آغا نورمحمد پٹھان
ہمارے مہربان دوست اور محسن غلام ربانی آگرو کا شمار پاکستانی ادب کے اُن سپوتوں میں ہوتا ہے جن کی شبانہ روز یہی کوشش رہی کہ ادب اور ادبی اداروں کے ذریعے پاکستان کے معاشرے کو ایک مہذب اور باکمال معاشرہ بنایا جائے۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے اپنی تمام زندگی ادب اور ادبی اداروں کی خدمت میں گزاری اور اپنی تمام تر توانائیاں اور مہمان نوازیاں اس کام کے لیے صرف کیں۔ ان کی ادبی زندگی کا آغاز پاکستان بننے کے بعد 1955ء میں افسانہ نگاری سے ہوتا ہے۔ نوجوانی کے دنوں سے قلم ہاتھ میں اٹھایا اور سندھی افسانے لکھنے کا آغاز کیا، اور آگے بڑھتے رہے اور ادبی میدان میں چھا گئے۔
یہ میری طالب علمی کا زمانہ تھا، اپنے آبائی شہر شکارپور سے گریجویشن مکمل کرنے کے بعد جب سندھ یونیورسٹی میں پڑھنے کے لیے آیا تو اُس وقت سندھ کے بڑے شاعر شیخ ایاز وائس چانسلر اور غلام ربانی آگرو پرووائس چانسلر تھے۔ شیخ ایاز کا تعلق بھی شکارپور شہر سے تھا، اس لیے میری اُن سے شناسائی پہلے ہی تھی۔ بعد میں یونیورسٹی میں طالب علمی کے زمانے میں آگرو صاحب سے شناسائی اُن کے ایک عزیز دوست علی اکبر مرحوم کی معرفت ہوئی اور آگے چل کر دوستی میں تبدیل ہوگئی۔ یونیورسٹی کے بعد وہ پھر سندھی ادبی بورڈ میں بحیثیت سیکرٹری واپس آئے اور بعد میں اکادمی ادبیات پاکستان کے ڈائریکٹر جنرل اور چیئرمین بنے۔
سندھی ادبی بورڈ کی ذمے داری کے دوران برصغیر ہندو پاک کے ممتاز ادیبوں سے اُن کے گہرے مراسم تو تھے ہی، کیونکہ پیر حسام الدین راشدی کے ادبی وارث میری نظر میں غلام ربانی آگرو تھے۔ جس طرح سندھ میں انجمن ترقی اردو کی بنیاد ڈالنے میں پیر صاحب کا ایک کلیدی کردار رہا ہے، اس کی مزید آبیاری آگرو صاحب نے جاری رکھی۔
انہوں نے اپنے ادبی سفر کا آغاز1955ء سے کیا۔ ان کی کہانیوں ’’شیدو دھاڑیل‘‘، ’’کالی اور سرخ لکیریں‘‘، ’’ھوندا سے حیات‘‘ (وہ زندہ رہیں گے)،’’الاجھری مہ شال غریبن جی جھونپڑی‘‘ (خدا نہ کرے کہ غریبوں کی جھونپڑی مسمار ہو)، ’’نیٹھ بہار ایندو‘‘ (بالآخر موسمِ بہار آئے گا)۔ اس کے بعد ’’آبِ حیات‘‘، ’’برے اس بھنبھور میں‘‘ کا سلسلہ 1958ء تک جاری رہا۔ جمال ابڑو، غلام ربانی آگرو، سراج میمن، حفیظ شیخ اور ع۔ ق شیخ جدید سندھی افسانے کی بنیاد رکھنے والے افسانہ نگار سمجھے جاتے ہیں۔ ان مختصر افسانوں کو پڑھنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ بیسویں صدی کا سندھ کس طرح تھا۔ اس کا عکس ان کہانیوں میں نظر آتا ہے۔ جب زرعی زمیندار اپنے آپ کو بادشاہ اور ہاری (کسان) کو غلام سمجھتا تھا، اس ماحول میں سندھ کے دیہات سے تعلق رکھنے والے عام لوگوں کی مظلومیت غلام ربانی آگرو کی کہانیوں میں نظر آئے گی۔ ان کی یہ کہانیاں انگریزی، جرمن، چینی، ہندی اور روسی زبانوں میں ترجمہ ہوچکی ہیں اور ان افسانوں کا مجموعہ ’’آبِ حیات‘‘ کے عنوان سے 1960ء میں زندگی پبلی کیشن حیدرآباد کی طرف سے حمید سندھی نے شائع کیا۔ پیر حسام الدین راشدی 1956ء میں ایک دوست کو خط میں لکھتے ہیں کہ سندھ کی ادبی دنیا میں ہمارے غلام ربانی آگرو ایک درخشاں ستارے کی مانند ابھریں گے۔
