وطنِ عزیز خصوصاً پنجاب اور اس کے بھی میدانی علاقے ڈیڑھ دو ہفتے سے زہریلی دھند (اسموگ) کی لپیٹ میں ہیں۔ لوگوں کا سانس تک لینا دشوار ہے۔ سارا سارا دن سورج کی شکل نظر نہیں آتی، جس سے حدِّ نگاہ دن کے اوقات میں بھی بہت کم ہوجاتی ہے۔ یوں معمولاتِ زندگی درہم برہم ہوکر رہ گئے ہیں۔ سڑکوں پر حادثات میں بے پناہ اضافہ ہوگیا ہے۔ موٹرویز کو بار بار ٹریفک کے لیے بند کیے جانے کے باوجود اِن دنوں میں حادثات کی تعداد میں بہت زیادہ اضافہ ہوگیا ہے جن میں بیسیوں افراد جاں بحق اور سیکڑوں زخمی ہو چکے ہیں۔ فضائی سفر بھی بری طرح متاثر ہوا ہے۔ پروازوں کی منسوخی اور ان کے شیڈول میں تبدیلی مجبوری اور معمول بن گیا ہے۔ ریل گاڑیوں کی آمدورفت پر بھی اس صورتِ حال کے خاصے منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں اور پہلے سے وقت کی پابندی نہ کرنے کی عادی مسافر اور مال گاڑیاں اب مزید تاخیر کا شکار ہورہی ہیں۔ غرضیکہ شہریوں کو آمد و رفت اور سامان کی نقل و حمل میں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑرہا ہے، اور روزمرہ کے معاملات چلانا دشوار سے دشوار تر ہوتا جا رہا ہے، اور زندگی مفلوج ہوکر رہ گئی ہے۔
دوسری جانب اس زہریلی دھند کے باعث لوگوں کی ذہنی و جسمانی صحت پر بھی نہایت مضر اثرات مرتب ہورہے ہیں۔ ناک، کان، گلے، سانس اور آنکھوں کے امراض تیزی سے پھیل رہے ہیں اور فضائی آلودگی کے متاثرہ مریضوں کی ہسپتالوں میں قطاریں لگی ہیں۔ ماہرینِ طب کا کہنا ہے کہ اسموگ انسانوں ہی نہیں تمام حیوانوں، جانوروں اور درختوں کے لیے بھی نقصان دہ ہے اور اس سے جان لیوا امراض کا خطرہ بہت بڑھ جاتا ہے۔ شدید اسموگ سورج کی شعاعوں کی سطح زمین تک پہنچنے کی شرح بڑی حد تک کم کردیتی ہے جس سے وٹامن ڈی جیسے اہم قدرتی عناصر کی کمی واقع ہونے لگتی ہے جو امراض کا باعث بنتی ہے۔ اسموگ کے اثرات سے آنکھوں میں خارش، کھانسی، گلے میں خراش، سینے کے امراض اور جِلد کے مسائل کے ساتھ ساتھ نمونیا، نزلہ، زکام اور پھیپھڑے کے جان لیوا امراض جنم لیتے ہیں۔ بوڑھے، بچے اور نظامِ تنفس کے نقائص میں مبتلا لوگ ان امراض کے زیادہ آسانی سے شکار ہوتے ہیں، خصوصاً دمہ جیسے مرض میں مبتلا لوگوں میں دورے کے خطرات بہت بڑھ جاتے ہیں۔ اسموگ کے کم و بیش ان سارے اثرات سے متاثرہ مریضوں سے آج کل ہسپتال بھرے ہوئے ہیں۔ جب کہ حکومت کی جانب سے ابھی تک ہسپتالوں میں اسموگ کائونٹر تک بنانے کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی۔
