ملک کی سیاسی صورتِ حال کا تجزیہ یہ ہے کہ بیک وقت تین آپشن پر کام ہورہا ہے۔ (1)جمہوریت کا محاصرہ، (2)تین اتحاد تشکیل دے کر بڑی سیاسی جماعتوں کی راہ روکنا اور ایک معلق پارلیمنٹ وجود میں لانا، اور (3) احتساب کے نام پر ملک میں ایک بار پھر سیاست اور جمہوریت کا بستر گول کرنا۔ یہ ہیں وہ تین آپشن جن کے لیے منصوبہ ساز سر جوڑے بیٹھے ہیں۔ ان تینوں آپشن کی الگ الگ وجوہات اور اپنے اپنے نتائج ہیں۔ ان میں کس آپشن کو چُنا جائے گا، یہ فیصلہ اگلے دو سے تین ماہ کے دوران ہوجائے گا۔ فیصلے میں تاخیر کی کچھ وجوہات اندرونی حالات ہیں اور کچھ سرحدوں کے پار کی صورت حال۔ ملک کے پالیسی ساز نہیں چاہتے کہ پاکستان میں عین اُس وقت جب امریکی صدر ایشیائی ملکوں کے دورے پر ہیں، کوئی ایسی صورتِ حال پیدا کی جائے جس سے امریکی انتظامیہ پاکستان پر کسی بھی بہانے سے دبائو بڑھا دے۔ جب ایشیائی ممالک کا امریکی صدر کا دورہ مکمل ہوجائے گا اُس کے بعد پالیسی ساز بھی سینے سے لگا کر، چھپاکر رکھے ہوئے اپنے پتّے ظاہر کردیں گے۔ ابھی ساری توجہ اس بات پر ہے کہ ایشیائی ملکوں کے دورے پر نکلے ہوئے امریکی صدر ٹرمپ کی ترجیحات، سوچ اور اس خطے کے لیے اُن کے منصوبے کیا ہیں۔ پاکستان میں جمہوریت کے حوالے سے حتمی فیصلہ کرتے ہوئے افغانستان اور بھارت سے متعلق امریکی سوچ بھی مدنظر رکھی جائے گی۔ پارلیمنٹ کی تینوں بڑی سیاسی جماعتیں مسلم لیگ(ن)، پیپلزپارٹی اور تحریک انصاف بھی اسی صورت حال کے مطابق چل رہی ہیں۔ نوازشریف کا ملک میں رہ کر عدالتوں میں پیشی کا فیصلہ بھی عالمی ہمدردی حاصل کرنے کی ایک کوشش ہے۔ پیپلزپارٹی اور تحریک انصاف اپنی اپنی سیاسی قوت اور اہمیت باور کرا رہی ہیں۔ مسلم لیگ (ن) کے اندر ایک گروہ کا خیال ہے کہ اپوزیشن میں رہ اگر یہ دونوں جماعتیں بیک وقت ملک کے اندر اسٹیبلشمنٹ اور امریکہ کا اعتماد حاصل کرلیتی ہیں تو اس سے مسلم لیگ(ن) کے لیے سیاسی لحاظ سے بدترین نتائج پیدا ہوسکتے ہیں، لہٰذا مفاہمت کا راستہ اختیار کرکے ملکی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ بہتر تعلقات قائم کرلیے جائیں اور اس کے بدلے سیاسی میدان پر مسلم لیگ(ن) کا دعویٰ تسلیم کرا لیا جائے۔ نوازشریف ابھی تک کوئی واضح لائن نہیں لے رہے، تاہم وہ اپنی پارٹی میں اس دلیل کے ساتھ ضرورکھڑے ہیں لیکن چاہتے ہیں کہ عدالتی فیصلے کے ذریعے ان کی نااہلی ختم ہوجائے۔ وہ سینے پر چڑھ کر مونگ بھی دَلنا چاہتے ہیں اور اپنے لیے ریلیف بھی مانگ رہے ہیں۔ لیکن دونوں میں سے ایک کام ہوگا۔ اس خطے میں امریکی اپنے اثرات رکھنا چاہتے ہیں تو اس پر اسٹیبلشمنٹ کو کوئی اعتراض نہیں، مگر اس کی آڑ اور امریکی سرپرستی میں بھارت، افغانستان اور اس خطے کے کسی بھی ملک کی سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال نہیں ہونی چاہیے۔
