جامی چانڈیو ؍ ترجمہ: اسامہ تنولی
زیرنظرکالم معروف سندھی دانشور اور کالم نگار جامی چانڈیو نے روزنامہ ’’کاوش‘‘ حیدرآباد کے ادارتی صفحے پر بروز منگل 31 اکتوبر 2017ء کو گزشتہ دنوں کراچی میں منعقدہ ’’دوسرے سندھ لٹریچر فیسٹیول‘‘ کے حوالے سے لکھا ہے۔ اس کالم کے مندرجات سے اختلاف کے باوجود سندھ کے ایک مؤثر حلقے کی نمائندہ تحریر کے طور پر اس کا ترجمہ قارئین کی معلومات اور دلچسپی کے لیے پیش کیا جارہا ہے۔
’’سندھ میں ایک عام تاثر یہ ہے کہ سندھی سماج میں اب مزاحمت کا جوہر باقی نہیں رہا ہے۔ میں اس خیال سے ہرگز متفق نہیں ہوں، بلکہ اس کے برعکس سوچ کا حامل ہوں۔ سماجی حالات کے پیش نظر مزاحمتی صورتِ حال بھی تبدیل ہوتی رہتی ہے۔ مارشل لا کے ادوار میں مزاحمت کی جو صورت ہوتی ہے وہ آئینی اور سیاسی ادوار میں اسی انداز اور طریقے سے منطبق نہیں ہوسکتی۔ میں سندھ میں بڑھنے والی ثقافتی، ادبی اور فکری سرگرمیوں کو بھی موجودہ حالات کے تناظر میں سندھیوں کی جانب سے پُرامن مزاحمت کی ایک مضبوط کڑی گردانتا ہوں، یہ اور بات ہے کہ سندھی سماج کو اس کے ساتھ ساتھ طاقتور پُرامن سیاسی اور سماجی مزاحمت کی بھی بے حد ضرورت ہے۔ پُرامن ہمہ رُخ مزاحمت کے حوالے سے میری نظر میں سندھیوں کی مزاحمت کی پاکستان میں بنگالیوں کے بعد دوسری اور کوئی مثال موجود نہیں ہے۔ بلوچستان کی مزاحمت کی پُرامن شکل اور نہج کیوں کہ کم ہے اس لیے اس کا احترام نہیں کیا جاسکتا، بلکہ اس کا موازنہ سندھ سے بھی نہیں کیا جاسکتا۔ کیونکہ ہر دو کے محرکات، میدان اور شکل و صورت مختلف ہیں۔ سندھ کے سماج کے مختلف منفی اور مثبت پہلوئوں کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ ہر شعبے میں منفیت، ہر چیز کو رد کردینا، ہر کام پر محض تبصرہ آرائی اور نکتہ چینی کرنا، اورہر وقت کی خود مذمتی نے ہمارے سماج کو گزشتہ دو عشروں میں بے حد نقصان پہنچایا ہے اور اب اس ساری صورت حال کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ تمام تر اندرونی کمزوریوں اور کئی ناکامیوں کے باوجود مجموعی طورپر سندھی سماج کی آغوش متعدد کامیابیوں سے بھی قطعی خالی نہیں ہے۔ انہیں محض دیکھنے، سمجھنے اور مزید ترغیب (سماج کے لیے) حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔ اس حوالے سے سندھیوں کی مندرجہ ذیل بڑی، لیکن بہ ظاہر دکھائی نہ دینے والی کامیابیوں پر غور کرنا چاہیے۔
