اخبار ادب

288

ڈاکٹر نثار احمد نثار
کراچی یونیورسٹی کیمپس میں سعد الدین سعد کی رہائش گاہ پر نیازمندانِ کراچی نے شاعراتِ پاکستان کے تعاون سے 24 نومبر 2017ء کو عقیل اشرف‘ یشب تمنا اور پروفیسر رضیہ سبحان کے اعزاز میں مشاعرے کا اہتمام کیا۔ محسن اعظم ملیح آبادی نے صدارت کی۔ پروفیسر جاذب قریشی مہمان خصوصی تھے‘ ڈاکٹر نزہت عباسی نے نظامت کے فرائض انجام دیے۔ نیاز مندان کراچی کے کنوینر رونق حیات نے خطبۂ استقبالیہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ شاعراتِ پاکستان حال ہی میں قائم شدہ ادبی تنظیم ہے جب کہ نیاز مندانِ کراچی آج سے 35 سال پہلے معرضِ وجود میں آئی تھی۔ یہ تنظیم نظر انداز قلم کاروں کے مسائل کے حل کے لیے سرگرم عمل ہے۔ ہم نے اس حوالے سے ایک عالمی اردو کانفرنس بھی کی ہے جس میں ہم نے اکادمی ادبیات پاکستان کے بارے میں اپنے تحفظات کا اظہار کیا تھا ہماری تحقیق کے مطابق اس ادارے میں من پسند افراد کی حوصلہ افزائی اور معاونت کا سلسلہ جاری ہے۔ کراچی کے جینوئن قلم کاروں کو نظر انداز کیا جارہا ہے۔ 2016 میں اکادمی ادبیات پاکستان کی عالمی کانفرنس کے موقع پر وزیر اعظم پاکستان نے اکادمی ادبیات پاکستان کو پچاس کروڑ روپے دینے کا اعلان کیا تھا تاکہ اس رقم سے قلم کاروں کی اعانت کے ساتھ ساتھ پاکستان کے تمام علاقوں کے ادب و ثقافت کی ترویج و اشاعت کی جائے لیکن اس رقم کا کیا بنا‘ اس سلسلے میں اکادمی ادبیات پاکستان نے کوئی بیان جاری نہیں کیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ سندھ‘ دو لسانی صوبہ ہے یہاں اردو بولنے والوں کی کثیر تعداد آباد ہے لیکن حکومت سندھ کا ثقافتی ادارہ‘ سندھی زبان و کلچر کو پروموٹ کرنے کے لیے لاکھوں روپے خرچ کرتا ہے اور اردو زبان و ادب کی ترقی کے نام پر خاموشی اختیار کرلیتا ہے یہ دوغلی پالیسی ہے ہم اس رویے کے خلاف احتجاج کرتے ہیں ہم قلم کاروں کے مفاد پر کوئی مفاہمت نہیں کریں گے ہم ان شاء اللہ قلم کاروں کی خدمت کرتے رہیں گے قلم کاروں کا فرض ہے کہ وہ ہمارے ہاتھ مضبوط کریں۔ شاعراتِ پاکستان کی کنوینر افروز رضوی نے کلمات تشکر ادا کرتے ہوئے کہا کہ ہم شاعرات کے پلیٹ فارم سے کئی اہم ادبی تقریبات منعقد کر چکے ہیں۔ ہمارے منشور میں یہ بھی شامل ہے کہ دیارِ غیر میں اردو ادب کے فروغ میں مصروف عمل علم دوست شخصیات کے لیے تقریبات پزیرائی سجائیں آج کی شعری نشست بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ صاحبِ صدر محسن اعظم ملیح آبادی نے اپنے صدارتی خطاب میں کہا ہے کہ قلم کاروں کو متحد ہونا پڑے گا تاکہ وہ حکومتِ پاکستان سے اپنے حقوق حاصل کرلیں جو تنظیمیں اربابِ سخن کی فلاح و بہبود کے لیے کام کر رہی ہیں وہ قابل مبارک باد ہیں انہوں نے مزید کہا کہ 1950ء کے بعد جدیدیت اور مابعد جدیدیت کے شاعروں میں جاذب قریشی ایک اہم نام ہے انہوں نے اردو ادب کے لیے گراں قدر خدمات انجام دی ہیں۔ پروفیسر جاذب قریشی نے کہا کہ رونق حیات اور افروز رضوی نے آج ایک اچھی محفل سجائی ہے کہ اس بہانے سے بہت اہم قلم کاروں سے ملاقات بھی ہوئی اور بہت عمدہ اشعار سننے کو ملے۔ اس وقت کراچی میں بہت اچھی شاعری ہو رہی ہے خاص طور پر نوجوان شعرا نئے نئے مضامین باندھ رہے ہیں‘ حالات حاضرہ کے تناظر میں بھی اشعار کہہ رہے ہیں اس بات سے اندازہ ہو رہا ہے کہ ادب روبہ زوال نہیں ہے بلکہ ترقی کی منزلیں طے کر رہا ہے۔ ہر زمانے میں شاعری کی ترجیحات تبدیل ہوتی رہتی ہیں کیوں کہ ادب زندگی سے جڑا ہوا ہے جو لوگ زمینی حقائق رقم کرتے ہیں وہ کامیاب شعرا کہلاتے ہیں۔
برطانیہ سے تشریف لائے ہوئے یشب تمنا اور پروفیسر سبحان جب کہ امریکا کے عقیل اشرف نے اپنی اپنی غزلیں سنا کر خوب داد وصول کی۔ ان تینوں مہمانانِ اعزازی نے کہا کہ ہم کراچی والوں کے بہت ممنون ہیں کہ وہ ہمارے اعزاز میں محفلیں سجاتے ہیں۔ ہم دیارِ غیر میں رہتے ہیں لیکن ہمارے دل پاکستانیوں کے ساتھ دھڑکتے ہیں پاکستان میں علمی و ادبی سرگرمیاں اپنے عروج پر ہیں تاہم برطانیہ و امریکا میں مقیم اربابِ قلم اپنے اپنے علاقوں میں مشاعرے کراتے رہتے ہیں جن میں پاکستانی شعرا بھی شریک ہوتے ہیں ان شاء اللہ یہ سلسلہ جاری رہے گا۔
…٭…
کسی بھی معاشرے کا ادب اس کی پہچان ہوتا ہے اربابِ قلم وہ حساس طبقہ ہے کہ جو معاشرتی رویوں کو نظر انداز نہیں کرتا وہ اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے اپنے معاشرے کو نظم کرتے ہیں۔ ان خیالات کا اظہار پروفیسر سحر انصاری نے محبانِ بھوپال فورم کے زیر اہتمام تین علمی‘ ادبی اور سماج شخصیات ڈاکٹر سہتیہ پال آنند‘ ڈاکٹر رضیہ حامد اور بیرسٹر شاہدہ جمیل کے اعزاز میں منعقدہ تقریب میں اپنے صدارتی خطاب میں کیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ اہم شخصیات کی پزیرائی بھی علم دوستی ہے۔ زندہ معاشرہ شعرا و ادیبوں کی قدر کرتا ہے۔ محبانِ بھوپال فورم کراچی کی ان اہم انجمنوںمیں شامل ہے کہ جو ادب کے فروغ میں اپنا حصہ ادا کر رہے ہیں۔ آج کی تقریب بہت اہم ہے۔ رضا عابدی نے کہا کہ دلی‘ لکھنو اور بھوپال نے اردو ادب میں کلیدی کردار ادا کیا اس وقت لاہور بھی اردو ادب کی ترویج و اشاعت میں کسی سے کم نہیں۔ پروفیسر رضیہ حامد نے کہا کہ ادب کو سرحدوں کی زنجیروں میں قید نہیں کیا جاسکتا۔ ہندوستان و پاکستان کے سیاست دانوں کو اس طرف بھی توجہ دینی چاہیے۔ ڈاکٹر سہیتہ پال آنند نے کہا کہ نئی نسل کو بھی علم و ادب کے فروغ کے لیے آگے آنا چاہیے جب تک ہم اپنی تہذیبی اور تمدنی اقدار کو نئی نسل میں منتقل نہیں کرتے کوئی معاشرہ ترقی نہیں کرسکتا۔ بیرسٹر شاہدہ جمیل نے کہا کہ اردو زبان کے فروغ میں پاکستان میں مولوی عبدالحق کے بعد جمیل الدین عالی کا نام آتا ہے پاکستان و بھارت کی حکومتوں کو چاہیے کہ وہ اخبار و رسائل اور کتابوں کے تبادلے کو آسان بنائیں کیوں کہ اردو ادب سے وابستہ افراد کی تعداد کروڑوں میں ہے۔
اس تقریب کے مہمان خصوصی داکٹر اکرم الحق شوق نے کہا کہ آج کی محفل میں بہت عمدہ گفتگو کی گئی۔ بلاشبہ آج کے پروگرام کے صاحبانِ اعزاز کی جتنی تعریف کی جائے کم ہے یہ لوگ بالغۂ روزگار ہیں ان کی خدمات سے انکار ممکن نہیں۔ اس موقع پر فاطمہ حسن‘ حکیم عبدالمنان‘ پروفیسر ہارون رشید‘ ڈاکٹر عالیہ امام‘ انور عزیز جکارتا والا اور محمد وثیق شمسی نے بھی خطاب کیا ان تمام مقررین نے تینوں مہمانانِ اعزازی کے فن اور شخصیت پر روشنی ڈالی۔ شگفتہ فرحت نے خطبہ استقبالیہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ محبان بھوپال فورم اپنی مدد آپ کے تحت‘ ادبی پروگرام منعقد کرتی ہے ہم بلاتفریق رنگ و نسل و زبان‘ شعر و ادب کی اہم شخصیات کے لیے محفلیں سجاتے ہیں اور آئندہ بھی یہ سلسلہ جاری رہے گا۔ تقریب کی نظامت ڈاکٹر عنبرین حسیب عنبر نے کی۔
…٭…
لانڈھی 36-B ‘ کراچی میں ادبی تنظیم مکتب کا مرکزی دفتر ہے جہاں گزشتہ اتوار کو اختر سعیدی کی زیر صدارت حسرت موہانی کے مصرع ’’کیا کیا میں نے کہ اظہار تمنا کر دیا‘‘ پر طرحی مشاعرہ منعقد ہوا۔ صاحب صدر نے اپنے خطاب میں کہا کہ طرحی مشاعروں کی روایت دھیرے دھیرے ختم ہوتی جارہی ہے ایک زمانہ تھا کہ ہر مشاعرہ طرحی مشاعرہ ہوتا تھا لانڈھی میں بزمِ حمید کے تحت ہر ماہ ایک طرحی مشاعرہ ہوتا تھا جو کہ رات بھر جاری رہتا تھا امن وامان کی صورت حال بہتر تھی جب سے ہم تن آسان ہوئے ہیں طرحی مشاعروںمیں شریک نہیں ہوتے کوئی نہ کوئی بہانہ کر لیتے ہیں۔ ادبی تنظیم مکتب کے روح رواں اجمل سراج نے نظامتی فریضے کی ادائیگی کے ساتھ ساتھ خطبۂ استقبالیہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ ہماری تنظیم ابھی حال ہی میں قائم ہوئی ہے لیکن ہم تواتر کے ساتھ مشاعرے کرا رہے ہیں کبھی طرحی مشاعرے ہوتے ہیں اور کبھی غیر طرحی۔ ہماری تنظیم میں نوجوان شعرا شامل ہیں یہ لوگ بڑے محنتی ہیں اور بہت اچھے اشعار کہہ رہے ہیں ان میں آگے بڑھنے کی لگن ہے۔ اس موقع پر انہوں نے مزید کہا کہ آج کا مشاعرہ بہت اچھا رہا ہر شاعر نے اچھے اشعار نکالے ہیں طرحی مصرعو پر غزل کہنے سے مشقِ سخن بڑھتی ہے اور جب ہم طرحی مشاعرے میں جاتے ہیں تو ہمیں اندازہ ہوتا ہے کہ ہم نے ردیف کس طرح استعمال کی ہے اور دوسرے شعرا نے کون کون سے مضامین نکالے ہیں۔ مشاعرے میں رشید خاں رشید مہمان خصوصی تھے جب کہ محمد علی گوہر مہمان اعزازی تھے اس موقع پر اختر سعیدی‘ اجمل سراج‘ محمد علی گوہر‘ رشید خاں رشید‘ اشرف طالب‘ ارشاد کیانی‘ زاہد عباس‘ ارشد شاد‘ عادل داد‘ ابوبکر‘ کامران طالش‘ اسامہ امیر‘ عبدالرحمن مومن اور شمیم قریشی نے اپنی اپنی غزلیں نذر سامعین کیں۔
…٭…
کراچی میں طویل عرصے سے انجمن ترقی پسند مصنفین کے دو گروپ سرگرم عمنل ہیں ہر گروپ نے آپ کو اصل انجمن ترقی پسند مصنفین کہتا ہے ان دونوں گروپس میں سے ایک نے رضویہ سوساء ٹی ناظم آباد نمبر 2 میں اپنی ماہانہ شعری نشست کا اہتمام کیا۔ نورالہدیٰ سید نے صدارت کی۔ کوثر نقوی مہمان خصوصی تھے۔ فرزانہ انجم امروہوی مہمان اعزازی تھیں۔ حامد علی سید نے نظامت کے فرائض انجام دیے اس پروگرام کے دو حصے تھے پہلے دور میں مرزا عابد عباس نے اپنی ایک تازہ ادبی تخلیق پیش کی جس پر حامد علی سید‘ علی اوسط جعفری‘ فرزانہ انجم نے گفتگو کی۔ صاحب صدر نے اپنے خطاب میں کہا کہ مرزا عابد عباس ایک اچھے مزاح نگار ہونے کے ساتھ ساتھ ایک اچھے شاعر بھی ہیں ان کی آج کی تحریر بھی بہت عمدہ ہے انہوں نے معاشرے کو آئینہ دکھایا ہے۔ طنز و مزاح میں یہ خیال رکھنا بھی ضروری ہے کہ آپ کی باتوں سے یا تحریر سے کسی کی دل آزاری نہ ہو۔ مرزا عابد عباس بھی اسی انداز سے طنز لکھ رہے ہیں کہ لوگوں کو برا نہیں لگتا اور یہ اپنا مطمع نظر بھی بیان کر دیتے ہیں انہوں نے مزید کہا کہ انجمن ترقی پسند مصنفین کی ماہانہ ادبی نشستوں میں اچھا کلام سننے کو ملتا ہے میں انہیں مبارک باد پیش کرتا ہوں کہ یہ تنظیم ادب کی ترویج و اشاعت میں اپنا کردار ادا کر رہی ہے۔ اس پروگرام کے دوسرے دور میں کوثر نقوی‘ حامد علی‘ شفیع بسمل‘ الحاج نجمی‘ علی اوسط جعفری‘ فرزانہ انجم‘ صغیر احمد جعفری‘ غلام علی وفا‘ زیب النساء زیبی‘ شوکت اللہ جوہر‘ افضل ہزاروی‘ مرزا عابد عباس‘ تنویر سخن اور عزیز مرزا نے کلام سنایا۔ پروگرام کمیٹی کے چیئرمین پروفیسر شاہد کمال نے کلماتِ تشکر ادا کیے۔
…٭…
