عابد علی جوکھیو
روز ازل سے ہی کھانا انسان کی ضرورت اور مجبوری رہا ہے، اس کے بغیر اس کا وجود ممکن نہیں۔ اس لیے خالق کائنات نے تخلیق انسان کے ساتھ ہی اس کے طعام کا انتظام بھی فرمادیا، کھانے پینے کی بے شمار اشیا پیدا فرمائیں تا کہ انسان ان کے ذریعے اپنی بقا کو ممکن بنا سکے۔ خالق نے انسان کے کھانے کے لیے کوئی ایک چیز پیدا نہیں کی، اور نہ ہی چند ایک کو انسان کے لیے حلال قرار دیا، بلکہ چوپائے، پرندے،مچھلیاں، سبزیاں ،پھل اور دیگر کئی اجناس پیدا کرکے انسان کی خوراک کے لیے خاطر خواہ انتظام فرمایا۔ اس کے ساتھ ساتھ جو چند جانور حرام قرار دیے اس میں بھی بامر مجبوری زندہ رہنے کی ضرورت کی حد تک کھانے کی اجازت بھی فرمائی۔ یہ اس کا رحم و کرم ہے کہ اپنی حرام کردہ چیز کو بھی انسان کی بقا و سلامتی کے خاطر وقتی طور پر حلال کردیا۔ یہ اس لیے کہ کھانا انسان کی مجبوری ہے اس کے بغیر وہ زندہ نہیں رہ سکتا، آج دنیا میں بیشتر لوگ محنت کرتے نظر آتے ہیں وہ دو وقت کی روٹی کے حصول کے لیے ہی مشقتیں برداشت کرتے ہیں، ان کے لیے نئے کپڑے اور مکان تو بہت دور کی بات ہے۔ اسی انسانی ضرورت کے پیش نظر خالق کائنات نے جہاں انسانی ضرورت کے لیے کھانے پینے کی کئی اشیا پیدا فرمائیں وہیں انسان کو بھی اس بات کا حکم دیا کہ وہ بھی دوسرے انسانوں کو کھانا کھلائے ، بلکہ اس عمل کو انسان کی فلاح کا ذریعہ بتایا۔ رازق اللہ کی صفت ہے، (اگرچہ اس کے معانی بہت وسیع ہیں، لیکن یہاں صرف خوراک تک محدود کرکے دیکھیں) اور وہ پسند فرماتا ہے کہ اس کے بندے بھی اس کی صفات کی نقالی کریں اور انسانیت کے فلاح و بہبود کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔ بھوک بھی اللہ کے عذابوں میں سے ایک عذاب ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔ ترجمہ:’’اور ہم ضرور تمہیں خوف وخطر ، فاقہ کشی ، جان و مال کے نقصانات اور آمدنیوں کے گھاٹے میں مبتلا کرکے تمہاری آزمائش کریں گے، ان حالات پر صبر کرنے والوں کے لیے خوشخبری ہے۔ ‘‘(البقرہ 155) نبی کریمؐ نے بھی بھوک و افلاس سے پناہ مانگی ہے، کیونکہ بھوک ایسی حالت ہے جو انسان کو حرام اور کفر تک بھی لے جاسکتی ہے۔ اللہ کے راستے کی طرف جانے سے روکتی ہے،بھوک میں انسان کے ہوش وحواس کام کرنے چھوڑ دیتے ہیں، اعضا و جوارح مفلوج ہوجاتے ہیں، اور وہ ضعیف مومن کی مثال بن جاتا ہے۔ ایسے میں خالق کائنات اپنے ماننے والوں سے یہ مطالبہ کرتا ہے کہ وہ بندے کو اللہ کی طرف جانے سے روکنے والی اس رکاوٹ کو دور کریں،ایک مومن کے لیے ایسا ماحول اور حالات بنائیں کہ وہ اپنے رب کی طرف جا سکے، اس کی رحمت کو تلاش کر سکے، اور اپنے ذمے عائد ذمے داریوں کو پورا کرنے کے قابل ہوجائے۔
