نجیب ایوبی
قسط نمبر111
دسواں حصہ
قادیانیوں کے مفادات کا تحفظ کرتے ہوئے اور ان کے ترجمان ’’الفضل‘‘ کی جانب سے شائع ہونے والی ’’خونیں دھمکی‘‘ کی تائید کرتے ہوئے مارشل لائی حکومت نے قادیانیوں کی حقیقت آشکارا کرنے والے ’’قادیانی مسئلہ‘‘ نامی کتابچے کی اشاعت کی پاداش میں راتوں رات عزم و حوصلے اور استقامت کی چٹان مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی کو پھانسی کی سزا کا حکم سناکر اپنے لیے بہت بڑی مشکل کھڑی کرلی تھی جس کا ان کو اندازہ ہی نہیں تھا۔ پاکستان سمیت عالمِ اسلام میں جو ردعمل دیکھنے میں آیا اُس کو مسترد کرنا حکومت کے لیے تقریباً ناممکن ہوتا جارہا تھا۔
مولانا کے دستِ راست نائب امیر جماعت اسلامی میاں طفیل محمد مرحوم کا بیان ہے کہ ’’شہر لاہور میں، مارچ1953ء میں، جب ہم لوگوں کو گرفتار کرکے لاہور سینٹرل جیل میں لے جایا گیا تو مولانا مودودی، مولانا امین احسن اصلاحی اور دیگر رفقاء کے ساتھ مجھے لاہور سینٹرل جیل کے دیوانی گھر وارڈ میں، اور لاہور سے گرفتار شدہ دوسرے حضرات کو دوسرے وارڈوں میں رکھا گیا۔ لاہور سینٹرل جیل میں ہی قائم کردہ مارشل لا کورٹ میں مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی، سید نقی علی اور ملک نصر اللہ خان عزیز پر مقدمہ چلایا گیا۔ 11مئی1953ء کو ہم لوگ دیوانی گھر وارڈ کے صحن میں مولانا مودودی کی اقتدا میں مغرب کی نماز پڑھ رہے تھے کہ دیوانی گھر وارڈ کا باہر کا دروازہ کھٹ سے کھلا اور 14۔15 فوجی اور جیل افسر اور وارڈر احاطے میں داخل ہوئے اور جہاں ہم نماز پڑھ رہے تھے وہاں قریب آکر کھڑے ہوگئے۔ ہم نے سلام پھیرنے کے بعد عرض کیا ’’فرمایئے، کیا حکم ہے؟‘‘ ایک فوجی افسر نے کہا ’’آپ لوگ نماز سے فارغ ہولیں‘‘۔ چنانچہ ہم نے باقی نماز مکمل کرلی تو ان میں سے بڑے فوجی افسر نے جو مارشل لا کورٹ کا صدر تھا، پوچھا ’’مولانا مودودی کون ہیں؟‘‘ حالانکہ وہ جانتا تھا کہ مولانا مودودی کون ہیں، اس لیے کہ وہ تو عدالت میں کئی دن اس کے سامنے پیش ہوتے رہے تھے۔ بہرحال مولانا نے عرض کیا ’’میں ابوالاعلیٰ مودودی ہوں‘‘، تواس نے کہا ’’آپ کو ’’قادیانی مسئلہ‘‘ تصنیف کرنے پر موت کی سزا دی جاتی ہے۔ اس کے خلاف کوئی اپیل نہیں ہوسکتی۔ آپ گورنر جنرل سے رحم کی اپیل کرسکتے ہیں‘‘۔ مولانا نے بلاتوقف فرمایا ’’مجھے کسی سے کوئی رحم کی اپیل نہیں کرنی ہے۔ زندگی اور موت کے فیصلے زمین پر نہیں آسمان پر ہوتے ہیں۔ اگر وہاں پر میری موت کا فیصلہ ہوچکا ہے تو دنیا کی کوئی طاقت مجھے موت سے نہیں بچا سکتی، اور اگر وہاں سے میری موت کا فیصلہ نہیں ہوا ہے تو دنیا کی کوئی طاقت میرا بال بھی بیکا نہیں کرسکتی‘‘۔ اس کے بعد اسی افسر نے کہا ’’آپ نے مارشل لا کے بارے میں روزنامہ تسنیم میں جو بیان دیا ہے اُس پر آپ کو سات سال قیدِ بامشقت کی سزا دی جاتی ہے‘‘۔ اس کے بعد اسی افسر نے پوچھا: ’’نقی علی کون ہے؟‘‘ سید نقی علی کو بھی وہ خوب جانتا تھا کہ وہ بھی اس کی عدالت میں پیش ہوتے رہے تھے۔ بہرحال سید نقی علی نے عرض کیا ’’میں ہوں نقی علی‘‘۔ اس افسر نے کہا ’’ تمھیں قادیانی مسئلہ چھاپنے کے جرم میں نو سال قید بامشقت کی سزادی جاتی ہے‘‘۔ سید نقی علی نے بھی جواب دیا ’’آپ کا شکریہ‘‘۔ اس کے بعد اس افسر نے پوچھا ’’نصراللہ خان عزیز کون ہے؟‘‘ ملک نصر اللہ خان نے جواب دیا ’’میں ہوں نصر اللہ خان عزیز‘‘۔ افسر نے کہا ’’آپ کو روزنامہ تسنیم میں مولانا مودودی کا بیان شائع کرنے کے جرم میں تین سال قید بامشقت کی سزا دی جاتی ہے‘‘۔ انھوں نے جواب دیا ’’آپ کا شکریہ‘‘۔ یہ حکم سنانے کے بعد یہ لوگ واپس چلے گئے اور وارڈ کا باہر کا دروازہ بند کردیا گیا۔
واقعہ یہ ہے کہ احکام سننے کے بعد ہم لوگوں پر بظاہر کوئی اثر ہی نہ ہوا۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جیسے تیز بلیڈ یا تیزدھار چھری سے ہاتھ کٹ جانے سے فوراً درد محسوس نہیں ہوتا، اسی طرح مولانا مودودی کی سزائے موت کا یہ حکم سننے کے بعد ہمیں کچھ محسوس ہی نہیں ہوا۔ کوئی آدھے گھنٹے بعد ہیڈ وارڈن اور ان کے ساتھ کچھ دوسرے وارڈر آئے اور انھوں نے کہا ’’مولانا مودودی تیار ہوجائیں، وہ پھانسی گھر جائیں گے‘‘۔ اس پر مولانا مودودی نے اطمینان سے اپنا کھلا پاجامہ تنگ پاجامے سے بدلا، جو وہ گھر سے باہر جاتے وقت پہنا کرتے تھے۔ سر پر اپنی سیاہ قراقلی ٹوپی پہنی اور چپل اتارکر سیاہ گرگابی جوتا پہنا اور اپنا قرآن مجید لے کر اور ہم سب سے گلے مل کر نہایت اطمینان سے پھانسی گھر روانہ ہوگئے۔ اس کے کوئی نصف گھنٹے بعد پھر وارڈر آئے اور کہا ’’ملک نصر اللہ خان عزیز اور سید نقی علی صاحب بھی چلیں۔ وہ سزا یافتہ قیدیوں کے بارک میں جائیں گے‘‘۔ چنانچہ وہ دونوں بھی مولانا امین احسن اصلاحی، چودھری محمد اکبر اور مجھ سے گلے مل کر وارڈروں کے ساتھ چلے گئے۔ اس کے تھوڑی دیر بعد وارڈر مولانا مودودی کا جوتا، پاجامہ، قمیص اور ٹوپی لاکر ہمیں دے گئے کہ مولانا کو پھانسی گھر کے کپڑے پہنا دیے گئے ہیں، ان چیزوں کی اب ضرورت نہیں ہے۔ اس پر پہلی مرتبہ ہم لوگوں کو اندازہ ہوا کہ ہو کیا گیا ہے! اب مولانا امین احسن اصلاحی مولانا مودودی کی قمیص، پاجامہ اور ٹوپی کبھی سینے سے لگاتے، کبھی اپنے سر پر رکھتے، کبھی آنکھوں پر لگاتے اور بے تحاشا روتے ہوئے کہتے جاتے کہ ’’مجھے یہ تو معلوم تھا کہ مولانا مودودی بہت بڑے آدمی ہیں، لیکن یہ معلوم نہیں تھا کہ خدا کے ہاں مودودی صاحب کا اتنا بڑا مرتبہ اور مقام ہے‘‘۔ چودھری محمد اکبر بھی روتے ہوئے کمرے سے باہر نکل کر صحن میں چلے گئے اور میں بھی روتا ہوا صحن میں ایک طرف نکل گیا اور ساری رات اسی طرح سے گزرگئی۔ میرے دل میں کبھی تو یہ خیال آتا کہ اللہ تعالیٰ کبھی ان ظالموں کو مولانا کو پھانسی پر لٹکانے کا موقع نہیں دے گا۔ لیکن اگلے ہی لمحے خیال آتا کہ جس خدا کے سامنے اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے نواسے امام حسینؓ کو ظالموں نے تپتی ریت پر لٹا کرذبح کردیا، اس کے ہاں بھلا مودودی کی کیا حیثیت ہے! اگلی صبح ایک وارڈر نے آکر بتایا: ’’مولانا مودودی تو عجیب آدمی ہیں۔ ان کو یہ اندازہ ہی نہیں کہ ان کے ساتھ کیا ہونے والا ہے۔ وہ پھانسی گھر گئے، وہاں کا لباس پہنا، جنگلے سے باہر پانی کے گھڑے سے وضو کیا اور عشاء کی نماز پڑھی اور ٹاٹ پر لیٹ کر تھوڑی دیر بعد خراٹے مارنے لگے۔ حالانکہ ان کے آس پاس پھانسی گھرکے دوسرے قیدی چیخ و پکار میں مصروف تھے‘‘۔
میاں طفیل محمد مرحوم کے مطابق (مولانا مودودی کی پہلی مرتبہ گرفتاری کے موقع پر) مولانا پان کھاتے تھے۔ میں اس پر معترض ہوتا تو کہتے’’یہ اسلام کے منافی تو نہیں ہے، میں اسے تمھارے لیے تو نہیں چھوڑوں گا، خدا کے لیے جب ضرورت ہوگی تو چھوڑدوں گا‘‘۔ چنانچہ اکتوبر 1948ء میں جب ہمیں گرفتار کیا گیا تو جیل کے پھاٹک کے باہر انھوں نے پان تھوکا، پھر 20 ماہ جیل میں کبھی نہیں چکھا، اور جب سینٹرل جیل ملتان سے ہم رہا ہوئے تو دفتر جماعت اسلامی ملتان میں آتے ہی پان منگوا کر کھانا شروع کردیا۔‘‘
گھر کی گواہی بھی سن لیجیے۔ سیدہ حمیرا مودودی (صاحبزادی مولانا مودودی) کے مطابق 28 مارچ 1953ء کو ابا جان کو دوبارہ مارشل لا کے تحت گرفتار کیا گیا۔ پھر وہی تھوڑے سے پیسے تھے اور چھوٹے چھوٹے آٹھ بچوں کے ساتھ دمے کی مریضہ، انتہائی کمزور صحت والی اماں جان تھیں، جنھوں نے بڑے حوصلے کے ساتھ ان حالات کا مقابلہ کیا۔ کبھی چوڑی اور کبھی انگوٹھی بیچنے کا سلسلہ جاری رہا۔ (یہ کام خورشید خالہ انجام دیتی تھیں)۔
ابا جان (مولانا مودودی) کی پہلی گرفتاری کا احوال اس طرح بیان کرتی ہیں ’’رات کا وقت ہے اور اماں جان، ہم چھوٹے بچوں کو اپنے ساتھ لگائے کھڑی ہیں۔ دو لیڈی کانسٹیبل آگے بڑھتی ہیں۔ وہ اماں جان سے خوب سوالات کررہی ہیں، اور پورے گھر کی تلاشی بھی لے رہی ہیں۔ ابا جان کے کپڑے ایک سوٹ کیس میں رکھے ہیں اور وہ تیار ہوکر کہیں جانے کے لیے کھڑے ہیں۔ پھر یکدم پیچھے مڑ کر ہماری طرف دیکھے بغیر قدرے بلند آواز میں ’السلام علیکم، خدا حافظ، فی امان اللہ‘ کہتے ہیں اور پولیس والوں کے ساتھ روانہ ہوجاتے ہیں۔ اُس وقت میری عمر آٹھ سال تھی۔
