افشاں نوید
بیٹیاں تو باپ کی آنکھوں کی ٹھنڈک ہوتی ہیں۔ بیٹی اگر اکلوتی اولاد ہو اور اولاد بھی وہ کہ جس کو ماں نوعمری میں تنہا چھوڑ کر دنیا سے رخصت ہوگئی ہو، اس باپ کا کیسا تعلق ہوگا اپنی بیٹی سے، ہم اندازہ کرسکتے ہیں۔ قائداعظم نے اپنی اکلوتی بیٹی دینا جناح سے تعلق منقطع کرکے ثابت کردیا کہ وہ واقعی دنیا کے عظیم لیڈر ہیں جو اصولوں کی خاطر کچھ بھی قربان کرسکتے ہیں۔ جتنا قائداعظم کے لیے تکلیف دہ تھا اپنی لختِ جگر کا یہ فیصلہ کہ وہ ایک ایسے نوجوان سے رشتۂ ازدواج میں منسلک ہونے جارہی ہے جو پارسی مذہب ترک کرکے عیسائیت قبول کرچکا ہے۔ یقینا اتنا ہی تکلیف دہ ہوگا کم عمر دینا کے لیے قائداعظم کی لاتعلقی کا فیصلہ کہ ماں تو مر کر چھوٹ گئی اور باپ کو اس کی نوعمری کے ایک غلط فیصلے نے کھو دیا۔ یہ الگ بحث ہے کہ نوائل واڈیا سے شادی کے لیے دینا کی پارسی ننھیال کا کتنا دبائو تھا۔ یا ننھیال کو جب علم تھا کہ اس کے والدین مسلمان ہیں اور باپ کو قوم ایک عظیم قائد کی حیثیت سے جانتی ہے تو انہوں نے اس فیصلے سے باز رکھنے میں اپنا کردار ادا کیوں نہ کیا…؟ یہاں بحث طلب امر یہ ہے کہ وہ لوگ جو قائداعظمؒ کی 11 اگست 1947ء کی تقریر کو بنیاد بناکر دلائل کے انبار لگا دیتے ہیں کہ قائداعظم ایک سیکولر ریاست کے حامی تھے، وہ ایک فلاحی ریاست کے حامی تھے نہ کہ اسلامی ریاست کے، اور یہ کہ قائداعظم ایک لبرل سوچ کے مسلمان تھے، قدامت پسند نہ تھے، دینا واڈیا کی وفات پر یہ بات ضرور قابلِِ ذکر ہے کہ قائداعظم کی اصول پسندی کو خراجِ عقیدت پیش کیا جائے۔
قیامِ پاکستان سے دس برس قبل نہ میڈیا اتنا فعال تھا، نہ سوشل میڈیا جو لمحوں میں خبروں کو دنیا کے کونے کونے میں پہنچا دیتا ہے۔ قائداعظم چاہتے تو اس معاملے کو اپنا خانگی معاملہ قرار دے کر لوگوں کی زبانیں بند کردیتے۔ اولاد جتنی بھی بڑی غلطی کرے عموماً والدین اس پر پردے ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ قائداعظم کی دین سے والہانہ عقیدت تھی کہ انہوں نے بیٹی سے نہ صرف اظہارِ لاتعلقی کیا بلکہ علی الاعلان یہ بات کہنے میں کوئی جھجک محسوس نہ کی کہ انہوں نے بیٹی سے تعلق توڑ دیا ہے اور اس کی وجہ صرف اسلام ہے۔ انہوں نے یہ تجویز رکھی تھی کہ اگر نوائل واڈیا اسلام قبول کرلے تو انہیں اس شادی پر کوئی اعتراض نہ ہوگا۔ لیکن سترہ برس کی دینا نے یہ کمزور دلیل جواباً پیش کی کہ میری ماں بھی تو پیدائشی پارسی تھی (جبکہ وہ شادی سے قبل اسلام قبول کرچکی تھیں)۔ وقت گزر ہی جاتا ہے اور کبھی کبھی گزرا ہوا وقت ثابت کرتا ہے کہ ماضی میں کیے گئے فیصلے غلط تھے۔ نوائل واڈیا سے دینا کی اُس وقت علیحدگی نے جب وہ دو بچوں کی ماں تھیں، یہ ثابت کیا کہ جو فیصلہ باپ کی دل آزاری کا سبب بنا تھا وہ غلط فیصلہ تھا۔
