عمل اور مجلس عمل

318

تنویر اﷲ خان
پاکستان میں ہونے والے اب تک کے انتخابات میں 2002ء کے انتخاب میں مذہبی جماعتوں نے سب سے زیادہ ووٹ لیے تھے جن کی تعداد 3181483 تھی جو ڈالے گئے ووٹ کا 16.54فیصد بنتی ہے۔ یہ انتخاب ایم ایم اے کے جھنڈے تلے لڑا گیا تھا۔ اگر ہم ایم ایم اے کو ملنے والے ووٹ کو مذہبی کہیں تو اس تعریف کے مطابق ان انتخابات میں بھی 83.46 ووٹ غیر مذہبی تھا۔
ایم ایم اے کو ملنے والے 16فیصد ووٹ اگر آئندہ ہونے والے انتخابات میں دوبارہ حاصل کرلیے گئے تو بھی84فیصد ووٹ مذہبی ووٹ کے خلاف پڑے گا۔ اگر مذہبی جماعتیں اپنے سابقہ ووٹ لے کر اتنی ہی نشستیں حاصل کرلیتی ہیں تو بھی وہ پریشرگروپ سے زیادہ کی پوزیشن حاصل نہ کرسکیں گی۔ پریشر گروپ بھی اگر ذاتی مفادات سے بالاتر ہو تو بہت کچھ کرسکتا ہے، اور معاملہ اس کے برخلاف ہو تو آئے روز خرید وفروخت کی خبریںآتی رہیں گی اور معاملات کی عجیب و غریب تعبیرات، حیلے، بہانے سنتے سنتے ہی نیا الیکشن آجائے گا اور ایک بار پھر عزمِ نو کی نویدِ نو کے سوا کوئی چارہ نہیں رہے گا۔
دینی جماعتوں کا اتحاد بظاہر تو مذہبی ووٹ کو یکجا کرنے کی کوشش نظر آتی ہے لیکن اس سے بھی مذہبی اور غیر مذہبی کی ایک تقسیم تو آپ سے آپ پیدا ہو ہی جاتی ہے، کیوں کہ اس طرح 84 فیصد ووٹ غیر مذہبی بن کر مخالف کیمپ میں چلا جاتا ہے۔ معاشرے میں مذہبی ووٹ کا یہ تناسب کسی تبدیلی کا سبب نہیں بن سکتا، لہذا ایک آدمی ایک ووٹ کے اس نظام میں الیکشن میں حصہ لینے والی جماعتوںکو مذہبی و غیر مذہبی وغیرہ کی تقسیم میں نہیں پڑنا چاہیے۔ انتخابات میں حصہ لینے والی جماعتوں کے لیے ووٹ صرف ووٹ ہے، وہ نہ مذہبی ہے اور نہ غیر مذہبی ہے۔ ووٹ صرف حکومت بنانے اور اس کے نتیجے میں کسی بھی تبدیلی کا ذریعہ ہے۔
2002ء کے انتخابات میں پی ٹی آئی نے ایک نشست اور ایک لاکھ سے کچھ زیادہ ووٹ لیے تھے، جب کہ مسلم لیگ (ن) بھی سائیڈلائن لگی ہوئی تھی اور یہ قومی اسمبلی کی صرف 14نشستیں جیت سکی تھی، لیکن آئندہ انتخابات میں یہ دونوں جماعتیں بھی اسلام پسندوں کے ووٹ میں حصہ دار ہیں۔
اگلا سال ملک میں عام انتخابات کا سال ہے۔ کوئی بھی سیاسی جماعت جو رائج نظام میں رہتے ہوئے تبدیلی لانا چاہتی ہو، یا انتخابات میں کامیاب ہوکر حکومت بناکر عوامی خدمت کے کام کرنا چاہتی ہو وہ انتخابات سے الگ نہیں رہ سکتی۔ بہت آئیڈیل صورت تو یہ ہے کہ کوئی بھی جماعت اپنا پروگرام پیش کرے اور اس کو اتنی عوامی حمایت حاصل ہو کہ سب سے زیادہ ووٹ لے کر حکومت بنالے۔ لیکن تجربے، مشاہدے، اندازے کی حس بتا رہی ہو کہ ابھی اتنی سیاسی قوت نہیں کہ تن تنہا کچھ کیا جاسکے لہٰذا مجبوراً اتحاد، مفاہمت، باہمی مدد کا راستہ اختیار کرنا پڑتا ہے۔ عام حالات میں اداروں یا منصب داروں کے فیصلوں اور اُن کے فالورز کی منشاء میں ہم آہنگی ہونی چاہیے، لیکن بعض اوقات ایسا نظر آتا ہے کہ فالوورز اور قیادت کے سوچنے کے انداز میں فرق ہے۔ یہ فرق اس لیے بھی ہوسکتا ہے کہ قیادت جو کچھ دیکھ رہی ہوتی ہے کارکن اُس سے واقف نہیں ہوتا، اور ایسا بھی ممکن ہے کہ مخالفت کرنے والے چند بلند آہنگ فالوورز کی آواز سب کی آواز سمجھی جاتی ہے، اور ایسا بھی ممکن ہے کہ اکثریت کی آواز قیادت تک پہنچنے نہ دی جارہی ہو۔ یہ آخری صورت صرف اُن جماعتوں میں ہوسکتی ہے جہاں فیصلے کے باقاعدہ اور منتخب فورم نہ ہوں۔ جن جماعتوں میں ہر سطح پر صلاح مشورے کے ادارے موجود ہوں وہاں عام کارکن کی رائے فیصلوں میں لازمی شامل ہوتی ہے، لیکن اگر اداروں کے موجود ہونے اور اُن کے فعال ہونے کے بعد بھی کارکنوں کی اکثریت کی رائے اورقیادت کے فیصلوں میں بڑا اور مسلسل اختلاف ہو تو یہ کیفیت اصلاح کا تقاضا کرتی ہے۔
آئندہ انتخابات کے لیے سابقہ متحدہ مجلس عمل کی جماعتوں نے اتحاد کا عندیہ دیا ہے، اس حوالے سے حمایت اور مخالفت کا سلسلہ جاری ہے۔ میڈیا خصوصاً سوشل میڈیا نے ہمارے طور طریقوں میں بڑی تبدیلی پیدا کردی ہے۔ پہلے گھر کے بڑے عقل مند اور فیصلہ ساز سمجھے جاتے تھے اور ان کے فیصلوں کو تسلیم بھی کیا جاتا تھا، لیکن اب میڈیا نے خاندان کے ہر عمر کے فرد کو ایک ہی مقام پر کھڑا کردیا ہے اور عام خیال ہوگیا ہے کہ عمر، تجربے کا فرق کوئی اہمیت نہیں رکھتا، لہذا اب سب عقلِ کُل بھی ہیں اور فیصلہ ساز بھی ہیں۔ یہی کیفیت سیاسی جماعتوں میں بھی در آئی ہے۔ اب سے پہلے قائد کو دانا وبینا، مستقبل بین سمجھا جاتا تھا، لیکن میڈیا نے یہاں بھی اس فرق کو ختم کردیا ہے۔ اب سب عقل مند اور عقلِ کُل ہیں، لہٰذا سب کی یہ خواہش ہے بلکہ اس پر اصرار ہے کہ میں جو کہہ رہا ہوں وہی صحیح ہے، باقی سب غلط ہے۔ پہلے ایک آدمی پوری زندگی لگا کر بھی مشکل سے چند ہزار لوگوں تک پہنچ پاتا تھا، لیکن اب سب کو اپنی رائے اپنے نام کے ساتھ یا گمنامی میں رہ کر عام کرنے کے بڑے مواقع حاصل ہیں جس کی وجہ سے مشاورت کے ذریعے چلنے والی جماعتوں پر حالات سخت ہوگئے ہیں۔
جو لوگ یا جماعتیں امیدیں باندھے رکھتے ہیں وہ فیصلہ کرنے میں بہت دیر کرتے ہیں۔ سابقہ ایم ایم اے کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا۔ کئی مواقع ایسے آئے جو بعض جماعتوں کے لیے قابلِ قبول نہیں تھے لیکن اُنھوں نے کوئی فیصلہ نہیں کیا، بلکہ بعض دفعہ فیصلہ کرنے کے بعد بھی اُن پر عمل درآمد نہیں ہوا، جیسے سرحد اسمبلی اور پھر قومی اسمبلی سے استعفیٰ دینے کا فیصلہ ہوا تھا۔
