نئے شاعر … عروج زہرا

278

اسامہ امیر
روشنیوں کے شہر کراچی کی نوجوان نسل کی نمائندہ آواز عروج زہرا 12 فروری کو پیدا ہوئیں،آپ نے ابتدائی تعلیم کراچی کے ایک نجی تعلیمی ادارے سے حاصل کی اور کراچی یونیورسٹی سے ایم اے اردو کی ڈگری حاصل کی، تاحال ایم فل جاری ہے، آپ ’’انجمن ترقی اردو پاکستان‘‘ کی نوجوان نسل کمیٹی کے معتمد اعزازی کے عہدے پر فائز ہیں اور اپنے فرائض بخوبی انجام دے رہی ہیں، آپ ریڈیو پاکستان سے منسلک ہیں ’’بزم طلبہ‘‘ کے نام سے نوجوان نسل کو پروموٹ کرنے میں پیش پیش ہیں، آپ کی پسندیدہ صنف غزل ہے اور غزل گو شعرا سے خاصا متاثر نظر آتی ہیں۔ نظم بھی کہتی ہیں مگر اپنے اظہار کے لیے غزل کو آسان سمجھتے ہوئے سادہ بیانی سے کام لیتی ہیں، آپ اپنا پہلا شعری مجموعہ سال کے آخر میں لانے کا ارادہ رکھتی ہیں، آئیے ملاقات کرتے ہیں عروج زہرا کے کلام سے۔

ایک دو اشک بہاتی ہے چلی جاتی ہے
اب تری یاد بھی آتی ہے چلی جاتی ہے
٭
کبھی وحشت نے بگاڑے تھے پہ اب تنہائی
خود مرے بال بناتی ہے چلی جاتی ہے
٭
انسانوں کے روپ میں آئے اچھا دھاری ناگ
اے دل ان سے لڑ جا ورنہ جان بچا کر بھاگ
٭
کون سنے گا پریم کہانی کون ملا یار
سب کی اپنی اپنی ڈفلی سب کا اپنا راگ
٭
کب تک اس کے خواب میں آنکھیں موندے بیٹھے گی
بے حد تھوڑا وقت بچا ہے زہرا زیدی جاگ
٭
اپنی محبت سولہ آنے تھی سو اب تک باقی ہے
اس کی محبت کے کیا کہنے جس کی قیمت آنے دو
٭

’’تعارف‘‘
ہر ایک ہی مجھ سے پوچھتا ہے
کہ کون ہو میں
کہاں کہاں میں بتاؤں میرا قبیلہ کیا ہے
چلو سنو اب
میں لشکرِ شاہِ کربلا میں چھپی ہوئی تھی
وہ لشکرِ شہنشاہِ عالم رجب میں جو اپنے گھر سے نکلا۔۔۔
اسی سپاہِ قلیل میں ہی۔۔۔
مجھے کسی صلبِ نازنین نے چھپا کے پشتِ عظیم تر میں پناہ دی تھی
وہی سپاہِ حْسین جس میں حسین لوگوں کی انجمن تھی
وہی سپاہ جو ہر ایک لمحہ رواں دواں تھی
کہ اس کا سالار ابنِ حیدر تھا اور علمدار اک جواں تھا
ہر ایک لمحہ یہی سپاہِ قلیل یہ چھوٹا ایک لشکر۔۔۔
قدم بڑھاتا ہوا ہر اک کو مجاز کی اور حقیقتوں کی ہر ایک تفریق دے رہا تھا۔۔۔
کبھی یہ پانی پلا رہا تھا
کبھی پڑاؤ بدل رہا تھا۔۔۔
کبھی یہ اک شب کی مہلتوں پہ بضد رہا تھا۔۔۔
یہی قبیلہ… یہی قبیلہ ازل سے اب تک نشانِ منزل بنا ہوا ہے
میں اس قبیلے سے ہوں جو لوگوں کو حر بنانے پہ تل گیا ہے

حصہ