سیدنا ابوہریرہؓسے روایت ہے کہ رسول کریم ؐیہ دعا فرماتے تھے:
اللہم انی اعوذبک من الجوع فانہ بئس الضجیع واعوذبک من الخیانۃ فانہا بئست البطانۃ
ترجمہ: اے اللہ! میں تیری پناہ مانگتا ہوں بھوک سے کہ وہ رات کی بدترین ساتھی ہے اور تیری پناہ مانگتا ہوں خیانت سے کہ وہ باطن کی بد ترین خصلت ہے۔ (ابوداؤد، نسائی ، ابن ماجہ)
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں کئی مقامات پر نہ صرف بھوکوں کو کھانا کھلانے کی فضیلت بیان کی ہے بلکہ اس کا حکم بھی دیا ہے ۔ اس کو جنتیوںکے اوصاف میں سے ایک صفت اور اس کو بوجھ سمجھنے والوں کی بداعمالی قرار دیا ہے۔ قرآن مجید میں جنتیوں کی صفات بیان کرتے ہوئے ارشاد باری تعالیٰ ہے۔ ترجمہ:(جنتی لوگ) اللہ کی محبت میں مسکین اور یتیم اور قیدی کو کھانا کھلاتے ہیں (اور اْن سے کہتے ہیں کہ)ہم تمہیں صرف اللہ کی خاطر کِھلا رہے ہیں، ہم تم سے نہ کوئی بدلہ چاہتے ہیں نہ شکریہ۔ (الدھر 8-9)اس آیت مبارکہ میں مسکین، یتیم اور قیدی کو کھانا کھلانے کی فضیلت بیان کی گئی ہے اور اس کے ساتھ کھانا کھلانے والوں کے طرز عمل کو بھی سراہا گیا ہے کہ وہ ان سے اس کا کوئی بدلہ نہیں مانگتے بلکہ وہ تو اپنے رب کے حکم کی تکمیل میں لگے ہوتے ہیں۔ استاد محترم ڈاکٹر ساجد جمیل صاحب نے مسکین کی تعریف بتائی کہ مسکین وہ ہوتا ہے جس کا ممکن ہو کہ گھر بھی ہو، سامان بھی ہو، لیکن کسی مجبوری، کاروباری نقصان یا بے روزگاری کی وجہ سے اس کی معاشی حرکت رک گئی ہو اور وہ وقتی طور پر دوسروں کی مدد کا محتاج ہو، لیکن یہ فقیر نہیں ہوتا کہ کسی کے سامنے دست دراز کر لے، عزت نفس اس کے آڑے آجاتی ہے ، اس لیے وہ ایک بہت بڑے کرب میں ہوتا ہے۔ یہ حکم ایسے ہی لوگوں کے لیے ہے۔ یہ ہماری ذمے داری بنتی ہے کہ ہم اپنے ارد گرد، جاننے والوں میں، پڑوس میں، رشتے داروں میں ان کو تلاش کریں اور باعزت طریقے سے ان کے کھانے پینے کا سامان مہیا کریں تا کہ ان کی عزت نفس مجروح نہ ہو اور سفید پوشی بھی برقرار رہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ان کے دوبارہ معاشی استحکام کے لیے بھی کوشش کرنی چاہیے کہ وہ جلد اپنے پاؤں پر کھڑے ہوجائیں۔ دوسرا یتیم ہے، احادیث مبارکہ میں یتیم کا سہارا بننے کی بڑی فضیلت بیان کی گئی ہے۔اور یہ کام کرنے والے کے لیے جنت میں نبی کریمؐ کی معیت کی خوشخبری سنائی گئی ہے۔ (بخاری) تیسرا قیدی ہے،یہ اشارہ بدر کے قیدیوں (کافر) کے بارے میں ہے،جن کو صحابہؓ نے اپنی معاشی پریشانیوں کے باوجود کھانا کھلایا اورخیال رکھا۔ اللہ تعالیٰ نے اس عمل کو بھی باعث اجر بتایا۔ سوچنے کی بات ہے کہ جب کافرکو کھانا کھلانے کا اتنا ثواب ہے تو مومن کو کھلانے کا اجر کتنا ہوگا…
