یک محوری دنیا میں خود کو سیاہ و سفید کا مالک، حاکمِ اعلیٰ اور اَن داتا سمجھنے والے امریکا بہادر اور اس کے حواریوں نے پاکستان کو دبائو میں لانے کے لیے ایک پرانا حربہ ازسرنو آزمایا ہے اور پاکستان کی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ توہینِ رسالت کے قوانین کو منسوخ کردے۔ غیر ملکی خبررساں ادارے کے مطابق جنیوا میں منعقدہ اجلاس میں عالمی ادارے یونیورسل پیر یاڈک ریویو (یو پی آر) کی رپورٹ پیش ہونے کے بعد امریکا کی نمائندگی کرنے والے جینز بریسٹن اسٹریسٹ کا کہنا تھا کہ توہینِ رسالت کے قانون اور سزائیں انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہیں، اس قانون کو جتنی جلد ہوسکے منسوخ کرکے نیا قانون نافذکیا جانا چاہیے۔ انہوں نے سفارش کی کہ پاکستانی حکومت ختمِ نبوت کے معاملے میں ہونے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوںکے خلاف تفتیش کرے اور سیکورٹی ادارے اپنا بھرپور کردار ادا کریں۔ جینز برسٹن کا کہنا تھا کہ ہمیں بین الاقوامی این جی اوزکے حوالے سے بنائی جانے والی پالیسی پر تشویش ہے جس کے ذریعے غیر تشدد پسند فلاحی اداروںکے کاموں پر پابندی عائد کی گئی۔ برطانیہ کی نمائندگی کرنے والی میرام شارمن کا کہنا تھا کہ ہم اس بات پر متفق ہیں کہ پاکستان میں اقلیتوں کی آزادی کا فقدان ہے اور خواہش کرتے ہیں کہ پاکستان میں موجود دیگر مذاہب کے لوگ بھی امتیازی سلوک کے بغیر انتخابات میں آزادانہ حصہ لے سکیں اور اقلیتوں کے لیے ایک قومی کمیشن تشکیل دیا جائے جس میں دیگر چھوٹے مذاہب کے لوگوں کی بھی نمائندگی موجود ہو، ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کو چاہیے کہ وہ سزائے موت کے قانون پر نظرثانی کرے اور اسے صرف حساس نوعیت کے جرائم کو محدود کرنے کے لیے استعمال کرے۔
چھاج تو چھاج، جنیوا کے اس اجلاس میں چھلنی جس میں خود سو چھید ہیں، نے بھی موقع سے خوب فائدہ اٹھایا اور بھارت کی نمائندگی کرنے والے سمت سیٹھ نے کہا کہ پاکستان، مقبوضہ کشمیر سے غیر قانونی قبضہ ختم کروانے کے لیے کشمیریوں کے حقِ خود ارادیت کی حمایت کرتا ہے، تاہم اسے دہشت گردوں کو محفوظ پناہ گاہیں ختم کرنے اور ان کی معاشی امداد بند کرنے کے لیے اقدامات کرنا ہوں گے۔ بھارتی نمائندے نے پاکستان میں اقلیتوں کی زبردستی شادیوں کو ختم کروانے پر بھی زور دیا۔ پاکستان نے الزام عائد کیا کہ بھارت یو پی آر کے پلیٹ فارم کو گمراہ کن باتوں کے ذریعے سبوتاژ کرنا چاہتا ہے۔ وزیر خارجہ خواجہ آصف کی قیادت میں پاکستانی وفد، جب کہ اسپین، سینیگال، کینیڈا، متحدہ عرب امارات، عراق، ایران کے علاوہ دیگر ممالک کے وفود نے بھی اجلاس میں شرکت کی۔ اگرچہ پاکستان یو پی آر کی سفارشات پر عمل درآمد کرنے کا پابند نہیں ہے تاہم اقوام متحدہ کے اجلاس میں شرکت کرنے کا مقصد دیگر ممالک کے ساتھ باہمی اتفاق کو فروغ دینا ہے۔
