سازشوں کا تسلسل‘ قادیانی ہاتھ اور سید مودودی کو پھانسی کی سزا

1033

نجیب ایوبی
نواں حصہ
24 اکتوبر 1954 کو اچانک ملک بھر میں ہنگامی حالت کا اعلان کر کے قانون ساز اسمبلی کو برخواست کردی گئی۔اور اسطرح پاکستان میں پہلی مرتبہ آمریت کا راستہ ہموار کیا گیا۔اس آمریت کے پیچھے کون کون سے عوامل کار فرما تھے؟ اس پر کبھی بھی مفصل تجزیہ ایک عنوان کے تحت سامنے نہیں آسکا۔جبکہ ضرورت اس بات کی تھی اور ہے کہ جماعت اسلامی اور علمائے کرام کی جانب سے پیش کی جانے والی قرارداد مقا صد (جو پاکستان کے مسلمانوں کے جذبات کی ترجمان تھی) ، لیاقت علی خان کا قتل ، خواجہ نا ظم الدین کی برطرفی ، فتنہ قادیانیت کے خلاف تحریک اور ملک کے پہلے مارشل لاء ( ایمرجنسی ) ان تمام موضو عات کو ایک بڑے عنوان میں رکھتے ہوئے اس کا حقیقت پسندانہ جائزہ لیا جاتا۔میری کوشش دوران مطا لعہ یہی رہی ہے کہ میں تسلسل کے ساتھ رونما ہونے والے واقعات کو اس عنوان میں رکھ کر دیکھ سکوں۔چناچہ میں نے ایسا ہی کیا ہے اوراپنا حاصل مطالعہ آپ کی خدمت میں پیش کر رہا ہوں۔میری کوشش ہے کہ میں رونماء ہونے والے واقعات کو جس تسلسل کے ساتھ وہ وقوع پزیر ہوئے ان کو ویسا ہی پیش کیا جائے۔
1950-51 تک کی سیاسی صورتحال بہت تیزی کے ساتھ اسلام پسند عناصر اور جمہوریت پسندوں کے لیے مشکل بنا ئی جارہی تھی۔حکومتی عہدوں اور سرکاری ملازمتوں سے چھانٹ چھانٹ کر ایسے لوگوں کو نکالا جارہا تھا جن کے بارے میں یہ شائبہ بھی ہوتا کہ انکا دور پرے کا کوئی رشتہ دار یا عزیز جماعت اسلامی میں ہے یا مولانا مودودی جیسی سوچ اور فکر رکھتا ہے۔
دینی اور اخلاقی حالت تیزی کے ساتھ روبہ زوال ہورہی تھی۔اسلام کے خلاف اعلانیہ طور پر احکامات کی خلاف ورزی سرکاری افسران کا فیشن بن چکا تھا۔سرکاری ملازمتوں، فوج اور سول بیوروکریسی سے چن چن کر اسلام پسندوں کو الگ کیا جانے لگا تھا۔حکومتی مشنری میں کمیونسٹ اور دین بیزار افسران کو تعینات کیا جانے لگا۔
سرکاری ملازمتوں اور سرکاری اداروں کو حکومتی پارٹی کے رضاکاروں اور سرکاری محکموں کو حکومتی جماعت کی ذیلی شاخوں میں تبدیل کیا جاچکا تھا۔
انگریز کے بنائے ہوئے کالے قانون کو ملک پر اپنی آمریت چلانے اور برقرار رکھنے کے لیے استعمال کیا جارہا تھا۔تاکہ حکومت کے خلاف کوئی آواز یا تحریک پروان ہی نہ چڑھ پائے۔سیفٹی ایکٹ۔سیفٹی آرڈیننس ، فرنٹیر کرائم ریگولشنز ، 1818 کے بنگال ریگولشن تھرڈ اور اس جیسے دوسرے جابرانہ ہتھکنڈے صرف اس لیے استعمال کئے جارہے تھے کہ قوم کبھی بھی اپنی مرضی سے اپنا رہنماء منتخب نہ کر ا سکے۔
سرکاری محکموں میں سراغرسانی اور ایک دوسرے کے اوپر جاسوسی کا گھناؤنا نیٹ ورک قائم کردیا گیا تھا۔جو ہر ا سلامی ذہن رکھنے والے فرد کی نگرانی پر مامور تھا۔پو لیس ، مجسٹریٹ اور سرکاری حکام مخالفین کو کچلنے کے لیے بے دریغ پیسہ بہا رہے تھے۔سب سے گندہ کھیل جو کھیلا جارہا تھا وہ یہ تھا کہ انتخابی عمل اور نتائج میں ہیر پھیر اور دھونس دباؤ اور دھاندلی کا اندھا دھند استعمال۔