(1) 1955ء میں ون یونٹ کے قیام سے، اور ملک کے تمام آئینوں میں قوموں کے وجود سے انکار کے باوصف سندھی اپنے قومی تشخص اور وجود کو بچانے میں کامیاب رہے ہیں۔ میرے خیال میں اب خطرہ ہمارے وجود کو کم لیکن اداروں، وسائل، انفرادی آزادیوں، انسانی حقوق، صنفی برابری، معاشی وسائل اور محنت کش طبقے کے لیے سماجی انصاف کے تقاضوں کو کہیں زیادہ درپیش ہے۔ سندھی مجموعی طور پر وجود کے خطرے یعنی Existential Threat سے نکل آئے ہیں اور اب 21 ویں صدی میں اس قدر زیادہ متحرک سماج کی قوم کا وجود بھلا کون مٹا سکتا ہے؟ ایسا ہرگز نہیں ہے کہ یہ وجود اور بقا کی جنگ محض ون یونٹ کے ڈیڑھ عشرے میں سندھیوں نے لڑی تھی، بلکہ امرِ واقع تو یہ ہے کہ سندھی یہ جنگ بے شمار دکھائی دینے والے اور نظر نہ آنے والے میدانوں میں ہر روز اور ہر لمحہ لڑ رہے ہیں۔ اب قوموں کے وجود سے انکاری ریاستی نقطۂ نظر اور آئین کے باوصف سندھیوں کا قومی اور تاریخی وجود ایک ایسی حقیقت ہے جس سے انکار کی جرأت اب کوئی بھی نہیں کرسکتا۔ سندھ کی بہ ظاہر ناکام قومی جدوجہد اور مجموعی طور پر سماج کی یہ ایک بڑی کامیابی ہے۔
(2) اس ریاست نے ہمیشہ سندھی بولی کو دھتکارا، ماننے سے انکار کیا، اور اس کی راہ میں روڑے اٹکائے۔ ان تمام ریاستی رکاوٹوں کے باوجود حقیقت یہ ہے کہ سندھی بولی پھر بھی 21 ویں صدی میں اپنے قدم رکھنے میں کامیاب ثابت ہوئی ہے، اور اب شاید سندھی بولی کو ریاست کی کوئی بھی محتاجی نہیں رہی ہے۔ کیونکہ جس بولی کو اتنا وسیع، زندہ اور متحرک سماج حاصل ہو اور وہ جدید ڈیجیٹل اور سائبر دور میں داخل ہوچکی ہو، وہ کبھی بھی ریاستوں اور حکومتوں کی محتاج نہیں ہوسکتی۔ ہم جب سندھی زبان کی قومی حیثیت کا مطالبہ کیا کرتے ہیں تو اس کا ہرگز بھی یہ مطلب نہیں ہے کہ سندھی بولی کی قومی حیثیت کو کسی نوع کا کوئی خطرہ لاحق ہے، بلکہ یہ مطالبہ تو ہم اس لیے کرتے ہیں کہ اس طرح سے ملک میں ایک بولی کی لسانی اور ثقافتی اجارہ داری کو ختم کیا جاسکے اور ملک حقیقی طور پر ایک وفاقی حیثیت اور کردار کا حامل بن سکے۔
(3) سندھیوں کے شہر تقسیم کے بعد گویا عملی طور پر ان سے چھن چکے تھے اور سندھی ہمیشہ اس خوف اور عدم تحفظ کا شکار رہے کہ کیا ان کے تاریخی شہروں میں ان کی واپسی کبھی ممکن ہوپائے گی؟ ظاہر ہے کہ سندھ کے بڑے شہروں کو 1947ء سے پہلے کے دور میں تو داخل نہیں کیا جاسکتا، اور ساری دنیا میں کراچی جیسے بڑے شہر کثیرالقومی، کثیراللسانی اور کثیرالثقافتی نوعیت ہی کے ہوا کرتے ہیں۔ لیکن آج کراچی اور حیدرآباد میں سندھیوں کی اہم ترین حیثیت کو تسلیم کیا جاچکا ہے، جہاں سندھی نہ صرف یہ کہ بہت بڑی تعداد میں رہتے ہیں بلکہ ان کا شہر کی سماجی، ثقافتی اور معاشی سرگرمیوں میں اہم کردار بھی ہے۔ بڑے، معیاری اور بامقصد پروگرام بڑے شہروں میں سندھیوں کے متحرک کردار اور حیثیت کو مزید طاقتور بناتے ہیں۔ ایسے پروگراموں کو گروہی جھگڑوں یا پسند و ناپسند کی بنیاد پر رد کرنا ہرگز درست نہ ہوگا۔ خصوصاً کراچی میں سندھیوں کا جتنا زیادہ ہمہ پہلو تحرک بڑھے گا اس سے بہ حیثیتِ مجموعی ہمارے قومی وجود اور شہروں پر حقِ ملکیت کے عمل کو فائدہ ملے گا۔
(4) سندھیوں کے لیے کئی دہائیوں تک یہ کہا گیا کہ یہ گوشہ گیر ہیں اور گھر سے باہر نکلنے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ ماضی میں اس میں ایک حد تک حقیقت بھی تھی کہ زرعی سماج کا حامل مانی اور مچھی والا (روٹی اور مچھلی کھانے والا) ایک سندھی فرد صدیوں سے ہجرت یا نقل مکانی کا عادی ہی نہ تھا، لیکن گزشتہ تین عشروں سے سندھیوں نے اس تاثر کو عملاً غلط ثابت کرکے دکھا دیا ہے۔ اس عرصے میں کم ازکم ایک کروڑ سندھیوں نے اپنے روایتی گوٹھوں اور چھوٹے شہروں سے نقل مکانی کی ہے۔ جو قبل ازیں گوٹھوں میں رہا کرتے تھے وہ ایک حد تک چھوٹے شہروں میں آئے ہیں، اور چھوٹے شہروں کے مکین بھی معتدبہ تعداد میں بڑے شہروں میں آباد ہوئے ہیں۔ سندھیوں کی خاصی تعداد بیرونِ ملک یعنی سعودی عرب، امریکہ، یورپ، برطانیہ، دبئی کے ساتھ ساتھ، ملک میں اسلام آباد، لاہور اور دیگر شہروں میں جا بسی ہے، اور یہ اسی کا نتیجہ ہے کہ ماضی کے مقابلے میں سندھیوں کا متحرک کردار بیرونی ممالک نیز اسلام آباد اور لاہور میں بڑھا ہے۔ کراچی میں سندھی شاید اس وقت سب سے زیادہ فعال اور متحرک ہیں اور اب شاید سندھیوں کی عالمگیریت کے عمل کو کوئی بھی نہیں روک سکتا۔ میں اسے سندھیوں کی تاریخ کے بے رحم حقائق کے ساتھ پُرامن مزاحمت کی ایک مضبوط صورت گردانتا ہوں۔
(5)ملک کے قیام کے بعد سندھیوں کے ہاں اظہار کی آزادی کے راستے محدود بلکہ ایک حد تک بند تھے۔ ون یونٹ کے دور اور اس کے بعد مسلسل سندھیوں نے اس ملک میں اظہار کی آزادی کے میدان حاصل کیے، اس کی مثالیں پاکستان میں بہت کم ہیں۔ سندھیوں کے پاس اب ایک طاقتور سندھی میڈیا ہے جو اپنی تمام تر کمزوریوں کے باوجود اپنے مجموعی جوہر میں سندھ دوست، عوام دوست، روشن خیال اور سیکولر سوچ کا حامل ہے۔ سندھیوں کا سماجی میڈیا میں بھی ساری منفی باتوں کے باوجود بے حد مؤثر کردار ہے، جس کا اب سیاسی، ثقافتی، سماجی ، طبقاتی اور قومی فائدہ بھی سامنے آنا شروع ہوگیا ہے۔ سندھ کے ترقی پسند اور قوم پرست سیاسی گروہ بھلے سے بڑی عوامی تنظیموں کی صورت میں نہ ہوں تاہم حقیقت یہ ہے کہ سندھیوں کے نقطۂ نظر کو ملکی سطح پر پیش کرنے اور سندھیوں کے قومی حقوق کی حفاظت کرنے میں ان کا ایک مؤثر کردار ہے۔ مجموعی طور پر سندھ ایک ووکل سماج ہے، جس کی آواز کی اہمیت کو اب ملکی اور ایک حد تک بین الاقوامی سطح پر محسوس کیا جارہا ہے۔