مجھے یاد ہے کہ سندھی ادبی بورڈ کی دعوت پر کئی بار انہوں نے جرمن اسکالر این میری شمل، سید سلیمان ندوی اور علامہ شبلی نعمانی کے جانشین سید صباح الدین عبدالرحمن جو اردو ادب کے بڑے اسکالر اور دارالمصنفین اعظم گڑھ کے سربراہ تھے، کو بلایا ہے۔ اور ڈاکٹر این میری شمل جنہوں نے علامہ اقبال اور سندھ کے صوفی شعرا اور مولانا رومی پر بڑا کام کیا ہے جب تک غلام ربانی آگرو اکادمی ادبیات میں رہے وہ تقریباً ہر سال پاکستان آتی رہیں، اور مجھے یہ اعزاز حاصل ہے کہ سندھ میں اکیڈمی کی طرف سے اُن کے دورے کے انتظامات کرنا میری ذمے داری رہی۔ ڈاکٹر این میری شمل کا پیر حسام الدین راشدی سے گہرا دلی تعلق رہا ہے اور انہوں نے پیر صاحب کی وفات کے بعد تحریری وصیت کی تھی کہ مجھے مکلی کے قبرستان میں دفن کیا جائے۔ ڈاکٹر این میری شمل کا پیر صاحب کے بعد آگرو صاحب سے بڑا علمی تعلق قائم رہا جو پیر حسام الدین راشدی کے ورثے کا تسلسل تھا۔ وہ سندھ میں اپنے آپ کو پُرسکون محسوس کرتی تھیں۔ 13مارچ 1961ء کو پیر کے دن گڑھی یاسین میں ڈاکٹر ارنیسٹ ٹرمپ کے یوم ولادت کی تقریب میں اُس وقت کے سندھ اسمبلی کے اسپیکر آغا بدرالدین درانی (موجودہ اسپیکر آغا سراج درانی کے تایا) کی دعوت پر گئی تھیں۔ بعد میں غلام ربانی آگرو ان کو لسبیلہ کے سنگلاخ پہاڑوں کے درمیان ’’ہنگلاج‘‘ بھی لے گئے تھے۔ اُس زمانے میں کوسٹل ہائی وے کا وجود نہیں تھا اور آگرو صاحب نے ’’ہنگلاج میں چائے‘‘ کے عنوان سے بڑا دلچسپ سفرنامہ لکھا ہے۔ غلام ربانی آگرو کو ان کی تحریری وصیت جرمنی کے سفیر کی معرفت ملی، اور سفیر صاحب حیدرآباد دکن کے نواب کے ساتھ مل کر کراچی آئے اور مکلی میں پیر حسام الدین راشدی، شیخ عبدالمجید سندھی اور مخدوم محمد ہاشم ٹھٹھوی کے قریب انگریزی میں لکھی ہوئی اس تحریر کا پتھر وہاں آویزاں کروایا۔ اکادمی ادبیات پاکستان میں پاکستان کے صوفی شعرا کا کلام غلام ربانی آگرو نے پاکستان کی دیگر زبانوں میں ترجمہ کرنے کی اسکیم تیار کروائی جس میں شاہ عبداللطیف بھٹائی، رحمان بابا، بلھے شاہ، خواجہ غلام فرید، خوشحال خان خٹک اور مست توکلی کا کلام شامل کیا گیا۔ ان میں شاہ عبداللطیف بھٹائی کے کلام کا نثری اردو ترجمہ ڈاکٹر ایاز قادری اور ڈاکٹر وقار احمد زبیری نے مشترکہ طور پر کیا اور اس کی کمپوزنگ کی نگرانی کا اعزاز مجھے حاصل ہوا تھا۔ اور اس کے بعد بلوچی، سرائیکی اور پشتو زبانوں میں اکادمی کی طرف سے ترجمے ابھی تک اشاعت کے منتظر ہیں۔ ان کے زمانے میں ہی کراچی، لاہور، پشاور اور کوئٹہ میں اکادمی کے صوبائی دفاتر قائم کیے گئے۔ پاکستان کے دیگر ادبی اداروں کی مالی معاونت کے لیے اکادمی ادبیات کی طرف سے ادبی کتابوں کی اشاعت کے لیے خصوصی مالی امداد کا سلسلہ شروع کیا گیا جس میں انجمن ترقی اردو کراچی کے لیے آج سے 30 سال پہلے جمیل الدین عالی اور نورالحسن جعفری مرحوم کے کہنے پر سب سے بڑی رقم 15لاکھ روپے سالانہ منظور کروائی گئی۔ انہوں نے اپنی زندگی کے پچاس سال سندھی ادبی بورڈ میں صرف کیے اور اپنے ان مٹ نقوش چھوڑے۔ انہوں نے بحیثیت ایڈیٹر ’’سہ ماہی مہران‘‘ اور بچوں کے ماہنامے ’’گل پُھل‘‘ کو ایڈٹ بھی کیا اور کئی کتابوں کے مصنف بھی رہے جن میں ’’جھڑاگل گلاب جا‘‘، ’’آب حیات‘‘، ’’سندھ جابر بحر پہاڑ‘‘، ماڑھوں شہر بھنبھور جا‘‘، ’’سندھی ادب تی ترقی پسند تحریک جو اثر‘‘، ’’خط غبار‘‘ (خطوط کا مجموعہ)، ’’بھارت میں اردو: ایک جائزہ‘‘، ’’سندھ میں پکھین جو شکار‘‘ شامل ہیں۔ ان کی مقبول کتاب ’’جھڑاگل گلاب جا‘‘ کے عنوان سے پہلی کتاب کی کمپوزنگ اور اشاعت میری نگرانی میں ہوئی۔ مجھے اور برادرم قاضی جاوید کو اکادمی ادبیات میں لانے میں ان کی نیک خواہشوں اور کوششوں کا ہاتھ تھا۔ میری نوخیزی کی عمر کے 30 سال ان کی صحبت میں گزرے اور میرے ذہن پر لگے ہوئے کئی بند تالے انہوں نے کھولے اور نئے گوشوں سے متعارف کرایا۔ 18 جنوری 2010ء کو ہلالِ احمر اسپتال لطیف آباد، حیدرآباد میں سندھی زبان کے اس دلفریب نثر نگار نے آخری سانس لی اور خاموش ہوگئے۔
(بشکریہ: روزنامہ ایکسپریس)