حذیفہ عبداﷲ
دوسری قسط
کھانے سے فارغ ہونے کے بعد تھوڑی دیر سستانے کا فیصلہ ہوا تینوں دوست ایک درخت کے سائے تلے آرام کی غرض سے لیٹ گئے تھکاوٹ کے باعث چند لمحات میں وہ گہری نیند کی وادی میں چلے گئے کافی وقت گزرنے کے بعد فراز گھبرا کراٹھ بیٹھا سورج غروب ہو چکا تھا رات کی سیاہی پھیل چکی تھی اس نے فوری طور پر اختر اور دانش کو نیند سے بیدار کیا دونوں آنکھیں مسلتے ہوئے اٹھے اور بولے بھائی تھوڑی دیر اور سونے دو… فراز نے کہا کہ بھئی تم گھر پر آرام نہیں کر رہے بلکہ ایک مہم پر نکلے ہو اور گھر سے دور ایک جنگل میں موجود ہو۔ اختر اور دانش رات کے بڑھتے ہوئے اندھیرے سے گھبرا گئے اور کہا کہ اب کیا کرنا ہے۔ فراز نے کہا کہ ہمیں تو کچھ دیر آرام کرنے کے بعد اپنا سفر جاری رکھنا تھا لیکن گہری نیند کے باعث ایسا نہیں ہو سکا ہمیں تو رات سے پہلے اس جنگل سے گزرجانا تھا اس جنگل کی مسافت بھی کم نہیں ہے کم از کم پانچ گھنٹوں کا سفر ہے جنگل بہت گھنا ہے چاند بھی بادلوں میں چھپا ہونے کے باعث خوفناک قسم کا اندھیرا ہے ایسے میں یہ کرنا چاہیے کہ آگے بڑھنے کے بجائے صبح کا انتظار کیا جائے فی الحال اسی درخت کے اوپر رات گزاری جائے جس کے نیچے ہم نے سوتے ہوئے دن گزارا ہے میں نے دن کی روشنی میں درخت کا جائزہ لیا تھا تھوڑی اوپر ایک مچان بنی ہوئی ہے جس پر باآسانی بلا خوف و خطر رات گزاری جا سکتی ہے اور صبح ہوتے ہی ہم جنگل کے پار نکل جائیں گے اور اپنے ہدف کے قریب ہوں گے مہم جوئی میں اسے حالات و واقعات تو پیش آتے رہتے ہیں ہمیں خوف زدہ اور مایوس نہیں ہونا چاہیے تینوں دوست اپنے سامان کے ساتھ مچان پر چڑھ کر بیٹھ گئے اگرچہ وہ جنگل کے ابتدائی حصے میں ایک درخت پر اور کافی اونچی مچان پربیٹھے ہوئے تھے لیکن ایک خوف کی کیفیت تھی جو مسلسل بڑھتی جا رہی تھی کیونکہ جنگلات میں جنگلی جانوروں کی موجودگی کے ساتھ ساتھ ڈراونے واقعات اور قصے جو وہ مختلف کہانیوں میں پڑھتے رہے خیالات میں آکر ستا رہے تھے فراز نے کہا کہ نیند تو ہم پوری کر ہی چکے ہیں اب اتنی جلدی اور ایسے ماحول میں نیند تو آنے سے رہی لہٰذا کچھ بہادری کے واقعات اور قصے سنا کر وقت گزارا جائے تینوں ایک دوسرے کو مختلف بہادری کے واقعات اور قصے سنانے لگے، لطائف اور شعر و شاعری کا سلسلہ ہوا تو ان کی توجہ خوف زدہ ماحول سے قدرے ہٹ گئی رات پھر رات ہوتی ہے خوف کم ہوا تو وہ پھر نیند کی آغوش میں چلے گئے۔
کہیں بہت دور سے فجر کی اذان کے ساتھ فراز نیند سے بیدار ہوا۔ اللہ اکبر کی صدا اس ماحول میں روحانی کیفیت پیدا کر رہی تھی اور محسوس ہو رہا تھا کہ درخت، چرند، پرند اللہ کی حمد و سنا بیان کر رہے ہیں فراز نے دانش اور اختر کو بھی نیند سے بیدار کیا تینوں دوست اپنی منزل کی طرف روانہ ہو گئے روشنی بڑھتی جا رہی تھی اور راستے واضح دل سے خوف کم سے کم ہوتے ہوئے عزم میں تبدیل ہو رہا تھا۔
کافی مسافت کے بعد جب وہ جنگل کے پار نکلنے میں کامیاب ہو گئے تو ایک نہر ان کے سامنے تھے دن خاصا چڑھ چکا تھا بھوک شدت اختیار کر چکی تھی انہوں نے اپنے اشیا خورونوش کا جائزہ لیا وہ کھانا ایک وقت کے لیے تو کافی تھا لیکن ٹھنڈا ہونے اور روٹی باسی ہونے کے باعث با مشکل تھوڑا بہت کھانا کھایا پھر انہوں نے نہر کا جائزہ لیا کہ کس طرح نہر پار کی جائے ایک جگہ سے نہر کی چوڑائی قدرے کم تھی اسی مقام سے انہوں نے پار کر لی سامنے ان کے ایک بہت بڑی غار کا دھانہ تھا فراز کے مطابق یہ ہی وہ مطلوبہ غار ہے تینوں دوست غار میں داخل ہوگئے غار میں اندھیرا تھا۔ انہوں نے موبائل فون کی روشنی میں غار کا معائنہ کرنا شروع کیا کیونکہ سگنل نہ آنے کے باعث فون تو صرف ٹارچ بن گئے تھے کہ اچانک تیز ہوا کے جھکڑ چلنے لگے اور کوئی بڑی سی شے غار کے منہ پر آکر رک گئی اور غار کا منہ بند ہو گیا۔
(جاری ہے)