سلیم منصور خالد
سرزمین بنگال کی قسمت میں قربانی، سازش اور ظلم ساتھ ساتھ چلتے نظر آتے ہیں۔ قیامِ پاکستان سے قبل انگریزوں اور ہندوئوں کے ظلم سہتے ہوئے بنگالی مسلمانوں نے گراں قدرقربانیاںپیش کیں اور غیرت و حمیت پر آنچ نہ آنے دی۔ لیکن قیامِ پاکستان کے بعد انھی ہندوئوں کے ہاتھوں میں کھیلنے کے لیے مشرقی پاکستان کی بڑی سیاسی قوت نے خودسپردگی کا ایک ایسا رویہ اختیار کیا، جس نے انھیں تاحال سکون اور قومی خوداختیاری کی دولت سے محروم رکھا ہے۔ حالیہ دنوں میں بنگلہ دیش کی کٹھ پتلی عوامی لیگی حکومت نے کچھ ایسے اقدامات کیے ہیں، جن پر یہ معروضات پیش ہیں:
اگرچہ جماعت اسلامی اور اسلامی چھاترو شبر کو عوامی لیگی حکومت مسلسل نشانۂ ستم بنائے ہوئے ہے، لیکن ستمبر کے آخری ہفتے میں جماعت اسلامی پر عتاب کا نیا وار کرتے ہوئے جماعت کے کارکنوں کی اچانک پکڑ دھکڑ کا سلسلہ شروع کر دیا گیا۔ 27 ستمبر کو ضلع پبنہ کی سانتھیا تحصیل کے امیرمستفیض الرحمٰن فیروز اور جماعت اسلامی کی حلقہ خواتین کی فعال کارکنان کو بلاجواز گرفتار کرلیا۔ اسی طرح ضلع سرسنگدی کی تحصیل پولاش کے امیر مولانا امجد حسین کو بھی زیرحراست لے لیا گیا۔
9 اکتوبر کو نمازِ عشاء سے تھوڑی دیر پہلے، حکومت نے جماعت اسلامی کے امیر مقبول احمد، نائب امیر و سابق رکن پارلیمنٹ میاں غلام پروار اور سیکرٹری جنرل ڈاکٹر شفیق الرحمٰن، محمد شاہ جہاں (امیرچٹاگانگ)، نذرالاسلام، سیف الاسلام، جعفرصادق اور نذرالاسلام ثانی کو گرفتار کرلیا۔ جماعت اسلامی نے تمام حکومتی مظالم، دھاندلیوں اور خوف ناک زیادتیوں کے باوجود جمہوری، پُرامن اور ایک اصولی پارٹی کے طور پر اپنی سرگرمیوں کو جاری رکھا ہے۔ ان قائدین کو گرفتار کرتے وقت الزام یہ لگایا گیا کہ ’’ڈھاکا کے ایک گھر میں دہشت گردی کا منصوبہ بنایا جارہا تھا‘‘، جب کہ جماعت کے ترجمان نے اس شرم ناک الزام کی تردید اور مذمت کرتے ہوئے کہا کہ: ’’وہ ایک گھر کے احاطے میں سماجی تقریب میں شریک تھے، خفیہ یا تخریب کاری جیسے گھنائونے الزام کی کوئی حقیقت نہیں۔ ہم ایک جمہوری پارٹی ہیں اور جمہوری طریقوں سے اپنی جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہیں۔ باوجود اس کے کہ جماعت اسلامی کی مرکزی قیادت کو جھوٹے الزامات اور غیرمنصفانہ اور یک طرفہ مقدمات میں مطیع الرحمٰن نظامی سمیت جماعت اسلامی کے پانچ مرکزی رہنمائوں (سیکرٹری جنرل علی احسن محمد مجاہد، ڈپٹی سیکرٹری جنرل قمرالزمان خان، اسسٹنٹ سیکرٹری عبدالقادر مُلّا، مرکزی مجلس شوریٰ کے رکن میرقاسم علی) کو پھانسی پر لٹکادیا گیا، مگر جماعت نے کوئی غیرقانونی ردعمل ظاہر نہیں کیا۔ اور جو پُرامن احتجاج کیے، ان میں بھی جماعت کے بہت سے کارکنوں کو حکومت کے ایما پر گولیاں مار کر شہید کر دیا گیا۔ پھر شہید مطیع الرحمٰن نظامی کی پھانسی کے بعد منتخب امیرجماعت اسلامی بنگلہ دیش مقبول احمد صاحب نے بوجوہ بڑے جلسوں میں شرکت سے گذشتہ پورے سال کے دوران میں اجتناب برتا ہے، مگر اس کے باوجود انھی پر شرم ناک الزام لگانا، حکومتی حلقوں کا ذہنی دیوالیہ پن ہے‘‘۔ یاد رہے 2013ء سے جماعت اسلامی پر انتخابات میں حصہ لینے پر پابندی عائد کر دی گئی ہے کہ: ’’جب تک وہ اپنے دستور اور منشور کو سیکولر نہیں بناتی وہ انتخابات میں حصہ نہیں لے سکتی‘‘۔
جناب مقبول احمد کی گرفتاری کے بعد جماعت اسلامی نے سابق ممبر پارلیمنٹ پروفیسر مجیب الرحمٰن کو قائم مقام امیر اور جناب اے ٹی ایم معصوم کو قائم مقام سیکرٹری جنرل مقرر کیا ہے۔
9 اکتوبر ہی کو بنگلہ دیش سپریم کورٹ میں جماعت اسلامی کے تین لیڈروں کی نظرثانی کی اپیلوں پر کارروائی 12 نومبر تک ملتوی کی گئی۔ یاد رہے کہ ان میں اے ٹی ایم اظہرالاسلام، سیّدمحمد قیصر اور عبدالسبحان کو بنگلہ دیش کی خصوصی [جعلی] عدالتیں سزاے موت کی سزا سنا چکی ہیں۔ (روزنامہ ڈیلی اسٹار، 10 اکتوبر 2017ء)
قائم مقام امیرجماعت اسلامی کی اپیل پر 12 اکتوبر کو پورے ملک میں پُرامن ہڑتال کی گئی۔ ابتدا میں تو نہیں، البتہ ہڑتال کے دوران بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی کی اعلیٰ قیادت نے جماعت اسلامی کی ہڑتال کی حمایت کا اعلان کر دیا (NTV ڈھاکا، 12 اکتوبر)۔ اسی دوران میں جماعت کے بہت سے احتجاجی کارکنوں کو گرفتار کرکے تھانوں میں بند کردیا گیا۔ نیڑو تحصیل کے امیر ماسٹر نذرالاسلام، سراج گنج کے امیر پروفیسر شاہدالاسلام اور رنگ پور سے تین مقامی لیڈروں کو پولیس نے اُٹھا لیا۔ 15 اکتوبر کو ست خیرا میں جماعت کے امیر پروفیسر عبدالغفار کو گرفتار کرلیا۔ اسی طرح کومیلا کے امیر قاضی دین محمد سمیت گیارہ ارکان، چاند پورسے امیرجماعت محمد حسین اور یہیں سے حلقہ خواتین کی ناظمہ فردوسی سلطانہ اور سیکرٹری فرزانہ اختر کو قید کر دیا گیا۔ یاد رہے ریمانڈ کا پروانہ لے کر کارکنوں کو پولیس ٹارچر سیلز میں لے جاتی اور انسانیت سوز مظالم ڈھاتی ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ اس ظلم پر میڈیا خاموش، عدالت تماشائی اور قوم بے بس نظر آتی ہے۔
جماعت اسلامی کے 80 سالہ امیر جماعت مقبول احمد کی جیل میں صحت بُری طرح خراب ہے۔ وہ ذیابیطس ، بلڈ پریشر اور امراضِ دل میں مبتلا ہیں۔ ریڑھ کی ہڈی میں شدید درد کے باعث ان کے لیے سیدھے کھڑے ہونے اور بیٹھنے میں سخت مشکل پیش آتی ہے، اس لیے روزانہ فزیوتھراپی کی ضرورت ہوتی ہے۔ ادویات میں بے قاعدگی، پرہیزی خوراک کے خاتمے اور جسمانی مشق کی کمی کے باعث ان کی صحت بگڑ گئی ہے، مگر حکومت آج 25 اکتوبر تک انھیں ہسپتال بھیجنے کے لیے تیار نہیں۔
