حامد ریاض ڈوگر
نشہ دولت کا ہو یا اقتدار کا… بڑا ظالم ہوتا ہے۔ ہیروئن کے نشے کی طرح انسان کو تباہ و برباد کرکے رکھ دیتا ہے… کہیں کا نہیں چھوڑتا۔ وراثت بھی جائداد کی ہو یا سیاست کی… اس کی تقسیم بھی آسان نہیں ہوتی اور بہت سے خاندان اسی وراثت کی تقسیم کے تنازعات پر فنا کے گھاٹ اترتے دیکھے گئے ہیں۔ تاریخ ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے۔ ملک کے ممتاز ترین جاگیردار سیاسی خاندان جس نے نسل در نسل طویل عرصے تک پاکستان میں اقتدار کے مزے لوٹے، مگر آخر سیاست کی وراثت کے تنازعے پر زوال آشنا ہوا۔ ذوالفقار علی بھٹو کے اقتدار کے خاتمے اور پھر عدالتِ عظمیٰ کے حکم پر پھانسی کے تختے تک پہنچنے کے بعد ان کا خاندان جس طرح بھٹو کی وراثت پر دست و گریباں نظر آیا اس نے سگے بہن بھائیوں کو ایک دوسرے کا جانی دشمن بنادیا، اور پہلے ایک بھائی کی غیر فطری موت کے باوجود بے نظیر بھٹو نے محض اقتدار کی خاطر اپنے دوسرے مگر واحد زندہ بھائی مرتضیٰ بھٹو سے مفاہمت سے انکار کردیا، اور پھر چشمِ فلک نے یہ منظر بھی دیکھا کہ بہن کی وزارتِ عظمیٰ میں بھائی کو دن دہاڑے قتل کردیا گیا اور بیس برس سے زائد گزر جانے کے باوجود آج تک قاتلوں کا سراغ نہیں لگایا جا سکا۔ آخر خود بے نظیر بھٹو بھی اقتدار کی بھول بھلیوں میں موت کے گھاٹ اتار دی گئیں… اور اس کے بعد پانچ سال تک پیپلز پارٹی کے اقتدار میں رہنے کے باوجود بے نظیر کے قاتل ابھی تک لاپتا ہیں۔ سیاست کی وراثت کے تنازعے ہی کی ایک قدرے نرم مثال عوامی نیشنل پارٹی کی ہے جہاں خان عبدالولی خان کی وفات کے بعد پارٹی کی قیادت کے حصول کے لیے اُن کی ضعیف اہلیہ اور بیٹے میں ٹھن گئی۔ پارٹی کی قیادت پر قبضے کی جنگ میں بیٹا ماں کے سامنے کھڑا ہوگیا اور دونوں ایک دوسرے پر الزامات کی بوچھاڑ کرتے رہے۔
پاکستان ہی نہیں، دنیا کے بے شمار دیگر ممالک، خصوصاً برصغیر کے ممالک کی یہ بدقسمتی ہے کہ یہاں کی سیاسی جماعتوں کی اکثریت ہر آتے جاتے سانس کے ساتھ دم تو جمہوریت کا بھرتی ہے مگر خود ان جماعتوں میں جمہوریت نام کو بھی نہیں ملتی۔ ملک میں انتخابات کا شدومد سے مطالبہ کرنے والے سیاسی رہنما اپنی جماعتوں کے اندر قیادت کے انتخابات کرانے پر کسی طرح آمادہ نہیں ہوتے، قانونی پابندی کے تقاضے پورے کرنے کی خاطر پارٹی انتخابات کے نام پر جو کچھ اکثر جماعتوں میں کیا جاتا ہے وہ کسی طور پر بھونڈے مذاق سے کم نہیں۔ جماعت اسلامی کے سوا کوئی ایک بھی سیاسی جماعت خواہ وہ حکمران نواز لیگ ہو، پیپلز پارٹی ہو یا تحریک انصاف یا اے این پی… حتیٰ کہ دینی جماعتوں کا معاملہ بھی اس سے مختلف نہیں۔ جمعیت علمائے اسلام (ف) سے لے کر تنظیم اسلامی جیسی خلافت کی داعی تحریک تک ہر جگہ ہمیں قیادت ایک ہی خاندان میں مرتکز اور وراثت میں منتقل ہوتی دکھائی دیتی ہے، مگر دعوے ہر جگہ ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر کیے جاتے ہیں۔ اختلافِ رائے جمہوریت کا بنیادی تقاضا بلکہ حسن قرار دیا جاتا ہے، مگر ان سب سیاسی جماعتوں میں جونہی کسی نے قیادت سے اختلافِ رائے کا اظہار کیا، وہ گردن زدنی قرار پایا۔ پھر اسے پارٹی سے نکال دیا گیا یا اس نے خود الگ ہوکر اپنا ایک نیا گروپ بنا لیا۔ اس وقت سیاست کے میدان میں موجود بہت سی جماعتیں اس عمل کا نتیجہ ہیں۔