(6) سندھیوں کے لیے بڑے عرصے تک یہ ایک اہم چیلنج تھا کہ ملکی سطح تو رہی ایک طرف، سندھ کی سطح پر بھی خاص طور پر کراچی میں انہیں مطلوبہ Space نہیں ملا کرتے تھے، یا دیدہ دانستہ نہیں دیے جاتے تھے۔ تنگ نظر اور تعصب میں ڈوبے ہوئے حلقوں نے سندھیوں، سندھی بولی، اس کے ادیبوں، شاعروں، سیاست دانوں یا نوجوانوں کو کبھی بھی وسیع تر قومی دھارے میں شامل نہیں کیا، یہاں تک کہ ایل ایف جیسے شاندار پروگرام میں بھی سندھیوں کو یہ شکایت رہا کرتی تھی کہ سندھی بولی اور مصنفین کو مطلوبہ سطح پر نمائندگی نہیں دی جارہی ہے۔ مطلب یہ ہے کہ کراچی کی شہری زندگی نے سندھیوں کو اس میں مطلوبہ حصہ کبھی نہیں دیا۔ گزشتہ کچھ برس سے کراچی میں سندھیوں کا معیاری، سیاسی، ثقافتی، ادبی اور فکری تحرک اتنی قوت کے ساتھ سامنے نہیں آیا ہے لیکن اس کا اتنا تو اثر پڑا ہے کہ اب سندھی کراچی میں Space نہ ملنے کے احساس سے باہر نکل آئے ہیں۔ کراچی آرٹس کونسل میں منعقدہ سندھیوں کے بڑے اجتماعات اور ایس ایل ایف جیسے پروگرام اس کا ثبوت ہیں۔ سندھیوں کی یہ کامیابی کوئی معمولی نوعیت کی نہیں ہے۔
(7) زرعی سماج سے وابستہ ہونے اور بے حد محدود اور کمزور نوکری پیشہ متوسط طبقہ ہونے کے باعث سندھی ایک طویل عرصے تک روزگار کے حوالے سے مخصوص شعبوں سے باہر نہیں نکل پائے۔ اس لیے ان کی انسانی وسائل کی صلاحیتیں بھی محدود رہیں۔ گزشتہ تین دہائیوں سے اس حوالے سے بڑی تبدیلی رونما ہوئی ہے۔ سندھی لوگ اور خاص طور پر آج کل کے نوجوان ہر شعبے میں داخل ہوئے ہیں اور مزید بھی ہورہے ہیں۔ کراچی میں پہلے سندھی صرف نوکریوں کے لیے محدود سطح پر آیا کرتے تھے کیونکہ ان کے لیے مواقع ہی محدود ہوا کرتے تھے، لیکن اب سندھی محنت کش اور کاروباری طبقہ بھی بڑے پیمانے پر کراچی آرہا ہے اور آچکا ہے۔ اس کے نتیجے میں کراچی میں سندھیوں کی مجموعی طاقت، حیثیت اور کردار میں بڑی مثبت تبدیلی در آئی ہے جو کوئی کم کامیابی ہرگز نہیں ہے۔ سندھی سماج کا پیشہ ورانہ شعبوں میں ہر سطح پر داخل ہونا، زرعی سماج کا شہری سماج کی جانب اٹھایا جانے والا ایک بڑا قدم ہے۔