اردو زبان و ادب کے فروغ میں شامل ادبی تنظیم قرطاسِ ادب کے تحت روز نامہ نوائے وقت کے سٹی ایڈیٹر نعیم اختر کے اعزاز میں محفل نعت و منقبت کا اہتمام کیا گیا جس کی صدارت الحاج شمیم الدین نے کی جب کہ مہمان خصوصی منظر ایوبی تھے۔ سید لخت حسنین زیدی مہمان توقیری تھے۔ سلمان صدیقی نے نظامت کے فرائض انجام دیے۔ صفدر صدیقی نے تلاوت کلام مجید کی سعادت حاصل کی۔ صاحب صدر نے کہا کہ نعیم اختر اس سال حج کرکے آئے ہیں ہم انہیں اس سعادت پر مبارک باد پیش کرتے ہیں۔ نعیم اختر کی خدمات سے انکار ممکن نہیں انکی نگرانی میں سٹی نیوز کی بہت عمدہ کوریج کی جارہی ہے انہوں نے مزید کہا کہ آج ہم نے نعتیہ مشاعرے کا اہتمام بھی کیا ہے۔ نعت گوئی اسلامی شعائر میں شامل ہے نعت لکھنا‘ پڑھنا اور سننا باعث ثواب ہے۔ دبستان کراچی کے شعرا نے بھی نعتیہ شاعری کے فروغ میں اہم کردار ادا کیا ہے اس وقت نعتیہ ادب پر تحقیقی اور مطالعاتی کام جاری ہے۔ پی ایچ ڈی کے مقالے جات لکھے جارہے ہیں نعتیہ دیوان بھی تواتر کے ساتھ شائع ہو رہے ہیں نعت گوئی کا سلسلہ تا قیامت جاری رہے گا کیوں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر تو خداوند قدوس نے خود بلند کیا ہے۔ نعت لکھتے وقت اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں غلو کی گنجائش نہیں ہے۔ عبد و معبود کا فرق ہونا چاہیے نعت میں حمدیہ مضامین کی آمیزش نہیں ہونی چاہیے۔ اس موقع پر شعیب شمیمی‘ اور لخت حسنین زیدی نے بھی اظہار خیال کیا۔ صاحبِ اعزاز نعیم اختر نے کہا کہ حج کی سعادت حاصل کرنا میرے لیے بہت بڑا اعزاز ہے میں نے خانہ کعبہ اور مسجد نبویؐ میں نمازیں ادا کیں اس دوران مجھے جو سکونِ قلب اور روحانی فیوض و برکات حاصل ہوئے میں انہیں لفظوں میں بیان نہیں کرسکتا‘ وقوفِ عرفات کی روح پرور مناظر میں زندگی بھر نہیں بھول سکتا۔ انہوں نے اس موقع پر حج کے دوران پیش آنے والے دیگر واقعات پر بھی تفصیلی گفتگو کی اور حاضرین میں حج کے تبرکات تقسم کیے۔ اس نعتیہ مشاعرے میں پروفیسر منظر ایوبی‘ صفدر صدیقی رضی‘ سلمان صدیقی‘ نصیرالدین نصیر‘ مہر جمالی‘ ناہید عزمی‘ عرفان عابدی‘ شجاعت رضوی‘ زارا صنم اور دیگر شعرا نے نعتیہ اشعار پیش کیے۔ آخر میں قرطاس ادب کے صدر فرخ جعفری نے کلماتِ تشکر ادا کرتے ہوئے اپنی تنظیم کے اغراض و مقاصد پر روشنی ڈالی ان کا کہنا تھا کہ وہ اردو ادب کے خدمت گزار ہیں ہم اپنی بساط کے مطابق اردو زبان و ادب کی ترویج و ترقی کا لیے کام کر رہے ہیں ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے شہر میں امن وامان قائم رہے تاکہ ادبی محفلون کا سلسلہ جاری ہے اس وقت کراچی کی ادبی فضا بہت اچھی ہے۔ پورے شہر میں مشاعرے اور ادبی تقریبات ہو رہی ہیں۔

حصہ