زاہد عباس
جمہوریت صدارتی اور پارلیمانی نظام کے گرد گھومتی ہے۔ دنیا کے مختلف ممالک میں صدارتی اور پارلیمانی نظام قائم ہے، جب کہ پاکستان میں برطانوی طرز پر ایک پارلیمانی جمہوریت ہے جس میں ریاست کے سربراہ کو علامتی اختیارات حاصل ہوتے ہیں۔ اس نظام میں تمام اختیارات پارلیمان کے پاس ہوتے ہیں۔ لیکن ہمارے ملک میں یہ نظام بہتر طور پر کام نہیں کررہا۔ اس پارلیمانی نظام کے تحت دورانِ انتخاب ہر سیاسی جماعت ملک کے تقریباً تمام حلقوں میں درجنوں بلکہ سیکڑوں امیدوار کھڑے کرتی ہے۔ اس نظام کے نتیجے میں کامیاب ہونے والے وہ لوگ ہوتے ہیں جو نسل در نسل اپنے خاندانی اثر رسوخ کے باعث اپنے اپنے آبائی علاقوں سے کامیاب ہوتے چلے آرہے ہیں۔ خاندانی پس منظر کے حوالے سے میدانِ سیاست میں کامیاب ہونے والے نہ اتنے ذہین ہوتے ہیں اور نہ ہی اُس منصب کے اہل جس پر وہ براجمان ہوتے ہیں… بلکہ ان میں زیادہ تر تو وہ لوگ ہوتے ہیںجن کے تعلقات اور گہرے مراسم اُن اربابِِ اختیار سے ہوتے ہیں جن کی طاقت اور حیثیت سے ہر کوئی واقف ہے۔ ہار جیت کے اس کھیل میں ہمیشہ ان خاندانوں کی جیت ایک عام آدمی سے لے کر اداروں تک اس طرح اثرانداز ہوتی ہے کہ نہ ووٹر کے پاس کوئی متبادل ہوتا ہے اور نہ ادارے ان کے خلاف کوئی کارروائی کرسکتے ہیں۔ ظاہر ہے جب اس نظام کے تحت انتخابات ہوں گے جس کے نتیجے میں ہر مرتبہ ایک ہی خاندان یا فرد کامیاب ہوتا رہے تو کس کی جرأت ہوگی کہ وہ ان کے خلاف انتخابات لڑ سکے! ہمیشہ الیکشن جیتنے والوں کو یہ طریقۂ انتخاب نہ صرف مضبوط کرتا ہے بلکہ سیاسی جماعتوں کو اس بات پر مجبور بھی کرتا ہے کہ وہ اِن ہر مرتبہ کامیاب ہونے والوں کو اپنی جماعتوں کے ٹکٹ جاری کریں۔ ملک میں رائج نظام انتخاب میں ہر سیاسی جماعت نہ چاہتے ہوئے بھی ان جیتنے والے خاندانوں کو اپنے ساتھ رکھنے کی دوڑ میں شامل رہتی ہے جو کسی اکھاڑے میں جیتنے والے پہلوان کی طرح غریب ہاریوں اور معاشرے کے پسے ہوئے لوگوں سے ووٹ لینے کی مہارت رکھتے ہیں۔ اس نظامِ انتخاب کا بغور جائزہ لیا جائے تو یہ چنائو سے زیادہ دو طاقتوں کے درمیان اپنی اپنی طاقت دکھانے کا وہ کھیل ہے جس میں ایک کے مقابلے میں دوسرا طاقتور اور ظالم ہی منتخب ہوتا ہے۔
ہمارے ملک میں 70 سال سے کبھی جمہوریت تو کبھی مارشل لا حکومتیں آتی جاتی رہیں لیکن کسی حکومت نے بھی ملک میں رائج اس نظامِ انتخاب پر کام کرنے کی زحمت تک نہ کی جس کے نتیجے میں اہل، صاف ستھرے لوگوں کو ایوان میں جانے کا راستہ ملتا۔ یوں اس طریقۂ انتخاب سے ایوانوں میں پہنچنے والے چاہے جتنے بھی کرپٹ ہوں، ان کو کسی مؤثر طریقے سے ہٹانا ممکن نہیں۔ بڑھتی کرپشن، خاندانی سیاست، چہروں کی تبدیلی کے سوا اس نظام انتخاب سے کچھ حاصل نہیں، جب کہ اس حوالے سے ملک میں حقیقی خدشات موجود ہیں جو آنے والے ہر دن کے ساتھ بڑھتے جارہے ہیں۔ ملک میں ہونے والے انتخابات میں عوام کی طرف سے سیاسی جماعتوں کو ڈالے جانے والے ووٹوں کے تناسب سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ موجودہ انتخابی طریقہ فرسودہ اور عوام کی بے زاری کا سبب بنتا جارہا ہے۔ عوام میں بڑھتی بے چینی، ووٹروں کی انتخابات سے لاتعلقی، سیاسی اشرافیہ کی جانب سے بدانتظامی اس نظام کے خلاف خطرے کی گھنٹی ہے۔