حسینہ واجد کی کٹھ پتلی حکومت نے اخلاق اور جمہوری روایات کی دھجیاں بکھیرتے ہوئے 18 اکتوبر کو ڈھاکا سے اسلامی جمعیت طالبات بنگلہ دیش (اسلامی چھاترو شنگھستا) کی 21 کارکنان اور عہدے داران کو درسِ قرآن کی ہفتہ وار کلاس سے گرفتار کرلیا۔ یہ طالبات اعلیٰ درجوں میں میڈیکل، سماجیات اور انجینیرنگ کے شعبہ جات سے وابستہ ہیں۔ اس ’روشن خیال اور لبرل‘ حکومت کے مطالبے پر ڈھاکا ہائی کورٹ نے طالبات کی درخواست ضمانت مسترد کرتے ہوئے انھیں پولیس کے ریمانڈ میں دے دیا، اور دو روز کے ریمانڈ کے بعد جیل بھیج دیا۔
راج شاہی یونی ورسٹی سے اسلامی چھاترو شبر کے آٹھ کارکنان کو گرفتار کرکے تشدد کا نشانہ بنایا اور دہشت گردی کا الزام لگایا۔ اسلامی چھاتروشبر کے مرکزی صدر یاسین عرفات نے اس پر کہا ہے کہ: ’’ایک غیرقانونی حکومت، اندھی قوت کے نشے میں بدمست ہوکر گھٹیا الزام لگاتے ہوئے اخلاق، قانون اور قومی اداروں کو تباہ کررہی ہے۔ یہ گرفتاریاں، تشدد اور پھانسیاں تحریکِ اسلامی کا راستہ نہیں روک سکتیں‘‘۔
حسینہ واجد حکومت نے پہلے بنگلہ دیش کی اعلیٰ عدلیہ کو اپنی باج گزار بناکر اس سے خاص طور پر ’انٹرنیشنل کرائمز ٹریبونل‘ کی کارروائی کی تائید اور انصاف کے قتل کے لیے زرخرید غلاموں کی طرح کام لیا۔ یوں بنگلہ دیش سپریم کورٹ نے آنکھیں بند کرکے، نام نہاد خصوصی ٹریبونلی فیصلوں پر ایک ایک کر کے عمل کرایا اور جماعت اسلامی کے پانچ رہنمائوں اور صلاح الدین قادر چودھری کو پھانسی پر لٹکا دیا، جب کہ قائد تحریک اسلامی پروفیسر غلام اعظم اور ان کے دو رفقا کو جیل کے اندر ہی موت کی وادی میں اُتار دیا۔ حالیہ عرصے میں اسی بنگلہ دیشی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس سریندر کمار سنہا نے سات ججوں سمیت بنگلہ دیشی پارلیمنٹ کی 16 ویں ترمیم کو اس کی اصل شکل میں نامنظور کرتے ہوئے، 3 جولائی 2017ء کو 799 صفحات پر مشتمل فیصلہ لکھا اور3 اگست 2017ء کو 39 نکاتی فارمولا تجویز کرتے ہوئے متفقہ فیصلے کا اعلان کیا۔
عوامی لیگی حکومت کی طرف سے دراصل یہ ترمیم اس مقصد کے لیے کی گئی تھی کہ: ’’آیندہ پارلیمنٹ کے ارکان، اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کا مواخذہ (impeachment) کرسکیں گے‘‘۔ فیصلے کے متن میں چیف جسٹس نے ایک جگہ 1971ء کے ہنگامی حالات میں شیخ مجیب کو خراجِ تحسین پیش کرنے کے ساتھ یہ جملہ بھی لکھا کہ ’’وہ جدوجہد فردِ واحد کا ثمر نہیں تھی بلکہ اس میں پوری قوم نے حصہ لیا تھا‘‘۔ اس جملے کو عوامی لیگ نے مجیب کی توہین قرار دے کر چیف جسٹس کے خلاف مخالفانہ بلکہ توہین آمیز مہم چلانے اور دبائو بڑھانے کا آغاز کیا، تاکہ وہ استعفا دیں۔
