سید مہرالدین افضل
(تفصیل کے لیے دیکھیے سورۃ ہود حاشیہ نمبر :39:53، سورۃ یونس حاشیہ نمبر:69 :70، سورۃ المؤمنون حاشیہ نمبر :3233)
اہلِ حق کا اہلِ باطل کو چیلنج: حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اہلِ مکہ کو عقلی دلائل اور دل کو چھو لینے والی نصیحتوں کے ساتھ سمجھایا…کہ ان کے عقائد اور خیالات اور طریقوں میں غلطی کیا ہے… اور وہ کیوں غلط ہے، اور اس کے مقابلے میں صحیح راہ کیا ہے اور وہ کیوں صحیح ہے۔ اس طرح دعوت دیتے ہوئے دس گیارہ سال گزر گئے لیکن اہلِ مکہ اپنے عقائد پر عقلی تنقید اور زندگی کے معاملات میں صحیح رہنمائی پر غور کرکے اپنی گمراہیوں پر نظرثانی کرنے کے بجائے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی جان کے دشمن ہوگئے۔ جب کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ کام اپنی کسی ذاتی غرض کے لیے نہیں بلکہ انہی کی بھلائی اور بہتری کے لیے کررہے تھے۔ وہ دلیلوں کا جواب پتھروں سے اور نصیحتوں کا جواب گالیوں سے دے رہے تھے۔ اپنی بستی میں ایسے شخص کا وجود اُن کے لیے سخت ناگوار، بلکہ ناقابلِِ برداشت ہوگیا تھا جو غلط کو غلط کہنے والا ہو اور صحیح بات بتانے کی کوشش کرتا ہو۔ ان کا مطالبہ یہ تھا کہ ہم اندھوں کے درمیان جو آنکھوں والا پایا جاتا ہے وہ ہماری آنکھیں کھولنے کے بجائے اپنی آنکھیں بھی بند کرلے، ورنہ ہم زبردستی اُس کی آنکھیں پھوڑ دیں گے تاکہ بینائی جیسی چیز ہماری سرزمین میں نہ پائی جائے۔ یہ طرزِعمل جو انہوں نے اختیار کر رکھا تھا، اُس پر کچھ اور فرمانے کے بجائے اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو حکم دیا کہ انہیں نوحؑ کا قصہ سنا دو، اسی قصے میں وہ اپنے اور تمہارے معاملے کا جواب بھی پالیں گے۔ سورۃ یونس آیت نمبر 71 میں ارشاد ہوا: اِن کو نوحؑ کا قصہ سنائو، اُس وقت کا قصہ جب اس نے اپنی قوم سے کہا تھا ’’ اے برادرانِ قوم، اگر میرا تمہارے درمیان رہنا اور اللہ کی آیات سنا سنا کر تمہیں غفلت سے بیدار کرنا تمہارے لیے ناقابلِ برداشت ہو گیا ہے تو میرا بھروسہ اللہ پر ہے، تم اپنے ٹھیرائے ہوئے شریکوں کو ساتھ لے کر ایک متفقہ فیصلہ کرلو اور جو منصوبہ تمہارے پیشِ نظر ہو اس کو خوب سوچ سمجھ لو تاکہ اس کا کوئی پہلو تمہاری نگاہ سے پوشیدہ نہ رہے، پھر میرے خلاف اس کو عمل میں لے آئو اور مجھے ہرگز مہلت نہ دو۔‘‘
یہ چیلنج حضرت نوحؑ نے اپنی قوم کو دیا تھا اور یہی چیلنج حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اہلِ مکہ کو دیا… اور یہی قیامت تک اہلِ باطل کو اہلِ حق کا چیلنج ہوگا کہ اللہ کے بارے میں عقیدہ وہ نہیں جو باپ دادا سے چلا آرہا ہو… بلکہ وہ ہونا چاہیے جو عقل میں سمائے… اور زندگی اور دنیا کے معاملات ایسے نہیں جیسے سب کررہے ہیں ویسے ہی ہم بھی کریں گے، بلکہ زندگی کے معاملات ایسے چلائو جو تمہارے دل کو بھی راحت اور خوشی دیں اور دوسروں کے لیے بھی راحت اور خوشی کا ذریعہ بنیں۔ یہ کام ہے جو ہر زمانے میں اہلِ حق نے کیا، اور اہلِ حق کبھی اس کام سے باز نہ آئیں گے، اہلِ باطل ان کے خلاف جو کچھ کرنا چاہیں، کرگزریں، ان کا بھروسہ اللہ پر ہوگا۔
انسانوں کی ذہنیت:۔ سورہ ہود آیت نمبر 35 میں ارشاد ہوا: اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم، کیا یہ لوگ کہتے ہیں کہ اِس شخص نے یہ سب کچھ خود گھڑ لیا ہے؟ ان سے کہو ’’اگر میں نے یہ خود گھڑا ہے تو مجھ پر اپنے جرم کی ذمہ داری ہے، اور جو جرم تم کررہے ہو اس کی ذمہ داری سے میں بری ہوں۔‘‘
حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے حضرت نوحؑ کا یہ قصہ سنتے ہوئے مخالفین اعتراض کرتے تھے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) یہ قصے خود بنا بنا کر پیش کرتے ہیں اور ہم پر چوٹ کرتے ہیں۔ اس آیت میں ان کے اعتراض کا جواب دیا گیا ہے۔ آج ہزاروں کتابیں شائع ہوچکی ہیں جو کسی ادارے کی کامیابی یا ناکامی کی وجوہات بیان کرتی ہیں، اور لوگ اسے کیس اسٹڈی کے طور پر دیکھتے ہیں۔ ان کتابوں میں افراد کے یقین، نصب العین اور طرزِعمل پر بات ہوتی ہے اور یہ واضح کیا جاتا ہے کہ کون سا طریقہ کامیابی کی طرف لے جاتا ہے اور کون سا طریقہ ناکامی کی طرف۔ اسی طرح اچھے استاد، ٹرینر اور مربی (Mentor) وہ ہوتے ہیں جو اپنے مخاطبین کو دوسرے لوگوں کی مثالوں سے سمجھاتے ہیں۔ سامنے والے کو براہِ راست اس کی غلطی پر نہیں ٹوکتے۔ لیکن گھٹیا قسم کے لوگوں کا ذہن ہمیشہ بات کے برے پہلو کی طرف جاتا ہے۔ اُنہیں اچھائی سے کوئی دلچسپی نہیں ہوتی، اس لیے اس بات کے اچھے پہلو پر ان کی نظر نہیں جاتی۔ ایک شخص نے اگر کوئی حکمت کی بات کہی ہے، یا وہ انہیں فائدے کی کوئی بات بتا رہا ہے، یا ان کی کسی غلطی کے برے انجام سے انہیں آگاہ کررہا ہے… تو اُس سے فائدہ اٹھائیں اور اپنی اصلاح کریں۔ مگر یہ ہمیشہ اس میں برائی کا کوئی ایسا پہلو تلاش کریں گے جس سے حکمت اور نصیحت پر پانی پھیر دیں۔ اور نہ صرف خود اپنی برائی پر قائم رہیں بلکہ کہنے والے کے ذمے بھی الٹی کچھ برائی لگادیں۔ اس طرح بہتر سے بہتر نصیحت بھی ضائع ہوجاتی ہے جب کہ سننے والا اسے خیر خواہی کے بجائے’’چوٹ‘‘ کے معنی میں لے… اور اس کا ذہن اپنی غلطی کو سمجھنے کے بجائے برا ماننے کی طرف چل پڑے۔ اس قسم کے لوگ ہمیشہ اپنی سوچ کی بنیاد بدگمانی پر رکھتے ہیں۔ جب کہ صحیح طرزِفکر یہ ہے کہ جس بات، واقعے یا قصے کا حقیقت ہونے اور افسانہ ہونے کا امکان برابر ہو، مگر وہ ٹھیک ٹھیک کسی شخص کے حال پر پورا اترتا ہو اور اس میں اس کی کسی غلطی کی نشان دہی ہوتی ہو، تو ایک عقل مند آدمی اُسے واقعی ایک حقیقت سمجھ کر اُس کے سبق آموز پہلو سے فائدہ اٹھائے گا۔ جبکہ ایک بدگمان اور ٹیڑھی سوچ والا شخص کسی ثبوت کے بغیر یہ الزام لگا دے گا کہ کہنے والے نے صرف مجھے سنانے اور مجھ پر چوٹ کرنے کے لیے یہ قصہ بنالیا ہے۔ اسی وجہ سے ارشاد ہوا: کہ اگر یہ داستان میں نے گھڑی ہے تو اپنے جرم کا میں ذمے دار ہوں، لیکن جس جرم کا تم ارتکاب کررہے ہو وہ تو اپنی جگہ قائم ہے اور اس کی ذمہ داری میں تم ہی پکڑے جائو گے، نہ کہ میں۔
سورہ المؤمنون آیت نمبر 30 میں ارشاد ہوا: اِس قصے میں بڑی نشانیاں ہیں، اور آزمائش تو ہم کرکے ہی رہتے ہیں۔
سبق یہ ہے کہ توحید کی دعوت دینے والے انبیاء حق پر تھے اور شرک پر اصرار کرنے والے کفار باطل پر… اور اہلِ مکہ نے بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ وہی کیا جو قومِ نوح نے حضرت نوحؑ کے ساتھ کیا تھا۔ بربادی دونوں دور میں باطل پرستوں کا مقدر ہوئی۔ اللہ کے فیصلے میں چاہے دیر کتنی ہی لگے مگر فیصلہ آخرکار ہوکر رہتا ہے، اور وہ لازماً اہلِ حق کے حق میں اور اہلِ باطل کے خلاف ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کسی قوم کو بھی اپنی زمین اور اس کی بے شمار چیزوں پر اقتدار عطا کرکے بس یونہی اس کے حال پر نہیں چھوڑ دیتا، بلکہ اس کی آزمائش کرتا ہے اور دیکھتا رہتا ہے کہ وہ اپنے اقتدار کو کس طرح استعمال کررہی ہے۔ قومِ نوحؑ کے ساتھ جو کچھ ہوا اسی قانون کے مطابق ہوا، اور اس معاملے سے ہر ایک کو لازماً سابقہ پیش آنا ہے۔ سورہ نوح آیت نمبر 25 میں ارشاد ہوا:۔ اپنی خطائوں کی بنا پر ہی وہ غرق کیے گئے اور آگ میں جھونک دیے گئے، پھر انہوں نے اپنے لیے اللہ سے بچانے والا کوئی مددگار نہ پایا۔
اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ ہم سب کو اپنے دین کا صحیح فہم بخشے، اور اُس فہم کے مطابق دین کے سارے تقاضے اور مطالبے پورے کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔
وآخر دعوانا انالحمدو للہ رب العالمین۔