مولانا فضل الرحمان صاحب جماعت اسلامی کے کارکن کے لیے خوف کی علامت ہیں۔ حقیقت کیا ہے، لیکن میڈیا نے مولانا کی شخصیت کا ایسا خاکہ پیش کیا ہے کہ سیدھا سچا آدمی اُن سے ڈرتا ہے۔ مولانا کے بعض کام بھی ایسے ہیں جو بدگمانی کا سسب بنتے ہیں، مثلاً مولانا عرصۂ دراز سے کشمیر کمیٹی کے چیئرمین ہیں لیکن اتنے خاموش ہیں کہ کسی کو معلوم ہی نہیں ہے کہ وہ اس منصب پر فائز ہیں۔ اس سے خیال پیدا ہوتا ہے کہ یہ چیئرمین شپ صرف وزارت کو انجوائے کرنے کا ذریعہ سمجھی جارہی ہے۔ 2002ء کے انتخابات کے نتیجے میں بننے والی اسمبلی میں ایم ایم اے کے پارلیمانی لیڈر مرحوم قاضی حسین احمد تھے لیکن جب قائدِ حزبِ اختلاف بننے کا مرحلہ آیا تو جناب فضل الرحمان نے عقل کو دنگ کردینے والی تعبیرات پیش کردیں اور خود قائد حزبِ اختلاف بن بیٹھے تاکہ وزارت کے برابر مراعات مل جائیں۔باقی الزامات ثبوت مانگتے ہیں، لہٰذا میرے جیسا عام آدمی ان پر کچھ کہنے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ایم ایم اے کے سابقہ تجربے کی روشنی میں قیادت کوآئندہ کے فیصلے کرنے چاہئیں اور کارکن کو بھی اپنی سیاسی طاقت، ووٹ اور مستقبل کے خدشات وامکانات کو سامنے رکھ کر سوچنا چاہیے۔کچھ سیاسی و دینی جماعتوں کے اونٹ پر وزن کا آخری تنکا رکھا جاچکا ہے اور اب وہ مزید وزن اٹھانے کی متحمل نہیں ہیں، جماعتیں اور ان کے ادارے بنانا کھیل نہیں… بنتے بنتے، بنتے ہیں۔ لہٰذا ان کی حفاظت اور انھیں اچھی شکل میں اگلی نسل کو منتقل کرنا سب کی ذمہ داری ہے۔
گزشتہ دنوں ڈیرہ اسماعیل خان میں ایک لڑکی کے ساتھ انتہائی نامناسب، بزدلانہ، وحشیانہ سلوک کیا گیا۔ پاکستان کے دوسرے حصوں میں تو ایسے واقعات سُننے کو ملتے رہے ہیں لیکن پشتون معاشرے میں جہاں ہر قصور معاف کیا جاسکتا ہے لیکن عورت کی عزت پرکوئی کمپرومائز نہیں کیا جاتا، وہاں سے اس طرح کی خبر آنا بری سے زیادہ صدمے کا سبب بنی ہے۔
حادثہ کہیں بھی ہوسکتا ہے اور کبھی بھی ہوسکتا ہے، لیکن اگر اس پر گرفت نہ ہو تو ایسے حادثات بڑھنے کا خدشہ بڑھ جاتا ہے۔ جو واقعہ ہوچکا اُسے پلٹایا نہیں جاسکتا۔ جس کو بے آبرو کردیا گیا اس کو لوٹانا ناممکن ہے۔ حالانکہ اس معاملے میں بے آبرو لڑکی کو نہیں ہونا چاہیے بلکہ بے آبرو اُنھیں ہونا چاہیے جنہوں نے یہ گناہ اور قانون کی خلاف ورزی کا یہ کام کیا ہے، لیکن اس کے لیے خیبر پختون خوا کے حکمرانوں کو اپنا مثبت کردار ادا کرنا ہوگا اور ملزمان کو عبرت کی علامت بنانا ہوگا، اور اس سے بھی بڑھ کر معاشرے کی ذمہ داری ہے کہ وہ لڑکی کو بے عزت سمجھنے کے بجائے اس غلط کام کرنے والوں کا ایسا بائیکاٹ کرے، اُن کے ساتھ بیزاری اور لاتعلقی کا ایسا رویہ اختیار کرے کہ آئندہ کوئی ایسا کرنے کا سوچ بھی نہ سکے۔ حادثہ روکنا ممکن نہیں ہے، لیکن اُس پر ردعمل سب دے سکتے ہیں جو اُنھیں دینا چاہیے۔ ان کا ردعمل اُنھیں گناہ کرنے والوں یا گناہ سے بیزار ہونے والوں کی صف میں شامل کرے گا۔

حصہ