نجمہ ثاقب
(دوسری اور آخری قسط)
اس نے دونوں آنکھیں میچ کے ذہن میں تصویر بنائی۔ پھر مٹائیٍ پھر بنائیٍٍ پھر مٹائیٍٍ پھر سر جھٹک کے اٹھ بیٹھی۔ مگر الجھن نے ذہن کو ریشمی گرہ سے باندھ دیا۔ یہ گرہ تب ڈھیلی ہوئی جب اس نے کھلی آنکھوں سے چھکڑا دیکھا تو جانا کہ پہیّے کے اوپر تو کوئی بے وقوف بھی نہیں بیٹھتا۔ کچھ ہی عرصے کے بعد اس کے گائوں میں تانگا آیا۔ ٹخ ٹخ دوڑتے گھوڑے نے سموں کے نشان مہری کے دل پہ چھوڑے۔
پہیوں کے اوپر بنے کھلے ڈبے پہ بیٹھنے کا کیسا مزا ہوگا؟ اس نے ہچکولے کھاتے تانگے کو دیکھا اور پورے وجود سے سنسنی بھری پھریری لی۔ مگر وہ اپنے لڑکپن تک کبھی تانگے میں نہ بیٹھ سکی کہ اسے کبھی اپنے گائوں سے نکلنے کا موقع ہی نہ ملا۔
وہ زیادہ سے زیادہ اپنی نانی کے گھر جا سکتی تھی۔ یہ پھیرا بھی سال میں ایک یا دو مرتبہ ہوتا۔ اس کا ماموں گھوڑی پہ اس کی ماں کو لینے آتا۔ ایک مرتبہ اس نے تانگے پہ بیٹھنے کی ضد کی مگر اماں کو پہیے سے ڈر لگتا تھا۔ موا نیچے کھسک گیا تو…؟
جب اس کا بھائی شہر سے سائیکل لے کر آیا اور صحن میں گول گول گھوم کے دکھانے لگا تو اماں نے دونوں ہاتھ کانوں پہ رکھے، دوڑ کے اندر کمرے میں گئی اور دروازہ بند کرکے کنڈی لگا لی۔
اب جب کبھی بھائی کو کسی کام کی ضد ہوتی یا وہ اماں سے کچھ منگوانا چاہتا تو جھٹ کوٹھری سے سائیکل نکال لاتا۔ اسے صحن میں دوڑانے سے پہلے ہی اماں دونوں ہاتھ اٹھا کے کہتی ’’ٹھیک ہے ٹھیک ہے… جو دل چاہے کر… میں نے تیری مان لی، پر یہ شیطان کا چرخہ رکھ دے اندر جا کے‘‘۔ اگر وہ زیادہ ضد میں آیا ہوتا تو سائیکل کو ایک زور کا چکر دیتا۔ اماں ہاتھ آنکھوں پہ رکھ لیتی اور زور زور سے چیخنے لگتی۔
مہری کے لیے یہ ایک دلچسپ کھیل سہی، مگر اب تک اس کے تصور میں یہ صورت نہ بیٹھی تھی کہ پہیہ سائیکل یا تانگے کے علاوہ بھی کہیں استعمال ہوتا ہے۔ اس نے سنا کہ شہر میں ایسی گدیلی کرسیاں گڑی ہیں، انسان دو سیڑھیاں چڑھ کے ان پر بیٹھتا ہے، پھر وہ ایسے بگٹٹ دوڑتی ہیں کہ ہوا کے ساتھ مقابلہ کرتی ہیں۔ دفتر میں کالے بھدے قد آدم کیمرے نے کھٹاکھٹ مہری کی بلیک اینڈ وائٹ تصویریں کھینچیں۔ جھپاک جھپاک روشنی کے لپکے پڑے اور ذرا دیر کی کھڑپڑ کے بعد اگلی میز پہ بھیج دیا گیا جہاں ایک آدمی نے بائیں انگوٹھے پہ خوب تیز نیلی سیاہی لگا کے مٹیالے کاغذوں پہ چھڑوائی اور پندرہ روز بعد آنے کا کہہ کے فارغ کردیا۔