کاش خواجہ محمد آصف جنیوا کے اس اجلاس میں بھی اور کچھ نہیں تو کم از کم پاکستان کی قومی اسمبلی کے اجلاس میں اپنی شہرۂ آفاق ’’کچھ شرم ہوتی ہے، کچھ حیا ہوتی ہے‘‘ والی تقریر کا اعادہ ہی کردیتے اور امریکا، برطانیہ اور بھارت وغیرہ کے ان منہ زور مقررین کی بولتی بند کرنے کی کوشش کرتے۔ مگر جنیوا اجلاس کی جو رپورٹ اخبارات میں شائع ہوئی ہے اس میں پاکستانی وفد کی ایسی کسی سرگرمی کا ذکر نہیں۔ صرف اتنی بات سامنے لائی گئی ہے کہ اقوام متحدہ کے اس اجلاس میں شرکت کرنے کا مقصد دیگر ممالک کے ساتھ باہمی اتفاقِ رائے کو فروغ دینا ہے۔ معلوم نہیں ہمارے دفتر خارجہ کو یہ سبق کس نے پڑھا دیا ہے کہ ’’دیگر ممالک سے اتفاقِ رائے‘‘ کی خاطر دینی اقدار و شعائر کی تضحیک اور ملکی عزت و وقار پر حملے سب کچھ خاموشی سے برداشت کرلیے جائیں…؟
دکھ کی بات یہ بھی ہے کہ زیرنظر رپورٹ اخبارات میں شائع ہونے کے بعد بھی حکومتی سطح پر اس پر کسی ردعمل کا اظہار نہیں کیا گیا۔ گویا حکمرانوں اور دفتر خارجہ کے نزدیک یہ معاملہ کوئی اہمیت ہی نہیں رکھتا، حالانکہ مسلمانوں کے لیے ناموسِ رسالتؐ کا مسئلہ زندگی اور موت کی حیثیت رکھتا ہے اور ماضیٔ قریب و بعید کی تاریخ گواہ ہے کہ مسلمانوں نے شانِ رسالتؐ میں گستاخی کو کبھی برداشت نہیں کیا اور جانوں کی بازی لگا کر ناموسِ رسالت کا تحفظ کیا ہے، مگر ہمارے حکمران اور خود کو عوام کے نمائندہ قرار دینے والے سیاست دان نہ جانے اس معاملے میں مسلمان عوام کے جذبات کی ترجمانی سے کیوں ہمیشہ گریزاں رہتے ہیں!
ناموسِ رسالتؐ کے قانون کے خلاف مغرب کی چیخ و پکار کوئی نیا مسئلہ نہیں۔ معروف و ممتاز قانون دان اسماعیل قریشی اور اُن کے ساتھیوں نے طویل اور بھرپور عدالتی و قانونی جنگ لڑنے کے بعد جونہی توہینِ رسالت کی سزا موت کا قانون عدالتِ عظمیٰ اور قومی اسمبلی سے منظور کروایا، مغرب اور اس کے پاکستان میں موجود ایجنٹ مسلسل آئین کی دفعہ 295 سی کے خاتمے کے لیے کوشاں ہیں۔ اٹھارہ بیس سال پہلے کا واقعہ ہے، پاکستان میں غیر ملکی فنڈز سے چلنے والے انسانی حقوق کمیشن کے اُس وقت کے سربراہ آئی اے رحمن اپنے ساتھیوں کے ہمراہ لاہور پریس کلب میں پریس کانفرنس کے دوران توہینِ رسالت کے قانون 295 سی کے خاتمے پر زور دے رہے تھے۔ راقم الحروف نے ان سے استفسار کیا کہ برطانیہ میں حضرت عیسیٰؑ کی شان میں گستاخی کی سزا کیا ہے؟ تو کہنے لگے کہ ’’موت‘‘۔ گزارش کی کہ پھر پاکستان میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہی نہیں کسی بھی نبی کی شان میں گستاخی کی سزا موت مقرر کیے جانے پر آپ اور آپ کے مغربی سرپرستوں کو اعتراض کیوں ہے؟ جو کام وہاں جائز اور درست ہے یہاں ناجائز، غلط اور قابلِ تنسیخ کیوں قرار دیا جا رہا ہے؟ یہ دُہرا معیار کیوں ہے؟
تری زلف میں پہنچی تو حُسن کہلائی
