مری زندگی مری آرزو یہ عطائے یادِ رسول ہے

315

مریم بتول
جامعتہ المحصنات اسلام آباد
اسلام کی نعمت ہر زمانے میں انسان کو دو ہی طرح سے ملی ہے ایک اللہ کا کلام اوردوسرا انبیاء علیہم السلام ،جن کو اللہ نے نہ صرف اپنے کلام کی تعلیم و تبلیغ اور تفہیم کا واسطہ بنایا بلکہ اس کے ساتھ عملی قیادت و رہنمائی کے منصب پر بھی مامور کیا تاکہ وہ اللہ کے کلام کا ٹھیک ٹھیک منشاء پورا کرنے کے لئے فرد کی زندگی اور معاشرے کا تزکیہ کریں اور انسانی زندگی کے بگڑے ہوئے نظام کو سنوار کر اس کی درست نہج پر تعمیر کریں۔ وہ زمانہ جب عرب میں جہالت کا دور دورہ تھا اس وقت عالمِ انسانیت کی رہنمائی کے لئے مکہ کے ایک معزز گھرانے میں ایک آفتاب طلوع ہوا جو کہ محسنِ انسانیت کہلایا جس نے انسانیت کو جہالت سے نکالا۔انسانی رہنمائی کے لئے آج بھی بنیادی ذرائع وہی ہیں جو ازل سے چلے آرہے ہیں یعنی ایک خدا کا کلام (قرآن پاک) آج بھی اگر کوئی اسلام کا صحیح فہم حاصل کرنا چاہے تو اس کا واحد ذریعہ یہ ہے کہ قرآن کو نبی کریمؐ کی حیاتِ طیبہ سے اور نبیؐ کی سیرت کو قرآن سے سمجھے۔آپؐ کی زندگی ہمارے لئے مقصدِ حیات اور مشعل راہ جس پر چل کر اور عمل کر کے ہم اپنی زندگیوں کو حیاتِ طیبہ کے سانچے میں ڈھال سکتے ہیں۔زندگی کاایسا کون سا پہلو ہے جس کے متعلق رہنمائی ہمیں سیرتِ النبیؐ سے نہ ملی ہو۔۔؟آپ کی زندگی کے کس کس پہلو کو اجاگر کروں آپ ﷺ کی زندگی کا ہر گوشہ ہمارے لئے مشعلِ راہ ہے۔
میرے رہنما تیرا شکریاکروں کس زبا ںسے بھلا ادا
میری زندگی کی اندھیری شب میں چراغ فکر جلا دیا
آپ ﷺاخلاق کے اعلی نمونے پر فائز تھے۔آپؐ نے کبھی کسی غلام یا کسی بھی انسان کا دل نہ دکھایا،آپ یتیموں،بیوائوں،غم زدوںکے غم گسار تھے۔آپؐ کا بچوں سے پیار،شفقت اور انسانیت سے محبت کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ایک مرتبہ حضرت علی چند صحابہ کرام کے ساتھ حضرت عائشہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور فرما یا کہ ہمیں نبی کریمؐ کی زندگی کے متعلق کچھ بتائیے تو آپ نے فرمایا کہ تم قرآن پڑھو نبی کریمؐ کی زندگی قرآن تھی۔ارشادِ باری تعالی ہے۔
’’لقد کان لکم فی رسول اللہ اسوہ حسنہ‘‘
آپؐ کا صبر و حلم اپنی ازواج کے ساتھ،اپنے اصحاب کے ساتھ،غلاموں کے ساتھ حتیٰ کہ اپنے دشمنوں اور کفارکے ساتھ بھی مثالی تھا۔۔آپؐ کی سادگی،رہن سہن ،اوڑھنا بچھونا ، عادات و اطوار اور اخلاق صرف مسلمانوں ہی نہیں غیر مسلموں کو بھی کو کھینچ کھینچ کر آپ کی طرف لاتے۔ اسی محبت کا فیضان تھا کہ جب محبوب ِ خدا وضو کرتے تو اصحاب وضو کے پانی کو اپنے چہروںپر ملتے۔آپؐ کے ہاں آقا غلام چھوٹا بڑا سب برابر تھے۔آپؐ نے کبھی تفریق نہ کی۔میرا نبی وہ ہے جومحبوب خداہے جو تمام انبیاء اور عالم کا سردارہے جسے میرے رب نے شرف معراج بخشا۔نبی مہربان راتوں کو سجدوں میںامت کے لئے گڑگڑاتا تھا ۔ وقتِ آخر بھی جس کی زبان پر یا اللہ میری امت یا اللہ میری امت کی صدائیں تھیں۔
سلام اس پر کہ جس نے بے کسوں دستگیر ی کی
سلام اس پر کہ جس نے بادشاہی فقیری کی
سلام اس پر جو سچائی کی خا طر دکھ اٹھا تا تھا
سلام اس پر جو بھو کا رہ کے اوروں کو کھلاتا تھا
ٓٓٓ آپ ﷺ کی ذات ایسی جامع الکمال ہستی ہے کہ جو رہتی دنیا تک انسانوں کے لئے مینارہئِ نور ہے ۔اسی لئے نبی پاکﷺ نے فرمایا مفہوم حدیث ہے کہ’ ’ میں تم میں دو چیزیں چھوڑ کے جا رہا ہوں اگر انھیں تھامے رکھو گے تو فلاح پاؤ گے ایک قرآن دوسرا میری سنت‘‘ ۔آج ہماری بقا کا رازقر آن و سنت کی پیروی میں مضمر ہے۔

حصہ