مسلم لیگ(ن)، پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف میں سے کسی نے بھی ابھی تک امریکی صدر کے اس خطے کے دورے کے حوالے سے اپنا نکتہ نظر بیان نہیں کیا ہے، اس کے مقابلے میں اسٹیبلشمنٹ اس وقت نہایت سنجیدگی سے اس بات پر غور کررہی ہے کہ اسلام آباد کو ملکی سالمیت سے جُڑا ہوا یہ ہدف کیسے حاصل کرنا ہے؟ جلال آباد میں پاکستان کے قونصلیٹ کے ایک ملازم نیّر کا قتل بھی ایک امتحان بن کر سامنے آیا ہے۔ عسکری اسٹیبلشمنٹ جائزہ لے رہی ہے کہ کون سی سیاسی جماعت ہے جو پاکستان کی بھارت اور افغانستان کے علاوہ ایران سے جڑی ہوئی سرحدوں کے مسائل کو سمجھ رہی ہے، اور آیا اُس میں یہ صلاحیت ہے کہ وہ قومی مفاد کو اپنے پروں میں لے کر آگے بڑھ سکے! یہی وہ نکتہ ہے جس کی بنیاد پر اسٹیبلشمنٹ کو مستقبل کے سیاسی منظرنامے کا فیصلہ کرنا ہے۔ یہ فیصلہ کرنے سے قبل سیاسی اتحادوں کی تشکیل کے ذریعے قابلِ قبول فیصلوں کے لیے ملک میں ماحول بھی بنایا جارہا ہے۔ پنجاب میں سیاسی اتحاد کے لیے 23 چھوٹی بڑی جماعتوں اور سیاسی شخصیات کو اکٹھا کیا جارہا ہے، اسی طرح سندھ میں گرینڈ الائنس تشکیل دیا گیا ہے۔ ان سب سے کہا گیا ہے کہ جو کام کرکے دکھائے گا وہی مثبت نتائج پائے گا اور حتمی فیصلہ امریکی صدر کے دورے کے بعد ہی ہوگا۔ اسٹیبلشمنٹ کا خیال ہے کہ گزشتہ عام انتخابات کے بعد مسلم لیگ (ن) کی قیادت حکومت حاصل کرنے کے بعد بھارت، افغانستان اور ایران سے جڑے ہوئے ملک کو درپیش مسائل کا کوئی حل تلاش کرنے میں ناکام رہی ہے، بلکہ اس حکومت کی کمزور خارجہ پالیسی کے باعث بھارت نے لائن آف کنٹرول پر اشتعال انگیزی حد سے زیادہ بڑھا دی اور افغانستان بھی من مرضی پر اتر آیا، پاک ایران سرحد پر بھی مسائل کی فصل اگنا شروع ہوگئی اور نوازشریف پارلیمنٹ میں دو تہائی اکثریت کے باوجود اپنی سیاسی قوت اور پارلیمنٹ کو ان مسائل کے حل کے لیے استعمال نہیں کرسکے۔ لہٰذا مستقبل میں کوئی ایسی سیاسی قوت چاہیے جو ان محاذوں پر اسٹیبلشمنٹ کی مکمل دستِ راست بن سکے۔ پیپلزپارٹی اور تحریک انصاف کے مقابلے میں مسلم لیگ(ن) میں یہ صلاحیت ابھی بھی تسلیم کی جارہی ہے، اگرچہ کچھ وجوہات کی بنا پر نوازشریف کے بارے میں رویّے میں قدرے نرمی آسکتی ہے لیکن یہ فیصلہ بھی اپنی جگہ برقرار ہے کہ وہ اب اسٹیبلشمنٹ کے لیے کسی بھی طرح قابلِ اعتبار نہیں رہے۔ ان کے بجائے شہبازشریف اور چودھری نثار علی خان اگر مسلم لیگ (ن) کی قیادت سنبھال لیتے ہیں اور نوازشریف بھی انہیں کام کرنے کا موقع فراہم کرتے ہیں تو پالیسی سازوں کے لیے پہلا آپشن مسلم لیگ(ن) ہی ہوگی۔ اس کے بدلے میں مستقبل میں امکان ہے کہ نوازشریف کو وہ سب کچھ مل جائے گا جو اُن کے ذہن میں ہے۔ اگر نوازشریف اس کے لیے تیار نہ ہوئے اور مزاحمت جاری رکھی تو پھر کسی کے ہاتھ کچھ نہیں لگے گا، پھر صرف جھاڑو پھرے گی۔
پیپلزپارٹی اور تحریک انصاف کی سیاسی حکمت عملی اگر ذہن میں رہے تو آج کا سیاسی منظرنامہ یہ ہے کہ حکومت کے مقابلے میں اپوزیشن جماعتیں بری طرح تقسیم ہیں۔ یہ سیاسی حقیقت ہے کہ جب بھی اپوزیشن تقسیم ہوتی ہے تو حکمران ہی فائدے میں ہوتے ہیں۔ مسلم لیگ(ن) اس کا فائدہ اٹھا رہی ہے۔ اگر اپوزیشن متحد ہوتی تو نوازشریف کے جانشین وزیراعظم شاہد خاقان عباسی اس پارلیمنٹ سے انتخابی قانون میں ترمیم کراکے نوازشریف کو دوبارہ پارٹی کا صدر نہیں بنوا سکتے تھے۔ آئندہ بھی یہی صورتِ حال رہے گی۔ اپوزیشن منتشر رہی تو سارے آپشن نوازشریف کے ہاتھ میں رہیں گے۔ پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ(ن) دونوں کا ماضی گواہ ہے کہ ان دونوں جماعتوں نے ایک دوسرے کی مخالفت تو کی لیکن ایک دوسرے کی حکومتوں کے خلاف اپوزیشن کو کبھی متحد نہیں ہونے دیا۔ اب بھی یہی منظرنامہ ہمارے سامنے ہے۔ مسلم لیگ(ن) اور پیپلزپارٹی دونوں اپنی سیاسی بقاء کے لیے جو کوشش بھی ہوسکتی ہے، کررہی ہیں، لیکن ایک دوسرے کو گرانے کے لیے شہ مات دینے کو تیار نہیں ہیں، البتہ اقتدار میں آنے کے لیے دونوں میں دوڑ لگی ہوئی ہے، اسی لیے پیپلزپارٹی کی قیادت ہر قسم کی یقین دہانی کرا رہی ہے اور پارلیمنٹ میں آکر حکومت پا لینے کے بعد بھی جس محاذ پر اسٹیبلشمنٹ انگلی رکھے گی وہ محاذ اس کے حوالے کرنے کو تیار ہے۔ لیکن دوسری جانب سے ابھی کوئی فیصلہ نہیں ہوا کہ تحریک انصاف سمیت ملک کی دیگر سیاسی قوتیں پیپلزپارٹی کو قبول نہیں کررہی ہیں۔ پیپلز پارٹی چاہتی ہے کہ عمران خان کے ساتھ کوئی سخت رویہ نہ رکھا جائے، لیکن تحریک انصاف کا فیصلہ کچھ اور ہے، وہ ہر قیمت پر تنہا پرواز کرنا چاہتی ہے لیکن اُس کے پاس ملک کے اندرونی اور بیرونی مسائل سے نبردآزما ہونے کے لیے کوئی ٹیم ہی نہیں۔ اس ساری صورتِ حال کا نتیجہ یہ ہوگا کہ انتخابات ہونے کی صورت میں ایک معلق پارلیمنٹ اور قومی حکومت وجود میں آئے گی۔ ان دنوں ملک کی سیاسی جماعتوں اور تشکیل پانے والے اتحادوں کے جو جلسے ہورہے ہیں یہ سب کچھ اس لیے ہے کہ انہیں وقت دیا جارہا ہے کہ جو جتنا اچھا کام کرے گا اسے اتنے ہی اچھے نمبر ملیں گے۔