(8) سندھی سماج میں خواتین سے تعصب، کرودھ، ظلم، دہرے معیار اور ناانصافی کے جاہلانہ رویوں کے ساتھ ساتھ گزشتہ کچھ عشروں میں بڑی تبدیلی آئی ہے۔ تعلیم کا نظام تباہ حال ہونے کے باوجود سندھی لڑکیوں کی ایک بڑی تعداد تعلیم میں آگے آئی ہے۔ سندھی ورکنگ وومن کی تعداد میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ اس حوالے سے سندھی خواتین اور لڑکیوں کو حالانکہ اب بھی بے حد سماجی رکاوٹوں کا سامنا درپیش ہے اور ہمیں اس بارے میں مزید توجہ دینی ہوگی، لیکن یہ بات طے ہے کہ یہ روایتی رکاوٹیں ان کے سامنے کافی عرصے تک اب مزید حائل نہیں رہ پائیں گی۔ اگر روایتی تنگ نظری کے ہاں پسماندہ سماج کی باقیات ہیں تو سندھ کی خواتین کے ہاں اکیسویں صدی ہے جو ساری دیواریں گرانے کی صدی ہے اور سندھی خواتین یہ دیواریں گرانے کی پوری صلاحیت رکھتی ہیں۔
(9)اگرچہ بہراڑیاں (دیہی سندھ) ہماری طاقت ہیں اور بہراڑیوں سے وابستہ ہونا کوئی کسرِ شان نہیں ہے، لیکن متعصب حلقوں نے ہمیشہ سندھیوں کو پسماندہ، تنگ نظر، محض خواتین کو سیاہ کاری کے الزام میں قتل کرنے والا اور بہراڑی کا ثابت کرنے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا ہے۔ سندھ کے جس شہر کا ذکر (یعنی شکارپور) اٹھارویں صدی میں کارل مارکس نے کیا اُسے صرف بہراڑیوں کا ہونے تک ہی محدود کردیا گیا۔ جس کا مطلب یہ تھا کہ سندھی نہ تو شہری ہیں اور نہ ہی ان کے لیے شہروں میں کوئی جگہ یا گنجائش ہے۔ مجھے کراچی میں ہونے والے اس ہمہ پہلو تحرک کا جو ایک متاثر کن پہلو لگا ہے وہ یہ ہے کہ اس سے سندھیوں کا ایک جدید، روشن خیال، انسان دوست، ادب دوست، سیکولر، امن دوست اور دوسروں کو اپنے ساتھ لے کر چلنے والے ایک اصلاح یافتہ سماج کا تاثر پختہ تر ہوتا ہے۔ جب ایسے پروگراموں میں رضا ربانی، حامد میر، وسعت اللہ خان، نازش بروہی، اطہر عباس، محمد حنیف اور پرویز ہود بھائی جیسے افراد آکر سندھ کا روشن خیال چہرہ دیکھتے ہیں تو یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے۔ سندھ کی دانشور اور بے مثال تخلیق کار نورالہدیٰ شاہ سے اس بارے میں اکثر بات چیت ہوتی رہتی ہے اور وہ بھی سندھیوں کے اس ہمہ جہت تحرک کو وسیع تر تناظر میں دیکھتی ہیں۔ سندھیوں کو 21 ویں صدی میں اس کے عالمی، سماجی، فکری، سیاسی اور شہری تقاضوں کے مطابق اپنی نئی شناخت پیدا کرنی پڑے گی، اور سندھیوں کا یہ تحرک اس حوالے سے بڑی پیش رفت کرتا دکھائی دیتا ہے جس کا دائرہ مزید وسیع تر ہونا چاہیے۔ میری رائے میں محولہ بالا تبدیلیاں آسمان سے ازخود نہیں آئی ہیں بلکہ یہ سندھی سماج کے روشن خیال، وطن دوست، عوام دوست اور انسان دوست حصے کی ہمہ پہلو اور مسلسل مزاحمت اور جدوجہد کا ہی ثمر ہے، جس پر ہمیں نہ صرف بجا طور پر فخر کرنا چاہیے بلکہ اس کے دائروں اور اثرات کو مزید وسعت دینی چاہیے۔