علامہ سیوطی ؒنے اس آیت کریمہ کے تحت قتا دہؓکا قول ذکر کیا ہے کہ ’’اللہ نے قیدیوں کو کھانا کھلانے کا حکم دیا ہے، جو مشرک تھے۔ تو اس کے مقابلے میں مسلمان بھائیوں کو کھانا کھلانے کا کیا حال (ثواب) ہوگا کہ جو قابل احترام اور ان کے زیادہ مستحق ہیں۔مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے اس آیت کا وسیع مفہوم بیان کرتے ہوئے لکھا ہے: ’’اگرچہ بجائے خود کسی غریب کو کھانا کھلانا بھی ایک بہت بڑی نیکی ہے، لیکن کسی حاجت مند کی دوسری حاجتیں پوری کرنا بھی ویسا ہی نیک کام ہے جیسا بھوکے کو کھانا کھلانا۔ مثلاً کوئی کپڑے کا محتاج ہے، یا کوئی بیمار ہے اور علاج کا محتاج ہے، یا کوئی قرضدار ہے اور قرض خواہ اسے پریشان کر رہا ہے، تو اس کی مدد کرنا کھانا کھلانے سے کم درجے کہ نیکی نہیں ہے۔ اس لیے اس آیت میں نیکی کی ایک خاص صورت کو اس کی اہمیت کے لحاظ سے بطور مثال پیش کیا گیا ہے، ورنہ اصل مقصود حاجت مندوں کی مدد کرنا ہے۔‘‘ (تفہیم القرآن)
سورۃ البلد کی آیت 12تا18میں اہل جنت ک صفات بیان کی گئی ہیں۔ ترجمہ: ’’اور تم کیا جانو کہ کیا ہے وہ دشوار گزار گھاٹی؟ کسی گردن کو غلامی سے چھڑانا، یا فاقے کے دن کسی قریبی یتیم یا خاک نشین مسکین کو کھانا کھلانا۔ پھر (اِس کے ساتھ یہ کہ) آدمی ان لوگوں میں شامل ہو جو ایمان لائے اور جنہوں نے ایک دوسرے کو صبر اور (خلق خدا پر) رحم کی تلقین کی۔ یہ لوگ ہیں دائیں بازو والے۔‘‘ سورہ الحشر کی آیت 9 میں سیدنا ابو طلحہ انصاریؒ کی مہمان نوازی کے مشہور واقعے کی طرف اشارہ ہے:’’اور اپنی ذات پر دوسروں کو تر جیح دیتے ہیں خواہ اپنی جگہ خود محتاج ہوں۔‘‘
اس کے مقابلے میں جہنمیوں کے افعال بیان کرتے ہوئے ان کے عمل کی شدید الفاظ میں مذمت بیان کی گئی کہ نہ خود بھوکوں کوکھانا کھلاتے تھے، نہ اپنے گھر والوں یا کسی اور کو اس بات کی ترغیب دیتے ہیں، بلکہ لوگوں کو اس عمل سے روکنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان کے متعلق ارشاد باری تعالیٰ ہے۔ ترجمہ: ’’(حکم ہوگا) پکڑو اِسے اور اِس کی گردن میں طوق ڈال دو، پھر اِسے جہنّم میں جھونک دو، پھر اِس کو ستّر ہاتھ لمبی زنجیر میں جکڑ دو۔ یہ نہ اللہ بزرگ و برتر پر ایمان لاتا تھا اور نہ مسکین کو کھانا کھلانے کی ترغیب دیتا تھا۔ (الحاقہ 30-34)سورہ الفجر میں ارشاد ہے۔ ترجمہ: ’’اور جب وہ اْس کو آزمائش میں ڈالتا ہے اور اْس کا رزق اْس پر تنگ کر دیتا ہے تو وہ کہتا ہے میرے ربّ نے مجھے ذلیل کر دیا۔ ہرگز نہیں، بلکہ تم یتیم سے عزّت کا سلوک نہیں کرتے اور مسکین کو کھانا کھلانے پر ایک دوسرے کو نہیں اْکساتے، اور میراث کا سارا مال سمیٹ کر کھا جاتے ہو، اور مال کی محبت میں بْری طرح گرفتار ہو(16-20)یہ اور اوپر سورہ البقرہ کی آیت 155سامنے رکھ کر مطالعہ کریں تو ایک جیسے حالات میں مومن اور کافر کا طرز عمل بالکل واضح ہوجاتا ہے۔ سورہ الماعون میں ارشاد ہے۔ ترجمہ: ’’تم نے دیکھا اْس شخص کو جو آخرت کی جزا و سزا کو جھْٹلاتا ہے؟ وہی تو ہے جو یتیم کو دھکّے دیتا ہے، اور مسکین کو کھانا دینے پر نہیں اْکساتا۔‘‘( 1-3) ایک اور جگہ جنتیوں اور جہنمیوں کا مکالمہ بیان کیا گیا ہے۔ ترجمہ: ’’ہر متنفس اپنے کسب کے بدلے رہن ہے، دائیں بازو والوں کے سوا، جو جنتوں میں ہوں گے۔ وہاں وہ مجرموں سے پوچھیں گے ’’ تمہیں کیا چیز دوزخ میں لے گئی؟‘‘ وہ کہیں گے’’ہم نماز پڑھنے والوں میں سے نہ تھے، اور مسکین کو کھانا نہیں کھلاتے تھے، اور حق کے خلاف باتیں بنانے والوں کے ساتھ مل کر ہم بھی باتیں بنانے لگتے تھے۔ اور روزِ جزا کو جھوٹ قرار دیتے تھے، یہاں تک کہ ہمیں اْس یقینی چیز سے سابقہ پیش آگیا۔‘‘ اس وقت سفارش کرنے والوں کی سفارش ان کے کسی کام نہ آئے گی۔ (المدثر 38-48)
مساکین کی مدد کے فضائل بھی نبی اکرمؐ نے بکثرت احادیث میں ارشاد فرمائے ہیں۔ابوہریرہؓ روایت کرتے ہیں کہ آپؐ نے فرمایا: بیوہ اور مسکین کی مدد کے لیے دوڑ دھوپ کرنے والا ایسا ہے جیسے جہاد فی سبیل اللہ میں دوڑ دھوپ کرنے والا۔ ابوہریرہؓ کہتے ہیں کہ میرے خیال سے آپؐ نے یہ بھی فرمایا تھا کہ وہ ایسا ہے جیسے وہ شخص جو نماز میں کھڑا رہے اور آرام نہ لے اور وہ جو پے درپے روزے رکھے اور کبھی روزہ نہ چھوڑے۔‘‘ (بخاری و مسلم)ایک اور حدیث ہے:’’ اے لوگو! سلام کو پھیلاؤ، لوگوں کو کھانا کھلاؤ، رشتے داریوں کو جوڑو اور رات میں تہجد کی نماز پڑھو، جبکہ لوگ سورہے ہوں، تم جنت میں سلامتی کے ساتھ داخل ہو جاؤ گے۔‘‘ (ترمذی) آپ ؐنے ارشاد فرمایا: ’’جنت میں ایک محل ہے جس کا اندرونی حصہ باہر سے اور باہر کا حصہ اندر سے نظر آتا ہوگا۔ابو مالک اشعری نے پوچھا: یہ کس کو ملے گا؟ آپؐ نے فرمایا: اس کو جو شیریں کلام ہو اور لوگوں کو کھانا کھلاتا ہو اور نماز تہجد میں کھڑے ہوئے رات گزارتا ہو، جبکہ لوگ سورہے ہوں۔‘‘ (طبرانی)
ان کے علاوہ کئی دیگر کئی آیات اور احادیث میں بھوکوں کو کھانا کھلانے کی فضائل بیان کیے گئے ہیں۔ اگر عمل کیا جائے تو یہ عمل اتنا مشکل نہیں، بس اپنے اردگرد نظر دوڑائیں اور معلوم ہونے پر بغیر کسی اعلان کے خاموشی کے ان کی امداد کردیں۔ کہیں کوئی مسکین نظر آئے اسے کھانا کھلادیں۔ بڑے بڑے دسترخوان نہ بنائیں لیکن کم از کم اپنے دسترخوان میں ایسے افراد کے لیے ضرور حصہ رکھیں۔ اولیاء کرام کا طرۂ امتیاز تھا کہ انہوں نے بھوکوں کا کھانا کھلایا، ستر پوشی کی، چھت دی، پریشان حالوں کی مدد کی۔ حقیقت تو یہی ہے کہ آج بھی کامیابی اسی طرز عمل میںہے۔