اسلام آباد: پاک امریکہ مذاکرات کی بساط
اسلام آباد میں آج کل اگرچہ فضا میں اسموگ چھائی ہوئی ہے لیکن اسی دھند میں پاک امریکہ مذاکرات کی بساط بھی بچھی ہوئی ہے۔ پاک امریکہ ٹریک ٹو مذاکرات کے پہلے دور میں پاکستان اور امریکہ افغانستان میں امن کے قیام کے حوالے سے اپنے اپنے مؤقف پر قائم ہیں۔ ڈائیلاگ میں دونوں ملکوں نے افغانستان میں امن کے قیام کی کوششوں کا جائزہ لیا ہے اور امریکہ نے ایک بار پھر مطالبہ کیا ہے کہ حقانی نیٹ ورک کے خلاف کارروائی کی جائے، جواب میں پاکستان نے کہا کہ طالبان سے مذاکرات کے لیے پاکستان سے جو توقعات لگائی جارہی ہیں وہ پوری نہیں کی جاسکتیں، کیونکہ طالبان پر پاکستان کا کوئی اثر رسوخ نہیں ہے۔ امریکی وفد کی جانب سے امریکی سفیر ڈیوڈ ہیل نے مطالبہ کیا ہے کہ پاکستان حقانی نیٹ ورک کے خلاف کارروائی کرے کیونکہ اس کی وجہ سے کابل میں امن قائم نہیں ہورہا ہے۔ پاکستان کی جانب سے امریکہ کے ساتھ مذاکرات میں وزیر خارجہ خواجہ آصف کی معاونت دفتر خارجہ کے سینئر سفارت کاروں نے کی۔ پاکستان نے یہ مؤقف بھی اختیار کیا ہے کہ امریکہ اسلام آباد پر دبائو بڑھانے کے بجائے کابل حکومت پر زور دے کہ وہ امن کے لیے کابل میں ہدف حاصل کرے، ناکامیوں کا ذمہ دار پاکستان کو قرار نہ دیا جائے۔ پاکستان نے بہت واضح انداز میں کہا کہ اسلام آباد کو افغانستان میں بھارت کے کردار پر تشویش ہے اور یہ تشویش رہے گی۔
مردم شماری کے نتائج
مردم شماری کے نتائج کا۔ حالیہ مردم شماری کے بعد قومی اسمبلی کی نشستیں تو برقرار رکھی جارہی ہیں لیکن پنجاب کی 9 نشستیں کم ہوگئی ہیں۔ نئی انتخابی حلقہ بندیوں پر پارلیمانی لیڈروں کے حالیہ اجلاس میں مکمل اتفاقِ رائے ہوا، لیکن اب پھر عدم اتفاق کے بادل چھائے ہوئے ہیں۔ پیپلز پارٹی، تحریک انصاف اور ایم کیوایم اعتراضات اٹھا رہی ہیں۔ پیپلز پارٹی چاہتی ہے کہ مشترکہ مفادات کونسل میں پہلے فیصلہ ہونا چاہیے، اس کے بغیر یہ بل غیرآئینی ہے۔ پارلیمنٹ کی دیگر سیاسی جماعتیں پہلے اجلاس میں ہونے والے اتفاقِ رائے پر کھڑی ہیں۔ الیکشن کمیشن کا مؤقف ہے کہ 10 نومبر تک معاملہ حل کرلیا جائے تو ٹھیک، ورنہ انتخابات میں تاخیر ہوجائے گی۔ ایسا معلوم ہورہا ہے کہ یہ معاملہ صدرِ پاکستان کی صوابدید پر چھوڑ دیا جائے گا۔