ انہوں نے کہا کہ ہم ختم نبوت کے مسئلے پر سیاست نہیں کر رہے لیکن ہمارے ساتھ دھوکہ اور فراڈ کیا جا رہا ہے ، ہم نے دس تاریخ کو دھوبی گھاٹ فیصل آباد میں ختم نبوت کانفرنس کا اعلان کیا ہے، حکومت سے اجازت ملے یا نہ ملے 10 دسمبر کو دھوبی گھاٹ فیصل آباد میں جلسہ ہو گا، ثنا اللہ کے استعفے اور ختم نبوت ترمیم کے ذمہ داروں کو سزا ملنے تک احتجاج جاری رہے گا۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ پندرہ کے قریب ارکان قومی اور صوبائی اسمبلی اپنے استعفے دیں گے۔ خواجہ حمید الدین سیالوی نے سنی اتحاد کونسل کے سربراہ صاحبزادہ حامد رضا کو ہدایت کی ہے کہ وہ فیصل آباد کے تاریخی گرائونڈ دھوبی گھاٹ میں ’’ختم نبوت کانفرنس‘‘ کے انعقاد کے لیے تمام انتظامات کو حتمی شکل دیں جس پر صاحبزادہ حامد رضا نے ان کو بھر پور تعاون کا یقین دلایا۔
اس صورتحال میں پنجاب میں بھی نواز لیگ کے لیے حالات مشکل سے مشکل تر ہوتے جا رہے ہیں اب تک برادر بزرگ نواز شریف وزارت عظمیٰ سے اپنی نا اہلی پر ملک بھر میں ’’مجھے کیوں نکالا؟‘‘ کی گردان کر رہے تھے تاہم شہباز شریف پنجاب میں ترقیاتی منصوبوں پر توجہ مرکوز کئے ہوئے انہیں جلد از جلد مکمل کرنے کے لیے کوشاں دکھائی دیتے تھے… انہوں نے اپنے برادر بزرگ کی تصادم کی پالیسی سے بھی سر عام اختلاف کیا تھا یوں خیال کیا جا رہا تھا کہ وہ شاید صورت حال کو سنبھالا دینے اور مفاہمت کی راہ نکالنے میں موثر کردار ادا کریں گے مگر اب یوں محسوس ہوتا ہے کہ وہ اس مشن میں ناکام رہے ہیں اور خود ان کے بڑے بھائی نواز شریف نے ان کی ایک نہیں سنی جس کے بعد میاں شہباز شریف خود بھی نشانے پر آ گئے ہیں اور ان کے ستارے بھی اب گردش کا شکار ہیں… پنجاب نواز مسلم لیگ کا گڑھ اور سیاست کا محور ہے، اب تک کی انتخابی کامیابی میں شہباز شریف کی کارکردگی اور ترقیاتی کام کا بھی بہت موثر کردار رہا ہے… دیکھنا اب یہ ہے کہ وہ نئی احتجاجی تحریک کا مقابلہ کر پاتے ہیں یا متحدہ حزب اختلاف کے متوقع احتجاج کا سیلاب انہیں بہا لے جاتا ہے اور حزب اختلاف مارچ 2018ء سے قبل احتجاجی کوئیک مارچ کے ذریعے موجودہ حکومتی ڈھانچے کی بساط لپیٹنے میں کامیاب رہتی ہے کیونکہ مارچ میں سینٹ کے انتخابات ہونا ہیں اور اگر موجودہ حکومتی ڈھانچہ برقرار رہتا ہے تو نواز لیگ سینٹ میں اکثریت حاصل کر لے گی۔ جسے مقتدر قوتیں، پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف ہر صورت روکنا چاہتی ہیں اور قبل از وقت انتخابات ہی ان کی امید بر آنے کی واحد صورت ہے…!!!

حصہ