سماجی ذمہ داری کا نظریہ

1047

قدسیہ ملک
جان ملٹن اور اس کے ہم عصروں کی مسلسل اور سخت جدوجہد کے بعد معاشرے اور حکومتی حلقوں میں سماجی ذمہ داری کے نظریے کی روشنی میں کچھ معاملات طے کیے گئے، مثلاً:
1۔اچھی حکومت لوگوں کے کم معاملات پر حکومت کرے۔
2۔ لوگوں پر بھروسہ کیا جائے۔
3۔ عام طور پر لوگ صحیح فیصلہ کرلیتے ہیں۔
ان اختیارات کے بعد اخبارات و جرائد نے آزادیٔ اظہار کا بے جا استعمال شروع کردیا۔ بعض اخبارات آزادیٔ اظہار کا غلط، منفی اور پُرفریب استعمال بھی کرنے لگے، جیسے ہمارے معاشرے میں آئے روز عوام اس کی ضرر رسانیوں سے متاثر ہوتے رہتے ہیں۔
بیسویں صدی کے آخر تک ذرائع ابلاغ اس نظریے کی شقوں کے غلط اور آزادانہ استعمال کی بدولت اپنے عوام کو سب کچھ دکھانے اور منفی پروپیگنڈے، سچ کو جھوٹ کی آمیزش کے ساتھ پیش کرنے پر بھی کسی جواب دہی کے پابند نہیں ہوتے تھے۔ بیسویں صدی کے اہم واقعات میں چاند پر زندگی، خلائی مخلوق کے متعلق جھوٹے واقعات، جنگ کے متعلق جھوٹی افواہیں، یلوکڈ کارٹون وغیرہ شامل ہیں۔
اس سمت میں کسی ملک کی حکومت، کسی وزیر، کسی حکومتی سطح پر براہِ راست ذرائع ابلاغ پر کوئی بات کرنا، کوئی شق، کوئی حکومتی بیان کسی نئے مسئلے کو دعوت دینے کے مترادف تھا۔ اسی لیے ایک نجی ادارے ٹائم ان کارپوریٹ کی فراہم کردہ رقم سے 1942ء میں ایک کمیشن قائم کیا گیا، جس نے 1947ء تک کام کیا۔ اسے ہچسن کمیشن فریڈم آف دی پریس (Hutchins Commission on Freedom of the Press) کہتے ہیں۔ کمیشن نے پانچ سال لے کر اپنی رپورٹ پیش کی۔ ابھی تک امریکا اور دوسرے یورپی ممالک بشمول اسلامی آزاد ممالک اور پاکستان میں بھی اسی رپورٹ کو بنیاد بناکر تمام ذرائع ابلاغ کے متعلق قانون سازی کی جاتی ہے۔ رپورٹ کے نکات مندرجہ ذیل ہیں:

Qudsia11۔ ذرائع ابلاغ پر معاشرے کی طرف سے ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں۔ ان کی ملکیت کسی تجارت کی طرح نہیں ہوتی۔ عوام کے اعتماد پر پورا اترنا ضروری ہے۔
2۔ خبری ذرائع ابلاغ کو صادق، بالکل درست، سب کے ساتھ مساوی سلوک کا حامل، غیرجانب دار، اور معاشرے کے جملہ حالات کے مساوی ہونا چاہیے۔
3۔ ذرائع ابلاغ کو آزاد ہونا چاہیے، معاشرے کی خدمت کے لیے نظم کا پابند ہونا چاہیے۔
4۔ ذرائع ابلاغ کو اخلاقی اصولوں اور پیشہ ورانہ قواعدکے متفقہ ضابطوں پر عمل کرنا چاہیے۔
5۔ عوامی مفادات کی حفاظت کے لیے حکومت کو ذرائع ابلاغ کے معاملات میں مداخلت کرنی پڑسکتی ہے۔
6۔ ذرائع ابلاغ کا اہم کام یہ ہے کہ خود کو تبصرے و تنقید کے لیے ایک پلیٹ فارم سمجھیں تاکہ انہیں عوام کے تمام حلقوں کے مفادات کے کام کا حامل سمجھا جائے۔