وہ تیرگی جو میرے نامۂ سیاہ میں تھی
جناب آئی اے رحمن نے اپنے مطالبے پر اصرار کرتے ہوئے فرمایا کہ برطانیہ میں یہ قانون موجود تو ضرور ہے مگر کبھی اس پر عمل درآمد نہیں کیا گیا۔ نہایت ادب سے اُن سے گزارش کی کہ ذرا یہ فرما دیں کہ پاکستان میں قانونِ توہینِ رسالت کے تحت کتنے لوگوں کو سزائے موت دی گئی ہے؟ تو جواب تھا ’’کسی ایک کو بھی نہیں، مگر یہاں اس قانون کا غلط استعمال کرتے ہوئے اقلیتوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے‘‘۔ ہم نے ایک بار پھر اعداد و شمار پوچھے کہ اب تک اس قانون کے تحت کون سے مذہب کے ماننے والے کتنے لوگوںکے خلاف مقدمات درج کیے گئے ہیں؟ تو انسانی حقوق کمیشن کے اپنے تیار کردہ اعداد و شمار جو آئی اے رحمن صاحب نے بتائے، ان کے مطابق حقیقتِ حال یہ تھی کہ 295 سی کے توہینِ رسالت کے قانون کے سب سے زیادہ مقدمات خود مسلمان کہلانے والوں کے خلاف درج ہوئے تھے، جب کہ عیسائیوں اور قادیانیوں کی تعداد مسلمانوں کے مقابلے میں کہیں کم تھی۔
آج اٹھارہ بیس برس گزرنے کے بعد بھی یہ حقیقت تبدیل نہیں ہوئی کہ پاکستان میں توہینِ رسالتؐ کے کسی بھی مسلمان یا غیر مسلم مجرم کو سزائے موت نہیں دی گئی… بلکہ تلخ حقیقت یہ ہے کہ توہین رسالتؐ کی مرتکب ملعونہ آسیہ کو عدالت سے سزا ملنے کے بعد شیخوپورہ جیل میں جاکر اُس سے ملاقات کرنے اور قانونِ توہینِ رسالت کے خلاف ہرزہ سرائی کرنے والے اُس وقت کے گورنر سلمان تاثیر کو جذبۂ حُبِّ رسولؐ کے تحت قتل کرنے والے ممتاز قادری کو عوام کے شدید احتجاج کے باوجود تختۂ دار پر لٹکا دیا گیا مگر ملعونہ آسیہ کو عدالت سے مجرم ٹھیرائے جانے اور سزائے موت سنائے جانے کے باوجود آج تک سزا پر عمل درآمد نہیں کیا جارہا… محض اس لیے کہ مغربی آقائوں کے اس سے ناراض ہونے کا خوف حکمرانوں پر مسلط ہے۔ ہمارے حکمران اللہ تعالیٰ، اس کے رسولؐ اور پوری قوم کی تو ناراضی برداشت کرسکتے ہیں مگر اپنے مغربی آقائوں کی نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ امیر جماعت اسلامی سینیٹر سراج الحق اور ایک دو دیگر دینی رہنمائوں کے سوا کسی حکمران ہی نہیں حزبِ اختلاف میں موجود اقتدار کے منتظر سیاست دانوں کی جانب سے بھی جنیوا کے اس اجلاس کی کارروائی اور پاکستان کو دبائو میں لانے کے لیے سراسر ناجائز، بلاجواز اور یک طرفہ مطالبے پر کسی قسم کے ردعمل کا اظہار نہیں کیا گیا، حالانکہ یہ سب پکے مسلمان ہی نہیں عاشقِ رسولؐ ہونے کے بھی دعویدار ہیں، اور جب ان کے کردار پر حرف گیری کی جائے تو نہایت ڈھٹائی بلکہ بے حیائی سے یہ کہنے میں شرم محسوس نہیں کرتے کہ ’’ہمیں کسی سے اپنے مسلمان ہونے کا سرٹیفکیٹ لینے کی ضرورت نہیں‘‘… حالانکہ غالب نے بہت عرصہ پہلے کہہ دیا تھا…
کعبہ کس منہ سے جائو گے غالبؔ
شرم تم کو مگر نہیں آتی