اسموگ کے اس عذاب نے کسی ایک شعبۂ حیات نہیں بلکہ پوری معاشرتی زندگی کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ حد یہ ہے کہ چشمہ کے ایٹمی بجلی گھر سمیت مجموعی طور پر ڈیڑھ درجن سے زائد بجلی گھر اسموگ کے باعث بند ہوچکے ہیں اور بجلی کی پیداوار میں سات ہزار میگاواٹ کے قریب کمی آگئی ہے جس سے پہلے سے جاری لوڈشیڈنگ کا دورانیہ ایک بار پھر بہت بڑھ گیا ہے اور لاہور جیسے شہر میں ہر گھنٹے بعد بجلی کی بندش معمول بن گیا ہے۔ جب کہ شہر کے بعض حصوں میں سارا سارا دن بجلی بند رکھی جاتی ہے۔ دیہات میں اس سے بھی برا حال ہے، جہاں بجلی کی بندش کا دورانیہ 18 سے 20 گھنٹے تک پھیل چکا ہے۔ بجلی کے اس شدید بحران سے نبرد آزما ہونے کے لیے حکومت کی جانب سے وزیراعظم کے حکم پر بند کیے گئے فرنس آئل پاور پلانٹس ایک بار پھر چلانے کا فیصلہ کیے جانے کی اطلاعات ہیں۔ یہی نہیں، مرے کو مارے شاہ مدار… سوئی گیس کا محکمہ بھی اس موقع پر عوام کی مشکلات میں اضافہ کرنے میں پیچھے نہیں رہا اور سردی کا موسم اگرچہ ابھی شروع نہیں ہوا مگر سوئی گیس کمپنیوں نے گیس کی فراہمی میں 500 ملین کیوبک کی کمی کردی ہے، جس کا نتیجہ یہ ہے کہ اسموگ کے خوف سے گھروں میں دبکے بیٹھے شہریوں کو چائے پکانے کے لیے گیس تک دستیاب نہیں۔
پاکستان ایک زرعی ملک ہے اور یہاں کی معیشت کا بہت زیادہ انحصار زراعت پر ہے۔ ماہرین کے مطابق اسموگ نے جہاں شہریوں کی صحت، نقل و حرکت اور توانائی کے شعبوں کو شدید نقصان پہنچایا ہے وہیں زراعت کا شعبہ بھی اس سے محفوظ نہیں، اور کھڑی فصلوں خصوصاً سبزیوں اور پھلوں پر اس کے ضرر رساں اثرات کا شدید خطرہ ہے، اور خصوصاً اس صورت میں جب کہ حکومت زراعت کو محفوظ کرنے کے لیے اقدامات پر بالکل توجہ نہیں دے رہی۔
سوال یہ ہے کہ یہ اسموگ ہے کیا بلا جس کا چند سال قبل تک اہلِ پاکستان نے نام بھی نہیں سنا تھا؟ انگریزی زبان کا یہ لفظ دو الفاظ اسموک یعنی دھواں اور فوگ یعنی دھند کا مجموعہ ہے۔ یعنی دھویں اور دھندکا امتزاج اسموگ کہلاتا ہے۔ ماہرین کے مطابق زمین سے فضا میں جانے والی آلودگی کے ذرات دھند کے ساتھ مل کر اسموگ کی شکل اختیار کرتے ہیں۔ اس طرح کی فضائی آلودگی نائٹروجن آکسائیڈ، سلفر آکسائیڈ، اور کم دکھائی دینے والی آلودگی مثلاً کاربن مونو آکسائیڈ، کلورو فلورو کاربن وغیرہ پر مشتمل ہوتی ہے۔ جب فضا آلودہ ہو اور وہ گیسیں جو اسموگ پیدا کرتی ہیں، ہوا میں خارج ہوں تو سورج کی روشنی اور اس کی حرارت ان اجزا اور گیسوں سے ردعمل کا اظہار ماحول میں اسموگ کی شکل میں کرتی ہے، جس کی بڑی وجہ آلودگی ہی ہوتی ہے اور عام طور پر سورج کی روشنی، زیادہ درجہ حرارت اور ٹھیری ہوئی ہوا کے نتیجے میں یہ شکل اختیار کرتی ہے۔ سردیوں کے موسم میں جب ہوا کے چلنے کی رفتار بہت کم ہوجاتی ہے تو اس سے دھند اور دھویں وغیرہ کی آلودگی کو فضا میں ٹھیرنے میں مدد ملتی ہے جس سے اسموگ تشکیل پاتی ہے۔ اس وقت پاکستان خصوصاً پنجاب کے علاقوں میں اسموگ کی بڑی وجہ بھارتی پنجاب کے سرحدی علاقوں میں جلائے جانے والے دھان کی فصل کے مڈ (جڑیں)، صنعتی اداروں سے اٹھنے والا دھواں، سڑکوں پر دوڑنے والی گاڑیوں سے خارج ہونے والی گیس اور ترقیاتی سرگرمیوں کے نام پر کھدائی اور توڑ پھوڑ کے باعث اڑنے والا گرد و غبار، بڑی تعداد میں درختوں کی کٹائی، اور اس ذیل میں آنے والی دیگر سرگرمیاں بتائی جاتی ہیں… اور سب سے اہم بارش کا نہ ہونا، جس کے نتیجے میں ان تمام اسباب سے پیدا ہونے والی فضائی آلودگی قدرتی طور پر زمین میں جذب ہوتی ہے، مگر بارش نہ ہونے سے یہ فضا میں معلق رہتی اور اسموگ جیسے مسائل کا سبب بنتی ہے۔
علماء کرام نے بجا طور پر اسموگ کو عذاب اور آسمانی آفت قرار دیا ہے اور اس سے نجات کے لیے قوم کو توبہ استغفار اور نمازِ استسقاء کی ادائیگی کا مشورہ دیا ہے۔ محکمہ ماحولیات اور موسمیات کے تجزیوں اور پیش گوئیوں کے مطابق اگرچہ ابھی کئی ہفتوں تک بارش کے آثار نہیں ہیں اور یوں اسموگ نامی اس بلا کے کم از کم دو ماہ تک مزید قوم پر مسلط رہنے کے امکانات ظاہر کیے جا رہے ہیں، مگر اس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں کہ سچے دل سے کی گئی توبہ اور گناہوں کی معافی طلبی سے بڑے بڑے مصائب و آلام سے جان بخشی کا راستہ کھل سکتا ہے اور نمازِ استسقاء اگر خلوصِ نیت اور یقینِ کامل کے ساتھ ادا کی جائے تو اللہ تعالیٰ کی رحمت کو متوجہ ہوتے اور بارانِ رحمت کے نزول میں بھی دیر نہیں لگتی۔ مگر عملی حقیقت یہ بھی ہے کہ توبہ اور بداعمالیوں کے ترک کے لیے نہ تو ہماری قوم آمادہ دکھائی دیتی ہے اور نہ ہی حکمران اس جانب متوجہ ہونے پر تیار ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ علماء کے توجہ دلانے کے باوجود قوم اور اس کے حکمرانوں کا اس ضمن میں رویہ سرد مہری پر مبنی اور عدم توجہی کا مظہر ہے، اور وہ ایسی باتوں کو افکارِ ازکارِ رفتہ سے زیادہ اہمیت دینے پر تیار نظر نہیں آتے، جس کا نتیجہ بھی ظاہر ہے۔
تاریخ کے تناظر میں دیکھا جائے تو یہ حقیقت اظہر من الشمس ہے کہ اسموگ کی شکل میں سامنے آنے والی خوفناک اور خطرناک ماحولیاتی آلودگی دراصل ہمارے اربابِ اقتدار و اختیار کی غفلت، لاپروائی، نااہلیوں اور غلط پالیسیوں کا نتیجہ ہے۔ نصف صدی پہلے تک ملک میں اس قسم کی خوفناک آلودگی کا تصور تک موجود نہیں تھا حالانکہ اُس وقت نہ تو آج کی طرح کے ماحولیاتی آلودگی کی روک تھام کے قوانین تھے اور نہ ہی اس مقصد کے لیے سرکاری سطح پر کوئی محکمہ موجود تھا۔ کیا یہ حقیقت نہیں کہ ’مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی‘… ان محکموں کے افسران اور اہلکاروں نے اپنے لیے مراعات اور جائز و ناجائز آمدنی کے مواقع تو پیدا کیے مگر اپنے فرائضِ منصبی کی ادائیگی کی جانب قطعاً توجہ نہیں دی۔ اسموگ کی آفت اِس سال اچانک اور ناگہانی طور پر نازل نہیں ہوئی، قوم کو پچھلے سال بھی اس کا سامنا کرنا پڑا تھا، اس لیے یہ فطری اور لازمی امر تھا کہ متعلقہ محکمے اور حکام اِس سال قبل از وقت اس سے بچائو کے لیے تدابیر اور مؤثر اقدامات کرتے۔ مگر ایسا نہیں کیا گیا، جس کا نتیجہ پوری قوم کو بھگتنا پڑرہا ہے۔ وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہبازشریف نے پیر کے روز اس سلسلے میں منعقدہ اجلاس میں متعلقہ محکموں کے افسران کی سرزنش کی ہے کہ انہوں نے اسموگ کی روک تھام کے لیے بروقت اقدامات کیوں نہیں کیے، اور وہ مصیبت سر پر نازل ہونے کے بعد کیوں جاگے ہیں! وزیراعلیٰ کا افسران پر یہ غصہ اور برہمی بجا، مگر سوال یہ بھی تو ہے کہ صوبے کے حاکم اعلیٰ یا بقول خود خادم اعلیٰ خود بھی تو اب تک سوئے ہی رہے ہیں۔ اگر وہ خود بروقت اس جانب متوجہ ہوجاتے تو افسران بھی خوابِ خرگوش میں مگن نہ پائے جاتے۔
دورانِ اسموگ احتیاطی تدابیر
٭ روزانہ زیادہ سے زیادہ پانی اور گرم چائے پئیں۔
٭ زیادہ سے زیادہ وقت گھروں میں گزاریں۔ بازاروں، گلیوں یا سڑکوں پر زیادہ چلنے پھرنے سے پرہیز کریں۔
٭ گھروں کی کھڑکیاں اور دروازے بند رکھیں۔
٭ گھروں کی صفائی کے دوران جھاڑو کے بجائے گیلا کپڑا استعمال کریں۔
٭ گھر سے باہر نکلتے وقت چشمے کا استعمال کریں اور سفر کے دوران یا بعد میں آنکھوں کو پانی سے اچھی طرح دھوئیں۔
٭ ہلکا اور ڈھیلا ڈھالا لباس پہنیں، سر پر ٹوپی یا رومال ضرور رکھیں اور ناک و منہ کو ماسک یا رومال سے ڈھانپ کر رکھیں۔
٭ بہت زیادہ ٹھنڈے مشروبات پینے سے اجتناب برتیں۔
٭ گھروں کے باہر مٹی والی جگہ پر پانی کا چھڑکائو کریں۔
٭ تعمیراتی جگہوں اور کوڑا کرکٹ والی متعفن جگہوں پر بھی توجہ دیں تاکہ دھول یا مٹی وغیرہ نہ اڑے۔
٭ اپنی گاڑیوںکا معائنہ کروائیں تاکہ دھویں کی وجہ سے ماحول میں آلودگی کم سے کم ہو اور زیادہ سفر کرنے سے پرہیز کریں۔
٭ بچوں اور بزرگوں پر خصوصی توجہ دیں اور ان کی صحت کا خاص خیال رکھیں۔
٭ اسموگ میں نکلنا ضروری ہو تو گنجان آباد علاقوں میں جانے سے گریز کریں جہاں ٹریفک جام میں پھنسنے کا امکان ہو، سڑک پر پھنسنے کے نتیجے میں زہریلے دھویںسے بچنے کے لیے گاڑی کی کھڑکیاں بند رکھیں۔
٭ سگریٹ نوشی ویسے ہی کوئی اچھی عادت نہیں تاہم اسموگ کے دوران تو اس سے مکمل گریز کرنا ہی بہتر ہوتا ہے۔
٭ باہر سے گھر واپسی یا دفتر پہنچنے پر اپنے ہاتھ، چہرے اور جسم کے کھلے حصوں کو دھو لیں۔