دھنک

2180

ارتقا

ستیزہ کار رہا ہے ازل سے تا امروز
چراغِ مصطفویؐ سے شرارِ بو لہبی
حیات شعلہ مزاج و غیور و شور انگیز
سرشت اس کی ہے مشکل کشی، جفا طلبی
سکوتِ شام سے تا نغمہ سحر گاہی
ہزار مرحلہ ہائے فغانِ نیم شبی!
کشاکش زم و گرما، تپ و تراش و خراش
زخاک تیرہ دروں تابہ شیشہ، حلبی!
مقامِ بست و شکست و فشار و سوز و کشید
میان قطرۂ نیسان و آتش عنبی!
اسی کشاکشِ پیہم سے زندہ ہیں اقوام
یہی ہے راز تب و تابِ ملتِ عربی
’’مغاں کہ دانہ انگور آب می سازند
ستارہ می شکنند آفتاب می سازند‘‘
ستیزہ کار: لڑائی کرنے والا۔ شرارِ بولہبی: ابولہب کا شرر۔ ابولہب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک چچا کی کنیت تھی، جو اسلام کی مخالفت میں پیش پیش تھا۔ لہٰذا شرارِ بولہبی سے مراد کفر کا شرارہ۔ زم: سردی۔ آتش عنبی: لفظی معنی انگور کی آگ یعنی شراب۔ قطرۂ نیساں: موسم بہار کی بارش کا قطرہ۔
اس دنیا کی پیدائش سے آج تک کے حالات پر ایک نظر ڈالو، یہی دکھائی دے گا کہ کفر کا شرارہ ایمان کے چراغ سے لڑتا رہا ہے۔ زندگی کا مزاج شعلے کی طرح گرم ہے۔ وہ بڑی ہی غیرت مند اور ہنگامہ پرور ہے۔ اس کی فطرت ہی یہ ہے کہ مشکلات جھیلے اور سختیاں طلب کرے۔ شام کی خاموشی سے صبح کے نغموں تک آدھی رات کی آہ و فغاں کو ہزاروں منزلیں طے کرنی پڑتی ہیں۔ مراد یہ ہے کہ شام ہوتے ہی دنیا پر خاموشی چھا جاتی ہے۔ صبح کے وقت پھر ہنگامے شروع ہوتے ہیں۔ اس مدت میں رات کو آہ و فغاں جاری رہتی ہے۔ گویا خاموشی کو نغمہ بننے کے لیے رات بھر نالہ و فریاد کرنی پڑتی ہے۔
حلب کے آئینے پر نگاہ ڈالو، وہ اس مٹی سے بنتا ہے جس میں کوئی جلا نہیں، بلکہ سراسر سیاہ ہے، لیکن دیکھو اس مٹی کو آئینہ بننے کے لیے سردی گرمی، حرارت اور تراش خراش کی کتنی مصیبتیں برداشت کرنی پڑتی ہیں؟
موسم بہار کا مینہ برستا ہے۔ انگور کی بیل میں تازگی آتی ہے۔ انگور لگتے ہیں، پکتے ہیں، پھر انہیں توڑ کر شراب نکالی جاتی ہے، لیکن غور کرو کہ بارش کا قطرہ گرنے اور شراب بننے کے درمیان باندھنے، توڑنے، نچوڑنے، تپانے اور عرق کھینچنے کے کتنے مقام آتے ہیں؟ یعنی پہلے بیل کو باندھا جاتا ہے۔ پھر انگور توڑے جاتے ہیں۔ پھر ان سے شیرہ نچوڑا جاتا ہے۔ آخر میں بھٹی پر چڑھایا جاتا ہے جب کہیں شراب کھینچی جاتی ہے۔
اسی لگارتار کھینچ تان کی برکت سے قومیں زندہ ہیں۔ ملتِ اسلامیہ میں جو گرمیٔ عمل پائی جاتی ہے اس کا بھید یہی ہے۔
شراب بنانے والے بہ ظاہر انگور کے دانوں سے پانی نکالتے ہیں، لیکن دراصل ستاروں کو توڑ کر سورج بناتے ہیں۔ ستاروں کو انگوروں سے اور شراب کو سورج سے تشبیہ دی ہے۔