ملک میں پہلی افراتفری اور احتجاج 1950 میں دیکھنے میں آیا جب قانون ساز اسمبلی میں بنیادی اصولوں اور حقوق کی سب کمیٹیوں کی سفارشات کو منظر عام پر لا یا گیا۔اسلامی سوچ اور فکر رکھنے والے افراد اور تمام ہی جید علمائے کرام نے اس بھرپور مخالفت کی اور نتیجے میں بالآخر حکومت کو اپنی اسلام دشمن سفارشات واپس لینا پڑیں۔
اس تمام عرصے میں جماعت اسلامی شدید ترین آزمائش سے دوچار رہی۔بانی جماعت اسلامی مولانا سید ابو الاعلی مودودی، مولانا امین احسن اصلا حی قائم مقام امیر اور نائب امیر جماعت اسلامی میاں طفیل محمد تقریبا 5 ماہ پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت بلاجواز گرفتار رہے۔جماعت اسلامی کے کارکنان اور اعلی قیادت سخت آزمائش سے دوچار تھی۔جماعت اسلامی کی تمام قیادت اور بیشتر کارکنان پابند سلاسل تھے۔
رسا لہ ترجمان القران مولانا محترم کی نظر بندی کی وجہ سے بند تھا۔رسا لہ چرا غ را ہ جو کراچی سے نکلتا تھا ایڈمنسٹریٹر کے حکم پر بند کیا جا چکا تھا۔روزنامہ کوثر اور رسالہ تسنیم مسلسل چھ ماہ بند رہنے کے باعث معاشی بوجھ تلے دب گیا تھا اس کی اشاعت ممکن نہیں تھی۔مالی وسائل کی شدید قلت تھی۔اعانت کا جو نظام قائم تھا جس سے جماعت اسلامی کی دعوتی سرگرمیاں اور لٹریچر چھاپنے میں مدد ملتی تھی ، شدید متاثر ہوا تھا۔جماعت اسلامی کے جو کارکنان یا حامی سرکاری ملازمتوں پر فائز تھے ان کی جبری برطرفی کا آغاز کیا جاچکا تھا۔جماعت کے موقف کو چھپنے اور شا یع ہونے سے روکنے کے بعد حکومتی اخبارات میں جماعت اسلامی اور قائدین جماعت کے خلاف مذموم پروپیگنڈہ مہم کا آ غاز کیا جا چکا تھا۔
جنوری 1951 میں ملک بھر کے تمام ہی مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے 31 علما ئے کرام جماعت اسلامی کی اپیل پر کراچی میں جمع ہوئے اور سب نے مکمل رضامندی سے اسلامی حکومت کے بنیادی اصول مرتب کیے۔اگست 1952 میں قادیانیت کو اقلیت بنانے کے مطالبے نے زور پکڑا۔یہ وہی دور تھا جب جماعت اسلامی دستور پاکستان کو اسلامی بنانے کے بنیادی کام کا آغاز کرچکی تھی۔علمی محاذ پر مولانا مودودی مستقل مصروف کار رہے۔دستور کو اسلامی بنانے کی مہم شروع ہوگئی۔
1952 میں ہی قادیانیوں کو دستور میں اقلیت بنانے کا مطالبہ کیا گیا۔اور ان کے جداگانہ انتخاب پر زور دیا گیا۔کیونکہ قادیانیوں نے مسلمانوں کو غیر مسلم ماننا شروع کیا اور اپنے آپ کو مسلمانوں سے جدا کرنے کا باقاعدہ اعلان کیا۔اسی طرح مسلمانوں کی اکثریت نے بھی ان کو مسلمان تسلیم کرنے سے انکار کردیا تھا۔جولائی 1952 میں قادیانی اخبار” الفضل ” میں ایک دھمکی شایع ہوئی جس میں عطا اللہ شاہ بخاری ، مولا نا بدایونی مولانا احتشام الحق مولانا محمد شفیع اور مولانا مودودی کے بارے میں نام لیکر لکھا گیا تھا کہ ان” ملاؤں سے خون کا بدلہ لیا جائے گا “۔