ملک میں رائج نظام انتخاب میں ایک امیدوار کروڑوں روپے خرچ کرکے اپنی انتخابی مہم چلاتا ہے۔ سیکڑوں گاڑیاں، پیٹرول کے اخراجات، کھانے پینے، انتخابی دفاتر کھلوانے اور انہیں چلانے پر ہونے والے اخراجات فی سبیل اللہ نہیں ہوتے۔ یہ طریقۂ انتخاب لگائی گئی رقم ڈبل کرنے کا وہ بینک اکائونٹ ہے جو سود کے ساتھ رقم کی واپسی کی ضمانت ہے۔ حلقے کے لیے ملنے والے ترقیاتی فنڈز جیتنے والے کی جیب میں اور ترقیاتی منصوبے کاغذوں تک ہی محدود رہتے ہیں۔ ظاہر ہے جو کروڑوں روپے لگائے گا وہ مع سود اس رقم کی وصولی بھی کرے گا۔ پیسے کے بل پر ہائی جیک ہونے والے اس انتخابی نظام نے قوم کو متحد کرنے کے بجائے تقسیم کردیا جس سے پاکستان کی ترقی میں رکاوٹ آئی اور غربت، جہالت، بے روزگاری، انتہا پسندی، محرومیوں، مایوسیوں میں بھی اضافہ ہوا… نہ صرف اضافہ ہوا بلکہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ لوگوں میں اس انتخابی نظام سے مایوسی بڑھتی جارہی ہے اور متبادل نظام کی سوچ قابلِ توجہ بن رہی ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ ہم گھسے پٹے اور خامیوں سے بھرے اس فرسودہ نظام انتخاب سے چھٹکارا حاصل کرلیں اور ملک میں وہ نظام بنائیں جس سے ووٹ کا تقدس بحال ہوسکے۔ ایسا طریقۂ انتخاب جس کے ذریعے پیسے اور اثر رسوخ کے بجائے اہلیت اور صلاحیت کی بنیاد پر حکمرانوں کا انتخاب کیا جائے۔ وہ نظام جس میں ایک عام شہری آزادی کے ساتھ اپنا حقِ رائے دہی استعمال کرسکے۔ وہ طریقۂ انتخاب جو برادریوں کے چنگل سے آزاد ہو، جس میں طاقتور اپنی طاقت کے نشے میں کمزور سے زبردستی اپنے حق میں ووٹ ڈلوانے کی جرأت نہ کرسکے۔ لہٰذا میرے نزدیک ملک کی ترقی اور خوش حالی اسی صورت ممکن ہے جب اہلیت کی بنیاد پر اچھے پڑھے لکھے لوگ اسمبلیوں تک پہنچیں۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ ملک میں رائج اس انتخابی نظام کی جگہ متناسب نمائندگی کے تحت انتخابات کروائے جائیں۔ دنیا بھر میں اس نظام کے تحت ہونے والے انتخابات کے نتیجے میں قائم ہونے والی حکومتوں کی کارکردگی ہمارے سامنے ہے۔ آسٹریلیا، ہنگری، شمالی یورپ، جرمنی، فرانس سمیت کئی ترقی یافتہ ممالک کی ترقی کا راز یہی طریقہ انتخاب ہے، اور پھر برادر ملک ترکی جس کی ترقی کی مثالیں ہمارے حکمرانوں کی زبان پر ہوتی ہیں، وہاں پر ہونے والے انتخابات بھی اسی متناسب نمائندگی کے تحت ہوتے ہیں۔ اس طریقۂ انتخاب کی اہم بات یہ ہے کہ عوام شخصیت کو نہیں بلکہ جماعت کو اُس کے منشور پر ووٹ دیتے ہیں۔ اس نظام میں کسی شخص کی کوئی انفرادی حیثیت نہیں ہوتی۔ جب کوئی شخص ذاتی حیثیت نہیں رکھتا تو کس طرح کسی دوسرے شخص کو اپنی ذاتی پسند ناپسند پر مجبور کرسکتا ہے! اس نظام میں امیدواروں کے ناموں کی فہرست الیکشن کمیشن کو جماعتوں کی جانب سے انتخابات سے قبل ہی دینی ہوتی ہے۔