یہ مسئلہ اُس وقت اپنی انتہا کو پہنچ گیا، جب جسٹس سنہا نے چند روز قبل ایک عدالتی کارروائی کے دوران یہ کہہ دیا کہ: ’’ہمیں جذبات پر قابو رکھنا چاہیے اور یہ دیکھنا چاہیے کہ پاکستان کی سپریم کورٹ نے تو وزیراعظم نواز شریف کو برطرف کر دیا ہے، لیکن کیا وہاں پر سپریم کورٹ کو اس طرح تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے؟‘‘ اس جملے کا میڈیا پہ آنا تھا کہ حسینہ واجد نے اسی روز شدید غصے اور برہمی میں چیف جسٹس سنہا کا نام لیے بغیر کہا: ’’اسے اب سپریم کورٹ چھوڑنا ہی پڑے گا، اس لیے کہ اس نے پاکستان کے ساتھ بنگلہ دیش کا موازنہ کیا ہے۔ کسی معاملے میں پاکستان کی مثال پیش کرنا ہمارے لیے توہین آمیز اور ناقابلِ برداشت فعل ہے‘‘۔ مزید کہا: ’’عوام کی عدالت زیادہ بڑی عدالت ہے۔ کوئی فرد عوام کی عدالت کو نظرانداز نہیں کرسکتا، میں عوام ہی کی عدالت سے انصاف کی طالب ہوں‘‘۔ حسینہ واجد کے مذکورہ بیان کے چند گھنٹوں بعد 1929ء کی عوامی لیگی اسٹوڈنٹ لیڈر موتیا چودھری، جو آج کل وزیرزراعت ہیں، نے بیان داغا: ’’چیف جسٹس کو ملک چھوڑ دینا چاہیے یا پھر دماغی امراض کے ہسپتال سے علاج کرانا چاہیے‘‘۔ اُدھر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن نے چیف جسٹس سے یک جہتی کا اظہار کرتے ہوئے اس بات کی مذمت کی کہ: ’’عوامی لیگی حکومت نے عملاً چیف جسٹس کو قیدی بنا رکھا ہے‘‘۔ (India TV News Desk، 12 اکتوبر 2017ء)
ڈھائی ماہ پر پھیلی اس دھماچوکڑی کے بعد 13 اکتوبر کو چیف جسٹس سنہا نے ایک ماہ کی رخصت پر آسٹریلیا جاتے ہوئے اخبار نویسوں کو چند سطروں پر مشتمل یہ تحریر دی: ’’میں بیمار نہیں ہوں بلکہ صحت مند ہوں۔ میں بھاگ نہیں رہا بلکہ واپس آئوں گا۔ اگرچہ مجھے حکومتی رویے سے دُکھ پہنچا ہے لیکن عدلیہ کا سرپرست ہونے کی حیثیت سے میں اپنا کردار ادا کروں گا‘‘ (ڈیلی نیوایج، 14 اکتوبر)۔ چیف جسٹس کی پرواز کے صرف تین گھنٹے بعد ان کے خلاف گیارہ الزامات کی فہرست جاری کردی گئی۔ ساتھ ہی سپریم کورٹ میں ان کے متعدد ساتھی ججوں نے ان الزامات کی موجودگی میں چیف جسٹس کے ساتھ کام کرنے سے انکار کر دیا۔ (بی ڈی نیوز، 15 اکتوبر 2017ء)
