ایمانداری کا انعام

198

حوریہ ایمان ملک
کسی گاؤں میں رحیم نامی کسان رہتا تھا۔ وہ بہت نیک دل اور ایماندار تھا۔ اپنی ہی خوبیوں کی وجہ سے گاؤں بھر میں مشہور تھا۔ لوگ اپنی چیزیں امانت کے طور پر اس کے پاس رکھواتے تھے۔
ایک دن معمول کے مطابق صبح سویرے کھیتوں میں ہل چلانے کے لیے جا رہا تھا کہ راستے میں اسے ایک تھیلی نظر آئی۔ اس نے ادھر ادھر دیکھ کر تھیلی اٹھا لی۔ اس نے تھیلی کھول کر دیکھی تو وہ اشرفیوں سے بھری ہوئی تھی۔ کسان تھیلی لے کر کھیتوں میں جانے کے بجائے گھر واپس آگیا اور اپنی بیوی کو بتا دیا۔ جب اس کی بیوی کو یہ معلوم ہوا کہ اس میں اشرفیاں ہیں تو اس کے دل میں لالچ آ گیا۔ اس نے اپنے شوہر سے کہا۔ ہم یہ تھیلی رکھ لیتے ہیں اور فوراً یہاں سے چلے جاتے ہیں ، شہر جا کر ہم بڑا سا گھر بنائیں گے اور اس میں آرام سے رہیں گے۔ بیوی کے کہنے کے باوجود کسان لالچ میں نہ آیا اور کہنے لگا۔ نہیں ! میں ایسا نہیں کرسکتا ، میں اس تھیلی کے مالک کو ڈھونڈ کر اشرفیاں اس تک پہنچاؤں گا۔
یہ تھیلی تمہیں راستہ میں ملی ہے ، تم نے کوئی چوری تو نہیں کی؟ اس کی بیوی اسے تھیلی رکھنے کے لیے جواز پیش کر رہی تھی۔ مگر کسان نے بیوی کی بات نہ مانی اور تھیلی لے کر باہر کی طرف چل پڑا۔ راستے میں اسے گاؤں کا چودھری ملا۔ وہ کسان کے پاس آیا اور پوچھنے لگا۔ تم اس وقت کھیتوں میں کام کرنے کے بجائے یہاں نظر آ رہے ہو ، خیریت تو ہے؟
کسان نے تمام واقعہ گائوں کے چودھری کو بتایا اور کہا میں اس تھیلی کے مالک کو ڈھونڈ رہا ہوں تاکہ اس کی امانت اس تک پہنچا دوں۔ اس کی بات سن کر چودھری مسکرایا اور بولا۔ یہ تھیلی تمہارا انعام ہے۔ یہ سن کر کسان حیران ہوا اور حیرت زدہ ہو کر بولا۔ انعام! مگر کیسے ۔۔؟
چودھری نے جواب دیا۔میں نے گاؤں میں تمہاری ایمانداری کے چرچے سنے تھے ، اس لئے میں نے یہ تھیلی تمہارے راستے میں رکھ دی تھی کیونکہ صبح سویرے تمہارے علاوہ یہاں سے کوئی نہیں گزرتا۔ کسان کے لاکھ منع کرنے کے باوجود چودھری نے وہ تھیلی اس سے نہ لی۔
کسان خوشی خوشی گھر آیا۔ اس نے اشرفیوں کی تھیلی اپنی بیوی کو دی اور کہا۔ اگر میں تمہارے کہنے پر لالچ کرتا تو ہرگز ہرگز انعام میں یہ تھیلی نہ ملتی۔ پھر اس نے چودھری سے ہونے والی گفتگو اپنی بیوی کو بتا دی۔ کسان نے کچھ اشرفیاں غریبوں کو دیں اور بیوی کو لے کر شہر چلا گیا۔ وہاں اس نے ایک گھر خریدا اور کاروبار کر کے خوش و خرم زندگی گزارنے لگا۔

حصہ