مہری عجیب ادھیڑ بن میں بی جی کے پاس لوٹی۔
’’اک بات کی سمجھ نہیں آئی بی جی۔ میں اللہ پاک کے گھر پہنچوں گی کیسے؟ تانگے پہ یا چار پہیوں پہ بنے کمرے میں بیٹھ کے…؟‘‘
بی جی دل کھول کے ہنسی۔
’’نہ تانگے پہ، نہ سائیکل پہ… نہ چار پہیّوں کی گاڑی پہ… بھلیے لوکے یہاں سے تم شہر جائو گی، وہاں سے ریل گاڑی پہ بیٹھ کے کراچی جائو گی۔ آگے دخانی جہاز پہ کئی روزکا لمبا سفر ہوگا تب کہیں جا کے اللہ کے گھر کی زیارت ہوگی۔ حج کرنا آسان نہیں ہے بی بی… کیا سمجھیں؟‘‘ ’’اتنا لمبا سفر…!‘‘ یاسر نے سن کر آنکھیں پھیلائیں۔
’’اماں مجھے بھی ساتھ لے چلو۔‘‘
’’تمہیں کیسے لے جائے!‘‘ بی جی نے چمک کے کہا۔ ’’خود دوسروں کے آسرے پہ جارہی ہے۔ خیر سے جائے، خیر سے آئے، تم میرے پاس رہنا۔
اور تم بھی مہری اب شلوار پہننا شروع کردو۔ کچھ روز پہنو گی تو مشق ہوجائے گی۔ ایسے لمبے سفر میں تہبند کہاں سنبھالتی پھرو گی‘‘۔ مہری کی ہنسی چھوٹ گئی۔
’’بی جی میں دو سانگی پہن لوں؟ یاد ہے جب تم بیاہ کے آئی تھیں اور ہم گائوں سے باہر تک بارات واپسی کا استقبال کرنے گئے تھے، اماں سارا رستہ ڈولی میں ہاتھ ڈال کے تمہارے پہلوئوں میں چٹکیاں بھرتی رہی اور تمہارا کتنا مذاق بنایا۔ آج تک گائوں میں کسی عورت، مرد نے شلوار نہیں پہنی تھی اور تم نے کیا نیا چلن نکال دیا!‘‘
بی جی نے بھی ہنسی میں اس کا ساتھ دیا اور بولیں ’’پھر اسی اماں نے جاتی عمر میں جب حج کا ارادہ کیا تو وہی دو سانگی پہنی۔ تمہیں یاد ہے؟‘‘
’’ہاں…‘‘ مہری نے ٹھنڈی سانس بھری۔
’’مگر اس کے نصیب میں اللہ کے گھر کی زیارت نہ تھی، کیسی کلپتی ہوئی مری بے چاری۔‘‘
یاسر ساری باتیں غور سے سن رہا تھا۔ دونوں چپ ہوئیں تو بولا ’’پھر کیا ہوا دادی؟ وہ کیوں نہ گئی حج پہ…؟‘‘
’’تجھے بڑا چسکا ہے بڑوں کی باتیں سننے کا۔ چل باہر جا کے لڑکوں میں کھیل۔ اس طرح باتوں کی چسکیاں لینے کی عادت پڑ گئی تو زنانیوں جیسا بن جائے گا، یاد رکھ۔‘‘
یاسر نے پچکے غبارے کی طرح کا منہ بنا لیا مگر اپنی جگہ سے اٹھا نہیں۔ ’’جا اٹھ شاباش…‘‘ مہری نے اسے پچکارا۔
’’میں اپنے بچے کے لیے لائوں گی… سفید رنگ کی بڑی ثوب، جیسی میاں جی مکہ شریف سے پہن کے آئے تھے۔‘‘
یاسر کے چہرے کا رنگ یک بیک بحال ہوگیا… ’’وہ جو اوپر سے لے کر ٹخنوں تک ہوتی ہے، سیدھی سطیر؟ اماں ایک نہیں دو لانا۔‘‘