اگر ہم موجودہ حکومت کے مینڈیٹ پر نظر ڈالیں تو معلوم ہوتا ہے کہ 2013ء کے انتخابات کے نتیجے میں برسراقتدار آنے والی جماعت مسلم لیگ(ن) کو ایک کروڑ اڑتالیس لاکھ ووٹ ملے، جب کہ دوسرے نمبر پر آنے والی جماعت پی ٹی آئی کو 75 لاکھ ووٹ ملے۔ اسی طرح پی پی پی 68 لاکھ ووٹوں کے ساتھ تیسرے نمبر پر رہی۔ جب کہ کامیاب ہونے والے آزاد امیدواروں نے57 لاکھ ووٹ لیے۔ ایم کیو ایم اور دیگر سیاسی جماعتوں کو ملنے والے ووٹوں کی تعداد بھی لاکھوں میں تھی۔ یوں حکومت کرنے والی جماعت مسلم لیگ(ن) کے، لیے گئے ووٹوں کی تعداد اس کی مخالفت میں ڈالے گئے ووٹوں سے خاصی کم ہے۔ موجودہ انتخابی نظام میں کیوں کہ کامیاب ہونے والوں کی تعداد دیکھی جاتی ہے اس لیے صرف ڈیڑھ کروڑ ووٹ لینے والی جماعت 20 کروڑ عوام پر حکمرانی کا جواز رکھتی ہے، یعنی 18 کروڑ سے زائد عوام کو اس نظام کے تحت ایک ایسی جماعت کے حوالے کردیا گیا جس کو ملنے والے ووٹوں کی تعداد اس کی مخالفت میں ڈالے جانے والے ووٹوں سے کم تھی۔ اس طرح رائج انتخابی نظام کے تحت اقتدار اقلیتی جماعت کے سپرد کردیا گیا۔ اس نظام کی سب سے بڑی خرابی یہ ہے کہ سیٹ کا فیصلہ ہار جیت پر ہوتا ہے، چاہے کسی حلقے سے کامیاب ہونے والے امیدوار اور دوسرے نمبر پر آنے والے امیدوار کے ووٹوں میں معمولی فرق ہو، یعنی چند ووٹوں کی سبقت دوسرے نمبر پر آنے والے کے ووٹوں کو منوں مٹی تلے دبا دیتی ہے۔ آپ ملک میں ہونے والے کسی بھی الیکشن کے نتائج دیکھ لیں، ہمیشہ جیتنے والے امیدوار اور اُس کے مخالف ووٹوں کی تعداد میں فرق دکھائی دے گا۔ اگر کامیاب امیدوار کے مخالف ووٹوں کو یکجا کیا جائے تو یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ حلقے سے منتخب ہونے والا شخص عوام کا اصل نمائندہ نہیں۔ جب کہ اس کے برعکس متناسب نمائندگی کے تحت ہونے والے انتخابات میں جماعتوں کے حاصل کردہ ووٹوں کے مطابق نشستیں الاٹ کردی جاتی ہیں۔ مثال کے طور پر اگر کسی جماعت نے 30 فیصد ووٹ حاصل کیے تو اس جماعت کو 30 سیٹیں دے دی جاتی ہیں۔ اگر کسی نے 15 فیصد ووٹ لیے تو تناسب کے مطابق اسے 15 نشستیں ملتی ہیں۔ اس نظام میں ایک ایک ووٹ کی اہمیت ہوا کرتی ہے۔ کسی بھی جماعت کو ڈالے جانے والے ووٹ اپنی طاقت رکھتے ہیں۔ اس نظام میں ووٹرز کو اپنے ووٹ کے ضائع ہونے کا خطرہ نہیں ہوتا۔ شمار کیے جانے والے ووٹ کے تحفظ کی وجہ سے لوگوں کی بڑی تعداد اس انتخابی نظام میں اپنا حق رائے دہی استعمال کرتی ہے۔ دنیا بھر میں یہ بحث عام ہے کہ زیادہ سے زیادہ متناسب نمائندگی کی طرف رجوع کیا جائے۔ جب کہ ایک بڑی تعداد کو نظرانداز کردیا جاتا ہے۔ پاکستان کی جغرافیائی صورتِ حال کو دیکھتے ہوئے ایسے ہی نظام جس میں ہر طبقۂ فکر یا کسی خاص سوچ کے حامل افراد ہوں‘ کو متناسب نمائندگی کے تحت ہونے والے انتخابات سے فائدہ ہوسکتا ہے۔ پاکستان جیسے ملک میں جہاں تعلیمی صورت حال تشویش ناک حد تک خراب ہے، جمہوریت کو بھی پنپنے کا موقع نہیں مل سکا۔ ہم نے انگریز کے جانے کے بعد بھی اُس کے نظام کو گلے سے لگا رکھا ہے۔ نام نہاد جمہوری دعویٰ کرنے والوں نے اس نظام کے تحت قوم کو کیا دیا؟ شخصیت پرستی پر ڈالے جانے والے ووٹوں کا نتیجہ یہ نکلا کہ 70 سال گزرنے کے باوجود ہم نے کسی شعبے میں کوئی ترقی نہیں کی۔ 70 فیصد لوگ صفائی اور پینے کے صاف پانی سے محروم ہیں۔ بجلی، گیس کا بحران ہماری معیشت کو نگل گیا۔ مذہب اور زبان پر تعصب عام ہے۔ چودھریوں، وڈیروں، جاگیرداروں، خانوں کے زیراثر عوام کو اگر متناسب نمائندگی کے تحت انتخابات میں ووٹ ڈالنے کا موقع مل جائے اور عوام کو اس بات کا یقین ہوجائے کہ ایک ووٹ بھی طاقت کا حامل ہوتا ہے، تو یقین کیجیے ملک کی تقدیر بدل سکتی ہے۔