آئیے ذرا سوچتے ہیں

222

تنویر فاطمہ
ماں کی آغوش بچے کی پہلی درس گاہ ہے، مگر آج کل مائوں کے پاس اتنا بھی وقت نہیں کہ بچوں پر پیار بھری نظریں ڈالیں، ان کے ساتھ کھیلیں، ان کے مسائل اور پریشانیاں جانیں۔ وہ بھی میڈیا یا فیشن کی نذر ہیں۔ والد کا کردار اور توجہ بھی بچے کی بنیادی ضرورت ہے۔ کاروباری مصروفیت، بزنس میٹنگز وغیرہ سے جان چھوٹے تو فرزند پر بھی نظرِ التفات ہو۔ پدرانہ شفقت کے ساتھ ساتھ بچے کے روز و شب سے آگاہی اور مناسب اصلاح والدین کا فرضِ منصبی ہے، جس سے بے توجہی بچوں کا مستقبل تاریک کردیتی ہے۔
مادر پدر آزاد اس نئی نسل نے جہاں اسلامی اقدار کو مسخ کرنے کی کوشش کی ہے وہاں اخلاقی اعتبار سے بھی پاکستانی معاشرے کو اسلام سے دور کردیا ہے، جس کا مشاہدہ ہم اپنے شہر کے گلی کوچوں میں کرسکتے ہیں۔ نوجوان لڑکیاں ٹانگوں سے چپکے ہوئے پاجامے پہنتی ہیں، آستین غائب، دوپٹہ ندارد۔ نوجوان لڑکے رات کو دیر تک فلمیں دیکھتے ہیں، میوزک سنتے ہیں، تاش کھیلتے ہیں، دن میں گیارہ، بارہ بجے تک بستر پر پڑے رہتے ہیں۔
نوجوانوں کا یہ حال ہے کہ رحمتِ عالمؐ ’’دی مسلم لیڈر‘‘، قرآن پاک ’’ہولی بک‘‘ اور نماز ’’یوگا‘‘ ہے۔ نماز کا مسنون طریقہ، جنازہ کی دعائیں اور والدین سے حُسنِ سلوک ان کے لیے لغو اور بے فائدہ باتیں ہیں۔ گھوم پھر کر کھانا اور جوتوں سمیت سونا ان کا معمول ہے۔ نوجوان نسل بہنوئی کو ’’جیجا جی‘‘، مشکل کو ’’کٹھنائی‘‘، معافی کو ’’شما‘‘، خط کو ’’پتر‘‘، مبارک باد کو ’’بدھائی‘‘، وجہ کو ’’کارن‘‘، دعا کو ’’آشیرباد‘‘ اور سکون کو ’’شانتی‘‘ کہہ رہے ہوتے ہیں۔ انھیں ہولی، دیوالی کی ساری رسمیں یاد ہیں، شادی بیاہ کی تمام رسومات میں ان کی نقل کرتے ہیں۔ اب موت کے معاملے میں مداخلت کرتے ہوئے کہیں مُردے جلانا نہ شروع کردیں، دھوتی اورساڑھی کو قومی لباس قرار نہ دینے لگیں۔ اگر گہرائی میں جاکر سوچیں تو معلوم ہوگا اس میں قصور ہمارے نظام حکمرانی اور میڈیا کا ہے جو اسلامی نہیں مغربی اور روشن خیالی پر مبنی ہے۔ چنانچہ اُن لوگوں کا جو اس نظام کو بدل کر اسلامی انقلاب لانا چاہتے ہیں، ساتھ دینا ہوگا۔ پھر نظام تعلیم، وہ بھی مغربی طرز کا، آکسفورڈ پریس کی کتابوں پر مشتمل نصاب ہے جس نے نوجوانوں کو کیبل، لیپ ٹاپ اور انٹرنیٹ کا رسیا بنادیا ہے۔ سب سے اہم کردار والدین کا ہے جنہوں نے اقبال کے شاہینوں کو کرگس بنادیا ہے۔ ماں باپ نے سختی ترشی، ڈانٹ ڈپٹ کو ہیومن رائٹس کی خلاف ورزی سمجھ کر ترک کردیا ہے۔ دنیاوی سہولت و آرام کے بدلے اخلاقی عادات اور اسلامی اقدار کو بہت دور کردیا ہے… اتنا دور کہ اسلام انھیں اجنبی لگنے لگا ہے۔ بچہ والدین کے پاس اللہ کا تحفہ اور امانت ہے، اس کا پاکیزہ دل ایک قیمتی جوہر ہے۔ ہم اسے جو تعلیم دیں گے، جیسی تربیت اور عادات کا خوگر بنائیں گے وہ ویسے ہی پروان چڑھے گا۔ مگر کیا کیا جائے حرص و طمع کے بحر بیکراں کا کہ ہم ڈاکٹر، انجینئر، پائلٹ بنا کر دنیا کی ساری دولت سمیٹ کر اس کا مالک بنانا چاہتے ہیں۔ اچھے انسان اور مسلمان بنانے کی طرف ہماری توجہ بہت کم ہے۔
سوچنا ہوگا کہ زندگی بیت جائے گی، دولت وارث لے جائیں گے، لیکن آخرت؟ مسائل معاشرتی ہوں یا معاشی، سیاسی ہوں یا تعلیمی و تربیتی، ہر شعبے میں اسلام ہماری بھرپور رہنمائی کرتا ہے، بس ہمیں رجوعِ الی اللہ کی ضرورت ہے۔ عصری علوم کے ساتھ ساتھ دینی علوم پر بھی توجہ دینی ہوگی، زندگی کے معاملات کی اسلام کی روشنی میں آگہی دینی ہوگی، تب جاکر ہمارا گھر، ہمارا معاشرہ، ملک امن اور خوش حالی کا آئینہ دار بن سکے گا۔

حصہ