’’چل دو ہی سہی۔‘‘
چوتھے پانچویں روز شام سے پہلے مہری کے صحن سے شام کے کھانے کا دھواں اٹھ رہا تھا۔ یاسر صحن کے درمیان بچھی چارپائی پہ سیدھا لیٹا آسمان کی طرف تک رہا تھا جہاں شمال کی جانب اڑتے پرندوں کی ڈاریں سفر کررہی تھیں۔ اس دوران زہرہ بی بی مہری کے گھر میں داخل ہوئی۔ آج بھی اس کے بڑھیا لباس کی سرسراہٹ ہوا میں ریشم کی دھار بنی ہوئی تھی، مگر اس کی کبوتری کی سی چال میں شکستہ پن کی کل بل سی تھی۔ وہ آہستہ روی سے چلتے ہوئے مہری کے قریب آئی اور اس کے اٹھنے سے پہلے چارپائی کے پائے پہ ٹک کر یوں آگے پیچھے جھکی جیسے گناہ کے اعتراف کے لیے کوئی پادری کے سامنے دو زانو ہوتا ہے۔
’’مہری…‘‘ اس کی آواز میں معمولی لرزش تھی، جسے معمول پر لانے کے لیے اسے تھوڑی سی کوشش کرنی پڑی۔
’’میں تیرے دروازے پہ بڑی شرمندہ آئی ہوں۔ میرا بیٹا واپس آگیا ہے، اسے حج بدل پر جانے کے لیے تیرا نام ملا تو بگڑ گیا، کہنے لگا مہری تو بوڑھی ہے، اپنے گھر بیٹھے ہڈی جوڑ کی سلامتی مانگتی رہے تو بہت ہے۔ حج بدل کوئی جوان خون کرے تو ہی صحیح ہے۔‘‘
مہری کے کلیجے پر گھونسا پڑا۔
’’اب تُو ہی دیکھ…‘‘ زہرہ کی آواز پسپا ہونے لگی۔ ’’شرع شریعت کا مسئلہ ہے، وہاں تُو بیمار پڑ جائے یا کوئی اور کمی بیشی ہو جائے اور حج کے رکن پورے نہ ہوں، تو پھر فائدہ؟‘‘
زہرہ نے کچھ اور کہا… وہ مہری نے نہیں سنا… اس نے کیا کہا… یہ بھی وہ نہ جان پائی… اسے خبر نہ ہوئی… وہ کب اٹھی اور کب نکلی… اسے یہ بھی سمجھ میں نہ آیا کہ وہ کب اور کیسے آگے کو جھکی، پھر نیچے گری تو یاسر اسے گرتے دیکھ کے دوڑا آیا۔
جب وہ چت زمین پہ لیٹ گئی اور یاسر دونوں ہتھیلیوں سے اس کے منہ پر تھپ تھپ کرنے لگا تو مہری کا وجود آپوں آپ ہلکا ہونے لگا۔ اسے یوں لگا جیسے وہ بادلوں کی رتھ پہ سوار اوپر ہی اوپر اڑے چلی جاتی ہے۔ اس کے کانوں میں پہیّوں کی گڑگڑاہٹ اور گاڑی بانوں کی سیٹیوں کی آوازیں گونجیں۔ وہ کالی رات میں نیلے آسمان جیسے پانیوں پہ تیرتے سمندری سفر پہ نکلی تو آنکھیں مکمل کھلی تھیں۔
یاسر اسے اٹھانے میں ناکام ہو کے دوڑا دوڑا بی جی کو بلا لایا۔
انہوں نے اپنے کانپتے ہاتھوں سے اس کے سرد وجود کو چھوا اور دھیرے سے دونوں آنکھوںکے پپوٹے بند کرتے ہوئے بولیں ’’تیری دادی حج پہ چلی گئی ہے یاسر… اللہ قبول کرے۔‘‘