7۔ ابلاغی ادارے معاشرے کی اقدار و روایات کو لوگوں کے ذہنوں سے محو نہ ہونے دیں۔
8۔ ابلاغی ادارے وہ ہوں جو معاشرے کے تمام حالات کی نمائندہ تصویریں عوام کے سامنے پیش کریں۔ ان کی فراہم کردہ معلومات و اطلاعات سیاق و سباق کے ساتھ مکمل ہوں۔
9۔ ذرائع ابلاغ کو معاشرے کے خاص خاص پہلوؤں کو اجاگر کرتے رہنا چاہیے تاکہ لوگ ان کے حصول کی جدوجہد سے غافل نہ ہوجائیں اور مل جل کر عظیم برادریاں پیدا کرسکیں۔
10۔ ذرائع ابلاغ کو سنسنی خیزی اور خبروں میں ادارتی رائے زنی سے اجتناب کرنا چاہیے۔
11۔ ایسا مواد پیش کرنا چاہیے جس سے جرائم، تشدد، بدامنی، اقلیتوں کے خلاف اقدامات کی بیخ کنی ہوتی ہو۔
12۔ بڑے ابلاغی اداروں کو معاشرے کے چھوٹے گروہوں کو بڑے گروہوں کے ظلم اور نفرت انگیز پروپیگنڈے کے تدارک کے لیے ٹیلی ویژن پر وقت فراہم کرنا چاہیے، تاکہ یہ گروہ بھی اپنا نقطہ نظر پیش کرسکیں۔
یہ ہچسن کمیشن کی وہ رپورٹ تھی جس پر یورپی ممالک میں آج تک سختی سے عملدرآمد ہوتا ہے۔ یہ بات شاید ہم میں سے بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ امریکیوں کا خود اپنے ملک اور بین الاقوامی ذرائع ابلاغ سے متعلق الگ نظریہ ہے۔ ان کی اپنے شہریوں کے لیے پیش کی جانے والی تمام خبریں، پروگرام، ریلٹی شوز، ڈرامے ان تمام اطلاعات و معلومات سے قطعاً مختلف ہوتے ہیں جو وہ دنیا کے بیشتر ممالک میں اپنے ابلاغی اداروں کے ذریعے پہنچاتے ہیں۔
یورپ کے بیشتر ممالک میں یہی فلاسفی استعمال کی جاتی ہے۔ خود برطانیہ میں اپنے شہریوں کو پُرتشدد واقعات اور سنسنی خیز خبروں سے دور رکھا جاتا ہے۔
اب ہم پاکستانی معاشرے کی جانب آتے ہیں جس میں ہم رہتے ہیں۔ پاکستان 14 اگست 1947ء کو وجود میں آیا۔ اُس وقت سے لے کر اب تک یہ خطۂ ارض جس طرح طاغوتی قوتوں کی آنکھوں میں کھٹک رہا ہے ہر صاحبِ بصیرت ان باتوں سے اچھی طرح واقف ہوگا۔ وہ سازشیں، وہ ایجنڈے، وہ قانون، وہ بین الاقوامی منظرنامے جن کو پاکستان پہلے دن سے بھگت رہا ہے سب کے سامنے ہیں۔ ہمارے ابلاغی ادارے چاہے وہ پرنٹ میڈیا ہو یا الیکٹرانک میڈیا، سوشل میڈیا ایکٹیوسٹ ہوں یا اعلیٰ اداروں کے سربراہ… سب اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ پاکستان میں کس کا حکم چلتا ہے۔ یہ دیس تو لا الٰہ الا اللہ کی بنیاد پر وجود میں آیا تھا اور بنانے والے نے بھی اپنی جانب سے حتی الامکان کوشش کی کہ یہ ملک دشمن عناصر کے ہاتھوں میں نہ جائے، لیکن انتقال سے کچھ دن قبل بانیٔ قوم قائداعظم محمد علی جناح کا یہ بیان کہ ’’میری جیب میں کھوٹے سکے ہیں‘‘ بہت کچھ سوچنے پر مجبور کرتا ہے۔ کس طرح سازش کے تحت انتقال کے تین سال گزر جانے کے باوجود فاطمہ جناح کو عوام سے دور رکھا گیا، کس طرح لیاقت علی خان کو قتل کردیا گیا، کس طرح قاتل کو اسی وقت مار دیا گیا، کس طرح ملک دشمن عناصر برسر اقتدار آگئے اور آج تک ملک کو کھا رہے ہیں، سب جانتے ہیں۔
ان حالات کے بعد 1965ء میں رات کی تاریکی میں دشمن کا حملہ، جو قوم کے جیالوں نے حب الوطنی اور محبت و یگانگت کی رہی سہی رمق کے ہوتے ہوئے سہہ لیا، اور ایسا جوابی وار کیا کہ دشمن اپنی بیرکوں میں شکست خوردہ واپس چلاگیا، اور ہم آرام سے بیٹھے رہے، بلکہ یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ ہمیں آرام و لوری دے کر سلا دیاگیا۔
اسی دوران جب مشرقی پاکستان میں شورش برپا تھی، مغربی پاکستان کا مسلمان بے خبر اور اپنی زندگی میں گم تھا۔ سوائے جماعت اسلامی کے کوئی ایسی جماعت تاریخ میں نظر نہیں آتی جس نے عوام کو خوابِ غفلت سے بیدار کرنے کے لیے اپنا حصہ ڈالا ہو۔ مسلم لیگ صرف پنجاب اور پیپلز پارٹی صرف سندھ میں فعال تھی۔ یہ جماعت اسلامی تھی جس کے کارکنان بیک وقت مشرقی اور مغربی پاکستان میں فعال تھے۔ سیلابوں کی سرزمین پر جب سیلاب آتے تو یہی کارکنان فلڈ ریلیف فنڈ لینے نکل پڑتے، یہی دن رات فنڈ اکٹھا کرکے مشرقی پاکستان میں پہنچاتے۔ اُس وقت بھی ذرائع ابلاغ نے اپنی کوئی خدمت انجام نہ دی۔ ہماری پروفیسر بتاتی ہیں کہ انہیں اپنی جوانی میں بنگال کے پی ٹی وی پروگراموں کو دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا کہ وہاں صرف ناچ گانا ہوتا ہے۔
بالآخر سازشیں کامیاب ہوگئیں۔ اپنے ملکی ذرائع ابلاغ کی بدولت ہم بآسانی یہ جنگ ہار گئے۔90 ہزار فوجوں نے ہتھیار ڈال دیئے اور نظریۂ پاکستان کو خلیج بنگال میں ڈبو دیا۔ اُس وقت بھی ذرائع ابلاغ کی بنیادی ذمہ داری یہی تھی کہ معاشرے کے پسے ہوئے طبقے کی ترجمانی کرتے۔ چاہے اخبارات ہوں یا برقی ابلاغ… سب حکومتی مؤقف کو پیش کرتے، جس کی وجہ سے معاشرے کا محروم طبقہ سازشوں کا شکار ہوگیا۔ آج ہم یہی شورش و سازش بلوچستان میں دیکھتے ہیں۔
ابلاغی اداروں کی اہم خصوصیت یہی ہے کہ وہ معاشرتی اقدار کو لوگوں کے ذہنوں سے محو نہ ہونے دیں۔ آجکل کے ابلاغی ادارے معاشرے کی اقدار و روایات کا جس قدر جنازہ نکال رہے ہیں میں اور آپ اس سے بخوبی واقف ہیں۔ مارننگ شوز کے نام پر حیا سوز حرکتیں تمام چینلوں سے براہِ راست نشر کی جاتی ہیں۔ پرنٹ میڈیا بھی کسی سے پیچھے نہیں۔ بہت سے اخبارات میں بسنت، ویلنٹائن ڈے، ہیلووین ڈے اور بلیک فرائیڈے پر خصوصی ایڈیشن شائع کیے جاتے ہیں۔