کسی ایک واقعے میں عبرت کے کتنے درس پوشیدہ ہوتے ہیں۔ اگر دینا واڈیا نے یہ غلط فیصلہ نہ کیا ہوتا تو پاکستانی عوام میں ان کی کسی قدر پذیرائی ہوتی۔ ان کی زندگی میں بھی پاکستانی قوم ان کو سر آنکھوں پر بٹھاتی، اس لیے کہ وہ ان کے عظیم قائد کی نشانی تھیں۔ ان کے انتقال پر ان کو عظیم الشان خراجِ عقیدت پیش کیا جاتا۔ قومی پرچم سرنگوں ہوتا۔ پارلیمنٹ کے ایوانوں میں دعائے مغفرت کی جاتی۔ ان کی میت کو قومی پرچم میں لپیٹ کر پاکستان لایا جاتا اور قائداعظم کے پہلو میں سپردِ خاک کیا جاتا۔ فوجی بینڈ ماتمی دھنیں بجاتے، اکیس توپوں کی سلامی دی جاتی اور فوجی اعزاز کے ساتھ ان کی میت اٹھتی، دنیا ٹی وی اسکرین پر ان کی آخری رسومات دیکھتی، پاکستان میں سرکاری تعطیل کا اعلان ہوتا، قوم ٹی وی پر اپنے عظیم قائد کی اکلوتی نشانی کی آخری رسومات دیکھنے کے لیے اپنی معمول کی مصروفیات ترک کردیتی۔ ہماری قوم احسان مند قوم ہے۔ حال ہی میں عبدالستار ایدھی اور جنید جمشید کی آخری رسومات کے مناظر ابھی ذہنوں سے دھندلائے نہیں ہیں۔ قوم نے تاریخ میں ثبت کردیا کہ وہ ان کی خدمات کی معترف ہے۔ ڈاکٹر روتھ فائو کو خراجِ عقیدت پیش کرنے میں بخل سے کام نہ لیا گیا، ان کو پورے فوجی اعزاز کے ساتھ سپردِ خاک کیا گیا۔ قوم کے بچے بچے نے ان کی خدمات کا اعتراف کیا۔
دینا واڈیا کا چونکہ قائداعظم سے تعلق نہ رہا تھا اس لیے پاکستانی قوم کی ان کے ساتھ کوئی جذباتی وابستگی نہ تھی۔ البتہ ان کی وفات نے یہ بات ضرور ذہنوں میں تازہ کردی کہ پاکستانی قوم کو قائداعظم کی صورت میں کتنا عظیم لیڈر میسر آیا تھا، کیونکہ کسی لیڈر کی عظمت اُس کی اصول پسندی میں پوشیدہ ہوتی ہے۔ خونیں رشتوں کی محبت انسان کو جذبات میں اندھا کردیتی ہے۔ اگر قائداعظم بیٹی کی محبت سے مغلوب ہوکر اپنے فیصلے پر نظرثانی کرلیتے یا خفیہ طور پر ملنا جلنا رکھتے تو ظاہر ہے کہ اس سے اُن کے لیڈر ہونے پر کوئی فرق نہ پڑتا۔ ایسا نہیں ہوسکتا کہ دینا نے اپنی جانب سے باپ کو محبتوں کے پیغام نہ بھیجے ہوں یا ملنے کی خواہش ظاہر نہ کی ہو۔ قائداعظم نواسی اور نواسے کی محبت سے مغلوب ہوکر کوئی قدم اٹھا سکتے تھے، لیکن ان کی اصول پسندی ہمالیہ سے بلند تھی۔ اور رہنما حقیقتاً وہی ہوتا ہے جو پبلک اور پرائیویٹ لائف میں تضاد کا شکار نہ ہو… اور جہاں معاملہ دینی عقائد کا ہو وہاں اتنی ہی شدت پسندی کے مظاہرے ہونے چاہئیں۔ جو روشن خیال دانشور یہ بحث کرتے نہیں تھکتے کہ قائداعظم مسٹر جناح تھے نہ کہ مولوی جناح، بلاشبہ انہوں نے قائداعظم کے اس فیصلے میں ایک مولوی جناح اور سچے مسلمان کی روح کو دیکھا اور اس سچائی کو محسوس کیا ہوگا جس سے وہ دامن بچاتے ہیں۔ وہ لبرل طبقہ جو قائداعظم کے ساتھ اپنی نسبت کو جوڑنے کے لیے انہیں بار بار ’’روشن خیال‘‘ ثابت کرتا ہے، دینا کی روح نے جاتے جاتے اس طبقے کو یہ پیغام ببانگِ دہل دیا ہے کہ میرے باپ ایک سچے مسلمان تھے۔
