چڑیا اور اس کے ناتواں بچے

250

عبداللہ سعد
گھنے جنگل کے پار افق پر سورج پوری آب و تاب کے ساتھ چمک رہا تھا اور سورج کی شعاعیں درختوں کی اوٹ سے جھانکتے ہوئے جنگل کی ناہموار زمین پر بمشکل پہنچ رہی تھیں۔ گویا جنگل کی زندگی میں ہر سو اجالا پھیل چکا تھا اور اس کے ساتھ ہی تمام چرند پرند بھی اپنی اپنی نگاہوں میں میٹھی اور معصوم سی انگڑائی لے کر بیدار ہوچکے تھے، وہ سب اپنی سریلی اور خوب صورت آواز میں خدائے واحد کی حمد و ثناء میں مصروف تھے۔
درختوں پر بسیرا کیے پرندے بھی اپنے اپنے بچوں کو بیدار کرکے گزشتہ رات کے جمع کیے دانوں سے ان کو ناشتہ کرا رہے تھے، ننھے ننھے پرندوں کے بابا جان آج کے دن کے لیے راشن تلاش کرنے نکل پڑے تھے۔ جب کہ ماما جان اپنے اپنے گھونسلوں کی صفائی ستھرائی کررہی تھیں، انہی درختوں میں سے ایک درخت پر چڑیا بی اپنے دو ننھے ننھے بچوں کے ساتھ رہ رہی تھیں، بچوں کے ابا یعنی چڑے میاں اپنے دیگر ساتھیوں کے ساتھ دانہ کی تلاش میں نکل پڑے تھے، معمول کے مطابق چڑیا بی نے اپنے بچوں کو نہلایا دھلایا اور دیگر کام کاج سے فارغ ہو کر اب وہ پڑوس کے درخت پر بی فاختہ کے بچوں کی طبیعت دریافت کرنے گئی ہوئی تھیں۔ بی فاختہ کے بچے کئی روز سے سرد موسم کے باعث بیمار ہوگئے تھے۔
جاتے جاتے چڑیا بی اپنے بچوں کو کہہ کر گئی تھیں کہ دیکھو شرارتیں نہ کرنا ورنہ شیطان کے چیلے کوے آکر تمہیں کچا کھا جائیں گے، ادھر چڑیا بی کے جاتے ہی بچوں پر کووں کا خوف طاری تھا مگر یہ ڈر ان کی شرارتی اور بے چین طبیعت پر زیادہ دیر حاوی نہ رہ سکا اور دونوں بچوں نے کھیل کود شروع کردیا۔ کھیل یہ تھا کہ دونوں بچے بیک وقت اپنے گھونسلے سے اڑان بھرتے اور زمین پر آکر ایک تنکا اٹھا کر واپس گھونسلے میں لے جاتے۔ جو پہلے واپس آتا وہ جیت جاتا۔
دو دفعہ تنکے اٹھا کر لانے کے بعد تیسری دفعہ آخری بار مقابلہ کے لیے دونوں نے اپنے پر تولے اور زمین پر آنے لگے، ابھی وہ زمین سے کچھ فاصلے پر ہی تھے کہ یکایک کسی چیز نے انہیں آگھیرا اور وہ دونوں ایک مضبوط شکنجے میں پھنس گئے، ننھے ننھے بچوں کے جب حواس بحال ہوئے تو انہوں نے دیکھا کہ دونوں کسی انسانی قافلے کے ہاتھوں جکڑ لیے گئے ہیں، جب انہوں نے سوچا کہ یہ شکاری ہمیں پکڑ کر لے جائیں گے، بس یہ جاننا تھا کہ دونوں اپنے بچائو کے لیے چیخ و پکار شروع کردی۔
ادھر چڑیا بی کو جب کسی کی چیخ و پکار سنائی دی تو وہ پریشان ہوگئیں کہ اللہ خیر کرے کہیں یہ میرے بچے تو نہیں رو رہے، جب چڑیا بی نے اپنے درخت کے قریب آکر یہ منظر دیکھا کہ ان کے دونوں ننھے ننھے معصوم سے روئی کے گالے بچے انسانی شکار بننے جا رہے ہیں تو ان سے رہا نہ گیا، حلیہ سے یہ انسان تو بہت اچھے معلوم ہوتے تھے مگر چڑیا بی کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ آخر انہوں نے ان کے بچوں کو کیوں پکڑ لیا ہے، اپنی جان خطرے میں ڈال کر وہ ان چند آدمیوں کے گرد اپنے پر پھیلا کر ان کے سروں پر منڈلانے لگیں اور ساتھ ساتھ اپنے اللہ تعالیٰ سے دعا کرنے لگیں کہ اللہ تعالیٰ میرے بچوں کو ان نیک بختوں سے نجات دلادے، یہ تو بے قصور ہیں، ابھی چڑیا بی اپنے اللہ تعالیٰ سے دعا مانگ ہی رہی تھیں کہ انہوں نے دیکھا کہ ایک اور شخص اس انسانی قافلے کے ساتھ آملے۔ یہ شخص ان سب میں بہت با اخلاق، شریف اور بھلے معلوم ہوتے تھے اور اس پورے گروہ کے سردار بھی شاید یہی تھے۔ جیسے ہی انہوں نے دیکھا کہ چڑیا بی کے دو ننھے ننھے معصوم بچے ان کے ساتھیوں کے قبضے میں ہیں اور ان بچوں کی ماں پریشان ان کے گرد منڈلارہی ہے تو وہ فکر مند ہوگئے اور انہوں نے اپنے ساتھیوں سے پوچھا کہ کس نے ان معصوم بچوں کو پکڑ کر بے زبان چڑیا کو تکلیف پہنچائی ہے، قافلہ کے لوگوں نے اپنے سردار کو سارا ماجرا کہہ سنایا کہ جب آپ اپنی ضرورت کے لیے گئے تو ہم نے ان بچوں کو پکڑ لیا، جب سے یہ چڑیا اپنے بچوں کے پیچھے ہمارے سروں پر منڈلارہی ہے۔
اس قافلہ کے سردار نے اپنے ساتھیوں کو حکم دیا کہ فوراً ان معصوم بچوں کو چھوڑ دیا جائے، چنانچہ ساتھیوں نے فوراً حکم کی تعمیل کی اور یوں چڑیا بی نے ان کے سردار کو تشکر آمیر نظروں سے دیکھا اور خوشی خوشی بچوں کو لے کر اپنے گھونسلے کی جانب اڑ گئیں۔
پیارے بچو! کیا آپ جانتے ہیں چڑیا کے چھوٹے بچے بھی ایسے ہی کھیلتے ہیں جیسے آپ سب لوگ اس لیے آپ ان کو کبھی تنگ نا کیا کریں دیکھیں نا اگر آپ کھیل رہے ہوں اور آپ کو کوئی ایسے پکڑ لے تو آپ کے گھر والوں پر کیا گزرے گی؟

حصہ