خبری اطلاعات کے درست اور سیاق وسباق کے ساتھ ہونے کی شق کے بارے میں ایسا لگتا ہے کہ ہمارا میڈیا کسی ضابطہ اخلاق کا پابند نہیں ہے۔ خبروں کی سنسنی خیزی، ان کے درست یا غلط ہونے سے پہلے ہی اتنی بات کرلی جاتی ہے کہ جس کے باعث معاشرے کے افراد میں حساسیت رفتہ رفتہ کم ہوتی جارہی ہے اور اس کی جگہ بے حسی نے لے لی ہے۔
تشدد کی بیخ کنی کی شق بھی ہمارے ابلاغی اداروں اور پروگرام بنانے والے افراد کی پالیسیوں سے کوسوں دور ہے۔ گھریلو تشدد، میاں بیوی میں ناچاقی اور ساس بہو کے جھگڑے اس تواتر سے دکھائے جاتے ہیں کہ لگتا ہے پاکستان کا ہر گھر اس کشمکش میں مبتلا ہے۔ حالانکہ ایسا نہیں ہے۔ آج ہی ہماری پروفیسر ڈاکٹر رفیعہ کلاس میں لیکچر کے دوران ہمیں یہ بات بتارہی تھیں کہ نیویارک سٹی میں ہر منٹ میں ایک جرم ہوتا ہے، اور جس تواتر کے ساتھ وہاں جرائم ہوتے ہیں ہم اور آپ ان جرائم اور اس شرح کا تصور نہیں کرسکتے۔ لیکن اُن کا میڈیا ان باتوں اور افعال کی تشہیر نہیں کرتا، اسی لیے ہمارے نزدیک اُن کے ہاں بہت امن ہے۔ جب کہ سب سے کم کرائم ریٹ اسلامی ممالک میں ریکارڈ کیا جارہا ہے۔
شرمین عبید چنائے کی پاکستان پر بننے والی ’اونرکلنگ‘ اور ’سیونگ فیس‘ جیسی ڈاکومنٹریز کی عالمی پذیرائی کے باعث پاکستانی ساکھ کو نقصان پہنچانے والے عناصر اور زیادہ گرم جوشی کے ساتھ مل کر اپنا کام ایک خاص ایجنڈے کے تحت سرانجام دے رہے ہیں۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ عوام الناس میں شعور و آگہی بیدار کی جائے۔ ہر خبر پر فوری ردعمل کا اظہار نہ کیا جائے۔ ذرائع ابلاغ پر بیشتر ڈاکومنٹریز، خبریں اور پروگرامات جھوٹ پر مبنی خاص پروپیگنڈے پر مبنی ہوتے ہیں، لہٰذا ان کے متعلق افواہوں سے پرہیز کیا جائے۔ فوری ردعمل کے ذریعے ابلاغی اداروں کے نمبروں پر فون کرکے، ای میل کرکے اُن کو اُن کے غلط پروگرامات کی نشاندہی کروائی جائے۔ معاشرے کے پسے ہوئے طبقات کی جانب ابلاغی اداروں کی توجہ بذریعہ ای میل، واٹس ایپ، خطوط، فون اور سوشل میڈیا پر چلنے والے ان سے متعلقہ صفحات پر کروائی جائے۔ ابلاغی اداروں کی کسی غلطی کا فوری ردعمل عوام کے بجائے براہِ راست ادارے تک پہنچایا جائے۔ بحیثیت قوم اپنے ہونے کا ثبوت دیجیے۔ وقت بتادے گا آپ درست تھے۔

اے خاک نشینو اٹھ بیٹھو وہ وقت قریب آ پہنچا ہے
جب تخت گرائے جائیں گے جب تاج اچھالے جائیں گے
اے ظلم کے ماتو لب کھولو چپ رہنے والو چپ کب تک
کچھ حشر تو ان سے اٹھے گا کچھ دور تو نالے جائیں گے

حصہ