ڈھٹائی اور بے حیائی کا یہ معاملہ صرف پاکستانی حکمرانوں اور سیاست دانوں تک ہی محدود نہیں، بلکہ ان کے سرپرست اور آقا مغربی دانشوروں اور حکمرانوں کی حالت اصول پسندی کے تمام تر دعووں کے باوجود ان سے بھی گئی گزری ہے۔ پاکستان پر گلا پھاڑ پھاڑ کر انسانی حقوق کی خلاف ورزی کا الزام لگانے والے امریکا بہادر کو گوانتاناموبے اور اسی طرح کے دیگر اذیت کدوں میں قید مسلمانوں سے ظالمانہ غیر انسانی سلوک کرتے ہوئے کبھی انسانی حقوق یاد نہیں آتے… اسے فلسطین میں معصوم بچوں، عورتوں، بزرگوں اور نہتے مسلمانوں پر اسرائیلی فوج کے مظالم کے خلاف آواز اٹھانے کی ضرورت محسوس ہوتی ہے نہ اسے بھارتی مسلمانوں پر انتہا پسند ہندوئوں کا ظلم و جبر نظر آتا ہے، نہ حقِ خودارادیت کے لیے آئینی و قانونی جدوجہد کرنے والے کشمیری باشندوں پر بھارتی فوج کے مظالم دکھائی دیتے ہیں، نہ ہی برما کے بے بس مسلمانوں کی نسل کُشی پر انسانی حقوق یاد آتے ہیں… کیا محض اس لیے کہ یہاں ظلم کے شکار ’’مسلمان‘‘ ہیں، اور مسلمان نہ تو شاید انسان ہوتے ہیں اور نہ اُن کے کوئی حقوق …!!!
آخر میں خود امریکا بہادر کے اپنے ادارے فیڈرل بیورو آف انویسٹی گیشن (ایف۔ بی۔ آئی) کے تیار کردہ اعدادو شمار کا حوالہ دینا شاید نامناسب نہ ہوگا جن کے مطابق لگاتار دوسرے سال بھی امریکا میں نفرت کی بنا پر جرائم میں اضافہ دیکھا گیا۔ فیڈرل بیورو آف انویسٹی گیشن نے بتایا کہ امتیاز پر مبنی واقعات میں سب سے زیادہ اضافہ مسلمانوں، ہسپانویوں اور ہم جنس پرستوں کے خلاف دیکھا گیا۔ نفرت انگیزی کی بنا پر واقعات کے بارے میں ایف بی آئی کے سالانہ اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ 2016ء میں نفرت کے زمرے میں آنے والے 6121 واقعات ہوئے جو گزشتہ سال کے 5850 واقعات کے مقابلے میں 4.6 فی صد زیادہ ہیں۔ یہ اضافہ 2000ء کے بعد پہلی بار دیکھنے میں آیا، جب امریکا میں دوسرے سال بھی نفرت کی بنا پر جرائم میں اضافہ دیکھا گیا تھا۔ 2015ء میں ایسے جرائم میں 7 فی صد اضافہ ہوا۔ امریکی اٹارنی جنرل چیف اسیٹفنز نے کہا کہ محکمہ انصاف نفرت انگیزی کی نوع کے جرائم سے نبرد آزما ہونے اور اس کے متعلق اطلاعات دینے کے معیار میں بہتری لانے کے سلسلے میں پُرعزم ہے۔اس دعوے کے باوجود امریکی ایف بی آئی نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ امریکا میں نفرت انگیز جرائم کی تعداد بڑھ گئی ہے۔ گزشتہ برس مسلمانوں کے خلاف نفرت پر مبنی 377 واقعات ہوئے۔
کاش مسلمانوں اور پاکستان پر انسانی حقوق کی پامالی کا الزام لگانے اور ناموسِ رسالتؐ اور سزائے موت کے قانون ختم کرنے کا مطالبہ کرنے والے انسانی حقوق کے یہ علَم بردار یہ گفتگو کرنے سے قبل اپنے گریبان میں بھی جھانک لیتے اور دیکھ لیتے کہ خود ان کے اپنے ممالک میں انسانی حقوق کی صورت حال کیا ہے… اسے ہی کہتے ہیں دیگراں رانصیحت خود میاں فضیحت…!!!