موجودہ حکمران مسلم لیگ اس لحاظ سے خوش قسمت قرار دی جا سکتی ہے کہ اپنے وجود میں آنے سے آج تک اس پر میاں نوازشریف کا مکمل غلبہ رہا ہے۔ اختلاف کرنے والے یہاں بھی زیر عتاب آتے اور الگ جماعتیں بناتے رہے، مگر مجموعی طور پر نواز لیگ شریف خاندان ہی کے گھر کی لونڈی رہی۔ شریف خاندان اس لحاظ سے بھی قسمت کا دھنی رہا کہ ’’اتفاق‘‘ اس کا طرہ امتیاز رہا اور میاں نوازشریف کی قیادت و سیادت کو کسی نے چیلنج نہیں کیا۔ مگر یہ خوش قسمتی اور ’’اتفاق‘‘ نوازشریف کی نااہلی کے بعد شاید اب مزید ساتھ دیتا دکھائی نہیں دے رہا۔ خادم اعلیٰ پنجاب اگرچہ بار بار اپنے بھائی جان سے وفاداری کے اعلانات کررہے ہیں مگر اس کے باوجود شریف خاندان میں ’’اتفاق‘‘ ہرچند کہیں کہ ہے نہیں ہے…!!!
نوازشریف کی نااہلی کے فوری بعد پارٹی کی جانب سے میاں شہبازشریف کو ان کی جگہ وزیراعظم بنانے کا اعلان کیا گیا اور میاں شہبازشریف کے نوازشریف کی خالی کردہ این اے 120 کی نشست سے منتخب ہوکر قومی اسمبلی میں پہنچنے تک جناب شاہد خاقان عباسی کو محض پینتالیس روز کے لیے عبوری وزیراعظم بنانے کا فیصلہ سنایا گیا، مگر پھر اچانک کیا ہوا کہ این اے 120 سے شہبازشریف کی جگہ شدید بیمار بیگم کلثوم نواز کو رکن قومی اسمبلی منتخب کروا لیا گیا اور میاں شہبازشریف اور ان کے اہلِ خاندان منہ دیکھتے رہ گئے، تاہم انہوں نے بیگم کلثوم نواز کی انتخابی مہم سے خود کو الگ رکھ کر اپنی اندرونی کیفیت اور اس فیصلے پر ناپسندیدگی کا اظہار برملا کردیا۔ پھر اس سے آگے بڑھتے ہوئے میاں شہبازشریف اور اُن کے رکن قومی اسمبلی فرزند حمزہ شہباز نے کوئی لگی لپٹی رکھے بغیر شریف خاندان کے موجودہ سربراہ میاں نوازشریف اور اُن کی صاحبزادی کی مزاحمتی سیاست اور جارحانہ بیانات کے طرزعمل سے اختلاف کرتے ہوئے اسے غلط قرار دیا اور اداروں سے تصادم کے بجائے مفاہمت کی راہ اپنانے پر زور دیا، جس سے شریف خاندان کے اتحاد میں انتشار نمایاں ہوکر سامنے آگیا۔ تاہم اس کے باوجود زبانی جمع خرچ کے طور پر اختلاف اور انتشار سے مسلسل انکار کیا جاتا رہا۔ میاں شہبازشریف نے حمزہ شہباز اور مریم نواز کو اپنے گھر پر بلا کر سمجھانے کی کوشش کی جسے ذرائع ابلاغ نے حمزہ اور مریم میں صلح کرانے کا نام بھی دیا، اور مریم کا یہ بیان بھی سامنے آیا کہ حمزہ میرا بھائی ہے، اس سے کوئی اختلاف نہیں۔ مگر دنیا نے اس بیان کو سچ یا مبنی برحقیقت تسلیم کرنے سے انکار کردیا۔
پارٹی کے اندر نواز اور شہباز کے مابین اختلافِ رائے محض دو بھائیوں کے اندازِ فکر کا فرق نہیں بلکہ عملی حقیقت یہ ہے کہ کوئی مانے یا نہ مانے، پارٹی میں دو واضح گروپ تشکیل پا چکے ہیں، ماضی میں میاں نوازشریف کی کچن کیبنٹ کا نمایاں کردار چودھری نثار علی خان تو کسی لگی لپٹی کے بغیر کھل کر نوازشریف کے طرزِعمل اور اندازِ فکر سے اختلاف کرتے رہے ہیں جس کا نمایاں اظہار 2013ء کے بعد نوازشریف کی سربراہی میں بننے والی وفاقی کابینہ کا نمایاں کردار ہونے اور وزارتِ داخلہ کا اہم قلم دان سنبھالنے کے باوجود چودھری نثار کی نوازشریف سے بار بار ناراضی اور اُن کے نفسِ ناطقہ بعض ارکانِ کابینہ سے بول چال تک بند ہونے سے بھی ہوتا رہا۔ پھر نوازشریف کی نااہلی کے موقع پر چودھری نثار نے کھل کر اپنے خیالات اور اختلافات کا اظہار بھی کیا اور شاہد خاقان عباسی کی سربراہی میں بننے والی نئی کابینہ میں شمولیت سے بھی انکار کردیا۔ ہفتہ عشرہ قبل موجودہ کابینہ میں موجود رکن ریاض پیرزادہ نے بھی چودھری نثار اور شہبازشریف کے مؤقف کی زیادہ کھلے پیرائے میں تائید کردی اور یہ دعویٰ بھی کیا کہ پارٹی کے درجنوں ارکانِ اسمبلی بھی ان کی اس رائے کے حامی ہیں۔ مگر اس کے باوجود شریف خاندان کا دعویٰ یہی ہے کہ پارٹی نوازشریف کی قیادت میں متحد ہے۔
ابھی چند روز قبل میاں نوازشریف نے میاں شہبازشریف کو لندن بلا کر ایک مشاورت کی، جس میں وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے اپنے منصب سے باقاعدہ ایک دن کی رخصت لے کر ذاتی حیثیت میں اور بقول خود ذاتی خرچ پر شرکت کی۔ اسی طرح پہلے سے بیرونِ ملک دورے پر گئے ہوئے وزیر خارجہ خواجہ محمد آصف اور بعض دیگر اہم لوگ بھی خصوصی طور پر لندن پہنچ کر اس اجلاس میں شریک ہوئے، جس میں ایک بار پھر اس بات کا اعادہ کیا گیا کہ پارٹی میں کوئی اختلاف نہیں، آئندہ انتخابات کی مہم کے دوران نوازشریف کی تصویر پوسٹروں پر آویزاں کی جائے گی اور انتخابات میں کامیابی کی صورت میں میاں شہبازشریف وزیراعظم بنیں گے۔ اختلافات کا بار بار انکار خود بھی یہ بتاتا ہے کہ دال میں بہرحال کچھ نہ کچھ کالا ہے۔
اس اجلاس کے بارے میں یہ بھی بتایا گیا کہ پارٹی پالیسی کے طور پر مزاحمت کے بجائے مفاہمت اختیار کرنے اور اداروں کو شکایات سے آگاہ کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ اس طرح یہ بات بھی ذرائع کے ذریعے سامنے آئی کہ مریم اور حمزہ شہباز کو مزید بیان بازی سے روک دیا گیا ہے، مگر لندن اجلاس کے بعد نوازشریف کی پاکستان آمد اور اس سے پہلے اور بعد کے بیانات یہ ثابت کرتے ہیں کہ انہوں نے اپنا طرزعمل تبدیل نہ کرنے اور سابقہ جارحانہ اور مزاحمانہ پالیسی پر عمل پیرا رہنے ہی کا فیصلہ کیا ہے۔ اسی طرح مریم نواز نے بھی اس اجلاس کے بعد بیانات اور انٹرویوز دینے کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے جن میں اُن کا لہجہ بھی حسبِ سابق جارحانہ ہی ہے، بلکہ ایک قدم آگے بڑھتے ہوئے انہوں نے اب واضح الفاظ میں یہ بھی کہنا شروع کردیا ہے کہ شریف خاندان نے پارٹی قیادت ان کے حوالے کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اگرچہ اگلے ہی سانس میں ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ میاں شہبازشریف ان کے آئیڈیل ہیں اور بہترین سیاست دان ہیں۔ یوں وہ بہت کچھ کہہ کر بھی کچھ نہ کہنے کی پالیسی پر عمل کررہی ہیں۔
دوسری جانب شہبازشریف اور حمزہ شہباز قدرے خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں۔ وہ شاید اس انتظار میں ہیں کہ عدالتوں کے فیصلے میاں نوازشریف اور مریم نواز کا سیاسی مستقبل تاریک کردیں تو انہیں الزام اپنے سر لینے کی ضرورت پیش نہ آئے اور راستے ان کے لیے خودبخود کھل جائیں۔