قادیانیت کے خلاف تحریک نے زور پکڑا اور پنجاب میں مارشل لاء￿ لگانے کا فیصلہ ہوا۔یہ مارشل لا حقیقت قادیانیوں کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے لگایا گیا تھا۔ممتاز صحافی شورش کا شمیری کے مطابق جو اس وقت ڈیفنس سکریٹری تھے اور جنرل اعظم خان لاہور کے جنرل آفیسرکمانڈنگ ( جی سی او) تھے۔انہوں نے خود لکھا کہ ” اسکندر مرزا گورنمنٹ ہا ؤس لاہور میں ایک فوجی آفیسر پر برس رہے تھے کہ مجھے یہ نہ سناؤ کہ امن ہوگیا مجھے یہ بتاؤ کہ اس وقت کتنی لاشیں ڈھیر ہوئی ہیں ؟ جتنی داڑھیاں نظر آئیں انہیں گولیوں سے بھون دو”۔
27-28 مارچ 1953 کی درمیانی رات تک مولانا مودودی ، میاں طفیل محمد ، مولانا امین احسن اصلاحی ، مولانا عبدالجبار غازی ، مولانا مسعود عالم ندوی ، ملک نصراللہ خان عزیز ، سید نقی علی ، اوربارہ دیگر ذمہ داروں کو گرفتار کرلیا گیا۔ان بارہ افراد کے علاوہ بھی بیسیوں کارکنان کو مارشل لاء￿ اور سیفٹی ایکٹ کے تحت گرفتار کرکے ایک ماہ تک لاہور کے شا ہی قلعہ ( بدنام ترین عقوبت خانہ ) میں تفتیش کے نام پر تشدد کا نشانہ بنایا جاتا رہا۔اور ایک ماہ کے بعد ان سب کو پہلے لاہور سنٹرل جیل اور پھر مئی کی شدید ترین گرمیوں میں ملتان کے جیل خانے میں پہنچا دیا گیا۔جہاں مولانا مودودی اور ان کے رفقاء کے لیے” اسپیشل کمرے ” یعنی جست ( ٹین ) کے صرف چھ فٹ بلند کوٹھریاں بنائے گئے جس سے کمرہ تندور کی سی گرمی دیتا رہتا اور رات گئے تک ٹھنڈا ہونے کا نام نہیں لیتا تھا۔
گورنر جنرل ملک غلام محمد ، اسکندر مرزا اور اعلی فوجی افسران نے لاہور میں ایک ھنگامی اجلاس میں کچھ سخت اقدامات تجویز کئے جس کے مطابق 9 مئی 1953 کو حکومت کی جانب سے ایک ہنگامی آرڈیننس کا اعلان کیاگیا۔کہ ” مارشل لاء عدالتیں مارشل لاء کے نفاذ سے پہلے سرزد ہونے والے جرائم کی بھی سماعت کر سکتی ہیں ”
گویا یہ ایسا حکم نامہ تھا جس کو قانونی جواز فراہم کرکے جما عت اسلامی کی تمام قیادت کو پھانسی کے پھندے تک لے جانا آسان تر ہوگیا تھا۔
اب یہ حسن اتفا ق کہیے یا خدائی مصلحت کہ مارشل لاء نفاذ سے عین دو دن پہلے مولانا مودودی کی مایہ ناز تحریر ” قادیانی مسئلہ ” شائع ہوکر مارکیٹ میں آچکی تھی۔جس میں مولانا مودودی نے صرا حت کے ساتھ علمی دلائل کی بنیاد پر قادیانیت کی قلعی کھول کر رکھ دی تھی۔اور مرزا غلام احمد قادیانی کے ہی حوالوں کے ذریعے اس ملعون کے دلائل نبوت اور بودی دلیلوں کا پردہ چاک کر دیا تھا۔حیرت کی بات یہ تھی کہ یہ کتابچہ مارشل لاء کے بعد بھی بہت بڑی تعداد میں خریدا جاتا رہا۔اور سال کے اندر کئی کئی مرتبہ شائع کرنا پڑا۔کہ اچانک 11 مئی 1953 کو ریڈیو پاکستان کی نشریات میں اعلان کیاگیا کہ ” مولانا مودودی اور دیگر گرفتار شدگان پر سیفٹی ایکٹ کے بجائے مارشل لاء ایکٹ کے تحت مقدمہ چلایا جائے گا۔” پانچ دن لگاتار کاروائی چلائی گئی اور 11 مئی 1953 کو مغرب کے فورا بعد مولانا مودودی اور مولانا عبدالستار نیازی کو سزائے موت کا حکم سنا یا گیا۔مولانا کا جرم تھا ” کتابچہ۔قادیانی مسئلہ “!
حوالہ جات : روداد جماعت اسلامی۔
جہد مسلسل۔حصہ اول۔تاریخ جماعت اسلامی (حصہ دوم )
(جاری ہے )

حصہ