اقبال کا تصورِ خودی

اقبال کے افکاروتصورات میں ان کا فلسفۂ خودی سب سے اہم اور نمایاں حیثیت رکھتا ہے۔ خودی کا لفظ ’اَنا‘ یا Ego کا مترادف ہے، مگر اقبال کے نزدیک ’’خودی کا مفہوم احساسِ نفس یا تعیینِ ذات ہے۔‘‘ اس کائنات میں انسان کی حیثیت اور مقام و مرتبہ کیا ہے؟ نیابتِ الٰہی ۔ اقبال کہتے ہیں: اگر انسان اپنی اس حیثیت کو پہچان لے تو یہی عرفانِ نفس اور احساسِ خودی ہے۔ تصورِ خودی کے ذریعے اقبال اس عرفان کو تازہ اور پختہ کرنا چاہتے ہیں کیونکہ ان کے خیال میں اسی عرفان کا استحکام روئے زمین پر انسان کی کامیابی، سربلندی اور عروج کا ضامن ہے۔ اقبال کے زمانے میں ان کے ابنائے وطن خصوصاً مسلمان ذہنی و فکری اور اخلاقی و معاشرتی جمود اور پسماندگی کا شکار تھے۔ سیاسی اعتبار سے نہ صرف ہندوستان بلکہ قریب قریب پورا عالم اسلام اور ایشیا مغرب کے پنجۂ استبداد میں گرفتار تھا۔ افرادِ امت میں خوئے غلامی راسخ ہوچکی تھی اور منفی نوعیت کے تصوف نے (جسے اقبال ’’عجمی تصوف‘‘ کا نام دیتے ہیں) اہلِ وطن کو توکل، قناعت اور تقدیر پرستی سکھا کر انہیں بے دست و پا، تن آسان اور بے عمل بنادیا تھا۔ ان کی تخلیقی صلاحیتیں مُردہ ہوچکی تھیں۔ اس اعتبار سے خودی کا پیغام بیداری اور تحرک کا درس تھا جس کے ذریعے اقبال امت کو جدوجہد کا راستہ دکھا کر، سرگرمِ عمل کرنا چاہتے ہیں۔
اقبال کی شاعری میں خودی کا تصور ابتدا ہی سے کسی نہ کسی شکل میں موجود تھا اور اردو شاعری میں بھی وہ مختلف انداز و اسلوب میں اس کا اظہار کرتے رہے۔ مثلاً
اپنی اصلیت سے ہو آگاہ اے غافل کہ تُو
قطرہ ہے لیکن مثالِ بحرِ بے پایاں بھی ہے
(بانگِ درا، ص193 )
تقریباً اسی زمانے میں، وہ خطبۂ علی گڑھ میں رہ رہ کر اظہارِ افسوس کرتے ہیں کہ مسلم نوجوان کا دماغ مغربی خیالات کی جولاں گاہ بنا ہوا ہے، وہ مغربی دنیا کا غلام ہے اور اس کی روح خودی اور خودداری کے عنصر سے خالی ہے۔ خودی کی غیرمعمولی اہمیت کے پیش نظر اس تصور کو اقبال نے باقاعدہ مرتب و منظم شکل میں 1915ء میں مثنوی ’’اسرارِ خودی‘‘ میں پیش کیا۔ ان کا خیال تھا کہ فرد کی خودی جس قدر مضبوط و مستحکم ہوگی، وہ ظاہر و باطن دونوں اعتبار سے اسی قدر توانا، باوقار اور سربلند ہوگا۔ خودی کی تربیت و استحکام کے لیے انھوں نے تین مراحل کی نشاندہی کی ہے:
-1 اطاعت: یعنی انسان اپنے رب کے بندے اور غلام کی حیثیت سے اس کے سامنے سرِتسلیم خم کرے۔ ان کا خیال ہے کہ باری تعالیٰ کے سامنے سر جھکانے اور اس کی مقرر کردہ شریعت کی پابندی سے انسان کی شخصیت میں پختگی پیدا ہوتی ہے۔
-2 ضبطِ نفس: یعنی دنیاوی خواہش کو قابو میں کرنا۔ اس کے لیے اقبال نے ارکانِ اسلام (نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ) کی پابندی ضروری قرار دی ہے، کیونکہ اسی پابندی سے انسان میں نظم و ضبط، ایثار و قربانی کا جذبہ پیدا ہوتا ہے اور مال و دولت کی محبت بھی ختم ہوتی ہے، جس کے نتیجے میں معاشرے سے اقتصادی ناہمواری کا خاتمہ ہوتا ہے۔
-3 نیابتِ الٰہی: اطاعت اور ضبطِ نفس کے مراحل کے بعد، انسان روئے زمین پر نیابتِ الٰہی کا مقام حاصل کرکے نائبِ حق بن جاتا ہے۔ اس طرح خودشناسی، خداشناسی کا ذریعہ بنتی ہے، یعنی خودی انسان کو خدا تک پہنچاتی ہے اور باری تعالیٰ خودی کو پختہ اور مزید روشن تر کرتے ہیں۔
اقبال کا تصورِ خودی ایک وسیع و بسیط تصور ہے جس کے گونا گوں عناصر میں فقر، قوت، عشق، پیکار اور ایمان و ایقان جیسے لوازم شامل ہیں جو خودی کی ترقی و استحکام کے لیے ناگزیر ہیں۔
(’’اقبال، سوانح اور افکار‘‘… ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی)

حصہ