اگر اولاد والدین کے سامنے دنیا سے چلی جائے تب بھی والدین ساری عمر اس جدائی کی کسک محسوس کرتے ہیں، لیکن جو اولاد جیتے جی بچھڑ جائے اس درد کے ساتھ جینا کتنا مشکل ہوتا ہوگا۔ لیکن قائداعظم نے تحریکِ آزادی کے عظیم مشن میں اپنی ذاتی زندگی کے دکھوں کو حائل نہ ہونے دیا۔ آپ نے اپنی ساری توانائیاں، اپنے روز و شب برصغیر کے مسلمانوں کی آزادی کے لیے وقف کردیے۔ اللہ نے انہیں پاکستان کی صورت میں ان کے خوابوں کی تعبیر دی۔ قیام پاکستان کے بعد بیٹی نے باپ کو مبارک باد کا خط تحریر کیا۔ تاریخی حوالوں سے یہ پتا چلتا ہے کہ قائداعظم نے ان سے تحریری رابطہ بھی پسند نہ کیا۔ ان کے ایک خط کے مختصر جواب میں انہیں ’’مسز واڈیا‘‘ کہہ کر مخاطب کیا۔
کوئی دانشور بڑی دور کی کوڑی لایا کہ مائیں جو دعائیں کرتی ہیں وہ قبولیت پاتی ہیں، لہٰذا دعائیں سوچ سمجھ کر کرنی چاہئیں۔ بہت ممکن ہے کہ دینا بچپن میں کبھی بیمار ہوگئی ہوں اور ان کی ماں نے بے اختیار دعا مانگی ہو کہ ’’اللہ میری عمر بھی میری بچی کو لگا دے‘‘۔ ماں 29 برس کی عمر میں دارِ فانی سے کوچ کر گئیں، اور بیٹی نے 98 برس کی طویل عمر پائی…!!! ہمارا تو ایمان ہے کہ ہر شخص اپنی عمر اور اپنا رزق لکھوا کر آتا ہے۔ اصل بات یہ نہیں کہ کون کتنا جیا۔ اصل بات یہ ہے کہ کون کیسے جیا…؟؟؟
اولاد کی آزمائش دنیا کی شدید ترین آزمائش ہے۔ یہاں بعض اوقات انسان بے بس ہوجاتا ہے۔ قرآن نے حضرت نوحؑ کے بیٹے کی مثال اسی لیے پیش کی کہ واضح کردیا جائے کہ ہر شخص اپنے کسب کے عرض رہن ہے۔ ہر ایک اپنے اعمال کے لیے خود جواب دہ ہے۔ اسی لیے شریعت بچپن سے اولاد کی تربیت پر خصوصی زور دیتی ہے۔ مولانا مودودیؒ نے اولاد کو امتحانی پرچوں سے تشبیہ دی ہے۔ امتحانوں کا نتیجہ ہمیشہ کامیابی کی صورت میں ہی نہیں نکلتا۔ زندگی خود بہت بڑا امتحان ہے جہاں کچھ لوگ خوابوں کی دنیا میں مگن ہیں، اور کچھ ان کی تعبیروں کے لیے کمرکس کر میدان میں اترے ہوئے ہیں۔
بقول شاعر:
سونے والے داستانِ خواب سن کر سو گئے
جاگنے والوں نے اُن کا خواب پورا کر دیا
(اجمل سراج)
دینا کی رگوں میں قائداعظم کا لہو تھا، وہ اپنے باپ کے پاکستان سے محبت کرتی تھیں جس کا ثبوت 2004ء میں مزار قائد پر حاضری کے بعد وزیٹرز بک میں ان کے تحریر کیے ہوئے ان جملوں سے ملتا ہے ’’میرے لیے یہ انتہائی اداس لمحہ ہے، خدا پاکستان کے بارے میں جناح کے خواب کو پورا کرے‘‘۔
سچ یہی ہے کہ تعمیرِ پاکستان کے لیے جن جذبوں کی ضرورت تھی، تکمیلِ پاکستان کے لیے بھی وہی عزائم درکار ہیں۔ اس پاک وطن کی مٹی کا بڑا قرض ہے ہم پر۔ جناح کے خواب تاحال ادھورے ہیں۔