نون الف
نوٹ : میرے سرسید احمد خان کے حوالے سے پچھلے دو مضامین میں جو سوالات اٹھائے گئے تھے اس میں ورینکلر تھیوری کے بارے میں بہت پوچھا جارہا ہے۔ یہ مضمون اسی تھیوری کی تشریح کے طور پر پڑھا جائے۔
انیسویں صدی ایک ایسی صدی کے طور پر سامنے آئی جس میں اسلام اور سیاست کو دو علیحدہ اصطلاحوں کے طور پر سامنے لایا گیا۔ اسلام جو کہ مکمل ضابطہ حیات تھا اب سکڑ کر محض رسوم عبادات اور پیدائش و تجہیز و تکفین کے مسائل کا نام بنا دیا گیا۔ اس کے مقابلے پر سیاست نظام سلطنت اور بین الاقوامی معاملات کو چلانے کا نام بن کر رہ گئی۔ انگریز اچھی طرح جانتا تھا کہ آزادی کی تحریک کے اصل روح رواںچونکہ مسلمان ہیں، انہوں نے ” پھوٹ ڈالو اور حکومت کرو ” کی پالیسی اختیار کی۔ جس کے نتیجے میں اسلام کو محض رسوم و عبادات کے مذہب تک محدود کردیا گیا۔
ثقافتی و روایتی اعتبار سے ہندوستان کا مسلمان مجاوری، خان خوا ہی قبر پرستی کا مزاج رکھتا تھا چناچہ بریلوی مکتبہ فکر نے اسی مزاج کو آگے بڑھایا۔ دوسری طرف پوری کی پوری ا جتہادی فکر مکتب ِدیوبند کے بچاؤ اور پھیلاؤ میں اپنی توانائیاں صرف کرنے میں مشغول ہو گئیں۔
ان تمام مذہبی تجربات کے پیچھے وہی سوچ کار فرما تھی جو انگریز نے لائن آف ایکشن کے طور پر متعین کی تھی۔ انگریز نے مسلمان اور ہندو تفریق پیدا کرنے کے لیے 1861 میں بنارس میں اردو اور ہندی تنا زع کھڑا کیا۔ جس میں یو پی کا گورنر انتونی میکڈانلڈ پیش پیش تھا۔
سر سید احمد خان نے اپنے افکار و نظریات سے ہندوستان میں اپنا مقام بنایا۔ سر سید کی شخصیت اور ان کی علمی خدمات کا معترف ہونا یا پھر ان سے اختلاف کرنا ایسا معاملہ ہے جس کو چند مضامین میں سمیٹنا ناممکن ہے۔ یہ ایک ایسا مثلث ہے جس کو سمجھنے کے لیے قاری کو جنگ آزادی 1857 سے پہلے اور بعد کے ہندوستان کے حالات سے مکمل آگاہی ازحد ضروری ہے۔ سر سید احمد خان کی شخصیت کے اس مثلث کو سمجھنے کے لیے ان کے کام اور فکر کو تین حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے
* سر سید کا پہلا دور۔۔۔ ابتداء سے 1857 کی جنگ آزادی تک
* دوسرا دور۔۔۔۔۔1857 کی جنگ آزادی سے ان کے سفرِ انگلستان تک
* تیسرا دور۔۔۔۔ اصلاحی تحریک۔علی گڑھ کا قیام اور اور ورینکلر یونیورسٹی کی جدوجہد
اگرچہ سر سید کا وہ کام جس کی بنیاد پر وہ برصغیر کے بہت بڑے اصلاحی رہنما اور دانشور کہے جاتے ہیں 1857 کے بعد کا ہے۔ لیکن ان کا ابتدائی کام بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ جس میں آثار الصنادید جیسی وقیع کتاب شامل ہے۔انھوں نے اپنی مشکل طرز تحریر پر نظر ثا نی بھی کی اور لکھنے والوں کو سہل پسندی کی جانب راغب کرنے کی کوشش کی۔ اس سے سہل پسندی سے ان کی مراد درحقیقت ” عقلیت پسندی” تھی۔ یہ اس دور کا ” نیا پن ” تھا۔