مزید یہ کہ قائم مقام چیف جسٹس محمد عبدالوہاب میاں نے چیف جسٹس سریندرکمار سنہا کے آسٹریلیا روانہ ہونے کے 48 گھنٹے کے اندر اندر سپریم کورٹ اور اعلیٰ عدلیہ کے 25 اعلیٰ افسروں کو ان کے عہدوں سے ہٹا کر تبادلے کر دیے ہیں۔ ان عدالتی افسروں میں جسٹس سنہا کے قریبی رفقا شامل ہیں۔ اس اقدام سے ایک ہی روز قبل وزیرقانون انیس الحق اور اٹارنی جنرل محبوب عالم نے بیان دیا تھا کہ ’’قائم مقام چیف جسٹس تمام اقدامات اور فیصلے کرسکتا ہے‘‘۔ (بی ڈی نیوز24، 12اکتوبر)
جماعت اسلامی کے قائم مقام سیکرٹری جنرل اے ٹی ایم معصوم نے اس صورتِ حال کو: ’’عدالتی معاملات میں حکومت کی سیاسی، حکومتی اور غیراخلاقی مداخلت قرار دیا، اور کہا کہ دراصل حسینہ حکومت عدالتی افسروں، ججوں اور عدالتی عمل پر مکمل گرفت قائم کرنا چاہتی ہے‘‘، جب کہ قائم مقام چیف جسٹس نے یہ بیان داغ دیا ہے کہ: ’’جسٹس سنہا کو جاتے جاتے منصب کے احترام میں ایسا بیان نہیں دینا چاہیے تھا‘‘ (ڈیلی اسٹار ، 17 اکتوبر)۔ پیش نظر رہے کہ جسٹس سنہا نے ڈھائی ماہ تک عوامی لیگی طوفانی پروپیگنڈے، گندے کارٹونوں اور گھنائونے الزامات کے جواب میں صرف یہی تین جملے لکھے۔
اس صورتِ حال سے یہ اندازہ ہوتا ہے، بھارت اپنی نوآبادی بنگلہ دیش کا نظام ٹھیک طور سے نہیں چلنے دینا چاہتا۔ اس کی یہی کوشش ہے کہ 16 کروڑ آبادی کا یہ ملک ہرآن کسی نہ کسی افراتفری کا شکار رہے، تاکہ معاشی، سماجی اور سیاسی استحکام کی عدم موجودگی میں وہ ایک مجبور اور غیرمستحکم ریاست کے طور پر تاجِ دہلی کا دستِ نگر رہے۔ اس آئینے میں، اس خطّے ہی کے نہیں بلکہ خود عرب دنیا کے نام نہاد علاقائی قوم پرستوں کو یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ جب بڑی طاقت، نفرت کے بل پر نام نہاد آزادی دلاتی ہے تو بنیادی کنٹرول اپنے ہاتھ ہی میں رکھتی ہے۔ اپنی ملّت سے غداری کرنے والوں کو محض علامتی اختیار دیتی ہے اور لیلاے اقتدار سے نہیں نوازتی۔
بنگلہ دیش کے ہمسایہ ملک برما (میانمار) میں ایک عرصے سے مسلمانوں کی نسل کشی کا گھنائونا کھیل جاری ہے۔ اس دوران عوامی لیگی حکومت نے بھی عزت، آبرو اور جان بچاکر آنے والے روہنگیا مسلمانوں کو سمندر میں دھکیل کر موت کی لہروں کے سپرد کیا۔ تاہم، گذشتہ چند ماہ میں بنگلہ دیشی حکومت کے رویے میں مثبت تبدیلی آئی، جس کا بڑا سبب عالمی اور ملکی راے عامہ کا دبائو بھی تھا۔
روہنگیا مسلمانوں کی وحشیانہ نسل کشی کے خلاف راے عامہ کی توجہ مبذول کرانے کے لیے جماعت اسلامی بنگلہ دیش نے حتی المقدور کوششیں شروع کیں۔ جماعت اسلامی کے امیرمقبول احمد نے روہنگیا مسلمانوں کی ناقابلِ بیان صورتِ حال، میانمار حکومت، میانماری فوج اور بدھ بھکشوئوں کی جانب سے بدترین قتل و غارت گری و بے چارگی پر دنیا کا ضمیر جھنجھوڑنے کے لیے ہم وطن اہلِ درد سے اپیل کی کہ وہ مظلوموں کی مدد کریں اور اپنی اپنی بساط کے مطابق، دنیابھر کے مؤثر اداروں کے دروازے کھٹکھٹائیں۔ مقبول احمد صاحب نے اقوام متحدہ اور عالمی ضمیر سے دردمندانہ اپیل کرتے ہوئے کہا: ’’روہنگیا مسلمانوں کے سفاکانہ قتل عام کو رُکوانے میں وہ اپنا اثرو رسوخ استعمال کریں۔ میں عالمی تنظیموں، مسلمان ملکوں اور رفاہی تنظیموں سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ مدد کے لیے تڑپتے روہنگیا مسلمانوں کی مدد کے لیے بنگلہ دیش کا ہاتھ بٹائیں۔ اس بحران میں پوری بنگلہ دیشی قوم یک آواز اور ہم قدم ہے‘‘۔ (بی ڈی نیوز 24، 12 ستمبر 2017ء)
عالمی تنظیم ’ہیومن رائٹس واچ‘ (HRW) کے مطابق: ’’20 ستمبر تک میانمار میں مسلمانوں کے 244 گائوں مکمل طور پر تباہ کردیے گئے تھے‘‘(ڈیلی نیونیشن، 20 ستمبر)۔ بنگلہ دیشی حکومت کے اعداد و شمار کے مطابق اب تک 5 لاکھ 36 ہزار روہنگیا مہاجر بنگلہ دیش آچکے ہیں۔ اسی دوران حسینہ واجد کے سیاسی مشیر حسان توفیق امام نے مغالطہ انگیزی پیدا کرتے ہوئے کہا: ’اراکان روہنگیا مجاہدین آزادی‘، بنگلہ دیش اور برما دونوں کے دشمن ہیں، ہم انھیں قدم نہیں جمانے دیں گے‘‘ (مِزما نیوز، میانمار، 21 ستمبر)۔ اس کاغذی تنظیم کا تذکرہ کرکے بنگلہ دیشی حکومت نے روہنگیا مظلوموں کے زخموں پر نمک پاشی کی اور ان کے دُکھ درد میں اضافہ کیا۔ یہ طرزِ بیان بھارت کی بی جے پی، آر ایس ایس اور برمی فوج کا ہے، جسے ڈھاکا حکومت نے اپنی طرف سے نشر کیا۔ حسینہ واجد حکومت کے اسی دوغلے پن کو نظام احمد نے اپنے مضمون: ’ڈھاکا دہلی رومانس اینڈ روہنگیا‘ میں کڑی تنقید کا نشانہ بنایا (ڈیلی آبزرور ، 20 ستمبر)۔ پھر 20 روز بعد روہنگیا مسلمانوں کی مدد کے لیے کام کرنے والی تین رفاہی تنظیموں: مسلم ایڈ بنگلہ دیش، اسلامک ریلیف اور علامہ فضل اللہ فائونڈیشن پر پابندی عائد کر دی گئی اور صحافیوں نے اس انتہائی اقدام کا سبب جاننا چاہا، تو ڈائرکٹر رجسٹریشن نے جواب دینے سے انکار کر دیا۔ (بی ڈی نیوز 24، 12 اکتوبر 2017ء)
درحقیقت بنگلہ دیشی حکومت، جہاں ایک طرف روہنگیا مسلمانوں کی حالتِ زار کے نام پر دنیا سے مدد حاصل کر رہی ہے، وہیں نہ صرف عالمی سطح کی بلکہ مقامی رفاہی تنظیموں کو بھی ان کی مدد کے لیے ہاتھ بٹانے سے روک رہی ہے۔ روزانہ کوئی نئے سے نیا حکم نامہ آکر، بے لوث خادموں کی راہ میں رکاوٹ پیدا کردیتا ہے۔ بنگلہ دیش کے صحافتی حلقے یہ بات برملا کہتے ہیں کہ: ’’ستمبر سے بنگلہ دیش جماعت اسلامی پر قیدوبند کی حالیہ یلغار کے پیچھے ایک یہ سبب بھی ہے کہ کہیں جماعت اسلامی کے کارکنوں کی اَن تھک کوششوں سے اس کی نیک نامی میں مزید اضافہ نہ ہوجائے اور حکومتی اداروں کی بدانتظامی کا پول کھل نہ جائے‘‘۔