جانے کے بعد میں نے اماں جان سے سوال کیا کہ ابا جان نے ہمیں پیچھے مڑ کر دیکھا کیوں نہیں تھا؟ اماں جان نے جواب دیا کہ ’حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بھی تو مکہ سے جاتے وقت حضرت حاجرہ اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کی جانب پلٹ کر نہیں دیکھا تھا۔ پیچھے مڑ کر دیکھنے سے ارادے اور عزم میں کمی آجاتی ہے‘‘۔
جس دن اخبارات میں خبر چھپی کہ مولانا مودودی کو پھانسی کی سزا سنا دی گئی ہے، اُس دن کی صبح گھر کا احوال کچھ اس طرح بیان کیا ’’11مئی 1953ء کی صبح تھی، جب اماں جان ناشتا بنا رہی تھیں، اور ہم سب بچے اسکول جانے کے لیے تیار ہوکر ناشتے کے انتظار میں بیٹھے تھے۔ اسی دوران یکدم ہمارے بڑے بھائی عمر فاروق صاحب ہاتھ میں اخبار لیے بڑے گھبرائے ہوئے اندر آئے اور اماں جان کو ایک طرف لے جاکر اخبار دکھایا۔ اس اخبار میں نہ جانے ایسا کیا تھا کہ جسے دیکھ کر اماں جان کا چہرہ زرد پڑ گیا۔ تاہم دوسرے ہی لمحے انہوں نے اخبار چھپا دیا اور ایک لفظ کہے بغیر ہمارے لیے اسی دلجمعی اور اسی رفتار سے پراٹھے بنانے شروع کردئیے اور اندر جاکر عمر بھائی کو بھی اسکول جانے کی ہدایت کی۔ اندر سے عمر بھائی کی آواز آئی ’’نہیں اماں مجھ سے اسکول نہیں جایا جائے گا‘‘۔ دوسرے بھائی احمد فاروق گھر سے کچھ دور ہی گئے تھے کہ ایک ہاکر زور سے اعلان کررہا تھا ’’مولانا مودودی کو پھانسی کی سزا سنادی گئی‘‘۔ وہ تو اپنا اخبار بیچنے کے لیے آواز لگا رہا تھا مگر اُس کو کیا معلوم تھا کہ جو بچہ یونیفارم پہنے اسکول جارہا ہے یہ اسی کے باپ کو پھانسی دینے کا اعلان ہے۔ میں اور اسماء اسکول جانے کے لیے گھر سے نکلے ہی تھے کہ ہاکروں کی صدائیں کان میں پڑیں ’’مولانا مودودی کو پھانسی کی سزا سنا دی گئی‘‘۔ اُس وقت ہمیں معلوم ہوا کہ عمر بھائی اخبار ہاتھ میں لیے گھبرائے ہوئے گھر میں کیوں داخل ہوئے تھے، اور اماں جان کا چہرہ کیوں زرد پڑ گیا تھا۔
ہم دونوں بہنیں گھر واپس نہیں آئیں بلکہ اسکول چلی گئیں۔ ہماری ہیڈ مسٹریس صاحبہ ایک مسیحی خاتون تھیں، انہوں نے ہمیں جب اسمبلی میں دیکھا تو تقریر کرتے ہوئے طالبات سے اچانک یہ کہا ’’دیکھو رہنما ایسے ہوتے ہیں کہ باپ کو پھانسی کی سزا سنائی گئی ہے اور بیٹیاں صاف ستھرے یونی فارم پہنے اسمبلی میں بالکل پُرسکون کھڑی ہیں۔ شاباش اس ماں کو ہے جس نے ایسے دن اور ایسے موقع پر بھی اپنی بچیوں کو صاف ستھرے کپڑے پہنا کر، بال بنا کر، کھلا پلا کر اسکول روانہ کیا ہے۔ یہ لڑکیوں کا کمال نہیں ہے، یہ تو ان کی ماں کی عظمت ہے کہ انہوں نے آج بھی اپنی بچیوں کی تعلیم کو ضروری جانا۔ کوئی اور جاہل عورت ہوتی تو رو رو کر اور بین کر کرکے سارا محلہ سر پر اٹھایا ہوا ہوتا‘‘۔
(حوالہ کتاب: شجر ہائے سایہ دار۔ سیدہ حمیرا مودودی)
(جاری ہے )