ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے
نیل کے ساحل سے لے کر تابہ خاکِ کاشغر
علامہ اقبالؒ نے امتِ مسلم کو اتحاد کے لیے اُس وقت پکارا جب پورا عالمِ اسلام یورپی نوآبادیاتی غلامی کی زنجیروں میں جکڑا ہوا تھا۔ اُس وقت ایران، ترکی اور افغانستان یورپ کی براہِ راست غلامی سے آزاد تھے، لیکن اُن کی آزادی بھی برائے نام آزادی تھی۔ غلامی کی جکڑبندی اتنی سخت تھی کہ کوئی تصور بھی نہیں کرسکتا تھا کہ چند برسوں میں غلامی کی زنجیریں ٹوٹ جائیں گی اور لگ بھگ پچاس آزاد مسلم مملکتیں وجود میں آجائیں گی۔ نوآبادیاتی دور کے خاتمے کے بعد آزاد ہونے والی ریاستیں ارضی قومیت کی بنیاد پر قائم ہوئی تھیں۔ عالمی طور پر زمین کی بنیاد پر قومی ریاست کا تصور قبول کرلیا گیا تھا، اس لیے مسلمان ریاستیں بھی ارضی قومیت کی بنیاد پر قائم ہوئی تھیں۔ علاقائی اور نسلی بنیادوں پر بننے والی قوموں کے درمیان عقیدے اور ایمان کی بنیاد پر ایک امت کا تصور کبھی بھی نہیں مرا۔ اُس دور میں اقبالؒ ہی کو یہ بھی اعزاز حاصل ہوا کہ انہوں نے ’’امتِ واحدہ‘‘ کے تصور کو سیاسی زبان دی اور عامۃ المسلمین کے دل میں گھر کرجانے والی زبان میں اعلان کیا کہ
خاص ہے ترکیب میں قومِ رسولِ ہاشمی
انہوں نے امت کو بتایا کہ یورپ کی جانب سے آنے والا ’’قومی وطن‘‘ کا تصور عہدِ جدید کا نیا خدا ہے جو مذہب کا کفن ہے۔ ایک اللہ کی بندگی کرنے والے نئے بت کی پوجا نہیں کرسکتے۔ اسی فکر کے نتیجے میں ایک ہندوستانی قومیت کے مقابلے میں دین و مذہب کے نام پر ہندوستان میں دو قوموں کے وجود کا اعلان محمد علی جناح نے کیا، اور اسی جرأت مندانہ اعلان نے محمد علی جناح کو برعظیم ہند کی ملتِ اسلامیہ کا ’’قائداعظم‘‘ بنادیا۔ پاکستان کا قیام ’’وطنی قومیت‘‘ کے تصور کی نفی تھا۔ یہ معجزہ اُس دور میں رونما ہوا جب عالمی سطح پر ’’نیشن اسٹیٹ‘‘ کے تصور کو قبول کرلیا گیا تھا۔ اسی تصور کے تحت قومی ریاست اور سامراجیت کی اصطلاحات وجود پذیر ہوئیں، مسلم قومیت یا ملتِ اسلامیہ کے تصور کو عملی جامہ پہنانے کی وجہ سے نوزائیدہ مملکت ہونے کے باوجود پاکستان کو ممالکِ اسلامیہ کی فکری اور ذہنی قیادت حاصل ہوگئی۔ اس حیثیت کے باوجود کہ تمام کلمہ گو مسلمان ایک امت ہیں، اس تصور کی سیاسی تشکیل کرۂ ارضی پر موجود نہیں ہے، لیکن اپنی قوت، طاقت اور ہیبت کے باوجود غالب اقوامِ یورپ اتحادِ بین المسلمین کے تصور کی سیاسی تعبیر سے ہمیشہ خوفزدہ رہی ہیں۔ اتحادِ بین المسلمین کی جس تحریک کا آغاز مسلم سیاست میں علامہ جمال الدین افغانی نے کیا تھا، اس کو جن زعمائے ملت نے آگے بڑھایا اُن میں سب سے بڑا نام علامہ اقبال کا ہے جنہوں نے اپنی الہامی شاعری سے پورے عالم اسلام کو متعارف کرایا۔ اتحادِ بین المسلمین یعنی مسلمانوں کا اتحاد ہر نسل اور قوم کے مسلمانوں کی دلی آرزو ہے۔ اس تصور کو مسلم قیادت کبھی بھی نظرانداز نہیں کرسکتی تھی۔ یہی تصور تمام مسلم ممالک کے اتحاد پر مشتمل ایک تنظیم کے قیام کا ذریعہ بنا۔ شکستوں، صدموں اور غموں سے چُور امتِ مسلمہ کے لیے وہ دن خوشی کا تھا جب پہلی بار تمام مسلم ممالک کے سربراہان ایک جگہ جمع ہوئے۔ اسلامی سربراہ کانفرنس نامی تنظیم اتحادِ بین المسلمین کے سفر کا ایک اہم سنگِ میل تھا، جسے اقبال کے خواب کی تعبیر سمجھا گیا، جس میں انہوں نے افریقہ سے لے کر ترکستان تک کے تمام مسلمانوں کو اتحاد کے لیے پکارا تھا۔ آج بھی یہ خواب ہر مسلمان کی آنکھ دیکھ رہی ہے۔ بظاہر یہ خواب تعبیر سے محروم ہے لیکن ہر مسلمان یقین رکھتا ہے کہ ایک دن امتِ مسلم اس خواب کی تعبیر پائے گی۔ جب مسلمانوں کے زوال و ادبار کے دور میں قیام پاکستان جیسا معجزہ ظہور پذیر ہوسکتا ہے… غریب، پسماندہ، ترقی پذیر پاکستان واحد مسلمان جوہری طاقت بن سکتا ہے، تو یقینا ایک دن وہ بھی آئے گا جب پورا عالم اسلام ایک بار پھر متحد ہوگا۔ آخر مسلمانوں کے انتشار کا حقیقی سبب کیا ہے؟ اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ علامہ اقبالؒ نے اتحادِ بین المسلمین کی ضرورت کے لیے حرم کی پاسبانی کی اصطلاح استعمال کی ہے۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ مسلمان اپنے مقصدِ وجود کو بھول گیا ہے۔ اُسے انسانیت کے سامنے حق کی شہادت دینی ہے۔ تمام انسان اللہ کے بندے بن کر بھائی بھائی بن جائیں۔ وحدتِ انسانیت، امتِ واحدہ کی آخری منزل ہے۔ اللہ کی بندگی ہی وحدتِ انسانیت کی بنیاد ہے۔ اللہ کے مقابلے میں اپنی حکومت اور اقتدار کا دعویٰ کرنے والے افراد، طبقات، جماعتیں اور قومیں انسانیت کو پھاڑتی ہیں۔ ہر قسم کے ظلم، فساد، انتشار اور بگاڑ کا سبب ہی یہ ہے کہ جو فرد، قوم، گروہ اللہ کی بندگی سے گریز کرتا ہے وہ انسانیت کے دشمن ابلیس کے اغوا کا شکار ہوجاتا ہے۔ آج مسلمان، بالخصوص ان کا حکمران طبقہ عالمی قوتوں بالخصوص امریکہ کا غلام بن چکا ہے۔ عالمی نظام کی حکمرانی کا بنیادی اصول ہی ’’لڑائو اور حکومت کرو‘‘ ہے۔ عہدِ جدید میں اس حکمت عملی کو سائنس بنادیاگیا ہے۔ ہر گروہ کی پشت پناہی امریکہ اور عالمی طاقتیں کررہی ہیں جنہوں نے ہر مسلمان ملک کو داخلی طور پر اور تمام مسلمان ملکوں کو آپس میں لڑایا ہوا ہے۔ اتحادِ بین المسلمین وقت کی آواز ہے، لیکن اس کے لیے مسلمان عوام اور ان کے قائدین کو خاتم الانبیا حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے مشن کو اختیار کرنا ہوگا۔ یعنی اللہ کے دین کو تمام ادیانِ باطلہ پر غالب کردیا جائے، یہی مشن اتحادِ بین المسلمین کی ضمانت ہے۔