1857 کی پوری کشمکش اور انگریز سے آزادی کی جدوجہد سر سید احمد خان کے سامنے کی بات تھی۔ اس عظیم جدوجہد کے رد میں جب ” اسباب بغاوت ہند ” سامنے آئی تب بہت سوں پر کچھ راز افشاء ہونے شروع ہوئے۔1857 کی جدوجہد آزادی سے پہلے تک کے سرسید خاصی حد تک شاہ اسماعیل رح اور سید احمد شہید رح کی تحریک سے متاثر تھے۔وہ ان کی تائید میں کئی مضامین لکھ چکے تھے جن میں “راہ سنت و ردِّ بدعت” بھی شامل ہیں۔ لیکن جنگ آزادی کے بعد کے سرسید پچھلے دور کے سید احمد خان سے یکسر مختلف دکھائی دیتے ہیں۔
یہ جنگ آزادی سر سید احمد خان کے لیے ایک” ٹرننگ پوا ئنٹ ” ثا بت ہوئی۔ اس وقت سیاسی قیادت کے قحط الرجال اور ” جدید یت اور عقلیت پسندی ” کے نعرے نے سر سید احمد خان کو ہندوستان کی سطح پر ایک عظیم مفکر کا روپ دے دیا۔ سر سید جب ’’ اسباب بغاوت ہند ‘‘ تحریر کرتے ہیں تو تمام تر جدوجہد کے سامنے ہتھیاروں سے لیس ہوکر مجاہدین پر برستے دکھائی دیتے ہیں۔ اس نئی اور مختلف سوچ نے سر سید احمد خان کو ہندوستان کی سطح پر ایک ایک انفرادیت ضرور عطا کردی تھی جسے ان کے رفیقوں نے دانشوری سے تعبیر کیا۔
ہندوستان میں انگریز کے تعلیمی سسٹم میں مناسب ترامیم اور نافذ العمل کرنے کا کام تنہا ” لارڈ میکالے ” نہیں کرسکتا تھا۔ ہاں اس کی سفارشات کو عملی رنگ دینے کا کام مقامی ریفارمرز کو ہی انجام دینا تھا چنانچہ لارڈ میکالے کی مجوزہ تعلیمی سفارشات اور پھر اس کی روشنی میں سر سید احمد خان نے جو کام سر انجام دیا وہ یہ تھا کہ نصاب سے’’مذہب‘‘ کے عنصر کو علیحدہ کیا اور جو نہ کرپائے ان میں شکوک و شبہات پیدا کردیے۔ پرویزییت اور قادیانیت کو عقلی استدلال کی بنیاد فراہم کرنے میں ” ان کے ہی پیدا کردہ شکوک کام آئے۔
سر سید سے پہلے تک ہر شعبے میں مضمون کی تفسیر و تشریح مذہبی نقطہ نظر و فلسفے کے حوالے سے ہوتی۔ فلسفہ یونان کی تعلیم بھی دی جاتی تھی اور اس کے اس جواب میں علم الکلام ( افکار کی تطہیر کا علم ) سے مدد لی جاتی۔ اس طرح مسلمان طالب علم فلسفہ یونان اور یونانی میتھا لوجی کو استدلال کی روشنی میں پڑھتا تھا۔
سر سید سے پہلے کے ساڑھے بارہ سو سالوں سے متفق علیہ مسائل جس پر امت مجتمع تھی ان کی “عقلیت پسندی” نے اس کو پارہ پارہ کردیا۔
سر سید کے زمانے میں جو حالات پیدا ہوئے وہ بہت تیزی کے ساتھ مسلمانوں کو مذہب سے دور لے جارہے تھے، سر سید نے اس موقع پر اپنے سائنسی جوہر و کمالات دکھانے شروع کیے۔ فلکیا ت، طبیعات، جنسیات سمیت بہت سے موضو عات مذہب سے متصادم تھے۔ سر سید نے ان سب پر اظہار خیال فرمایا اور جدید نظریات کی توثیق و تائید میں مقالے لکھے، زمین جامد ہے کا نظریہ بھی اس میں شا مل تھا، ایک عرصے تک سر سید زمین کو جامد کہتے رہے۔ سر سید نے ان نظریات کی تاویل میں عقائد کی ایسی ایسی تاویلات پیش کیں کہ مذہبی حلقوں میں کہرام مچ گیا۔ لیکن محض کہرام کے مچ جانے سے مسئلہ حل نہیں ہونا تھا۔ اس کا منطقی اور مدلل جواب درکار تھا، جو بروقت نہیں دیا گیا۔
اردو میں تراجم یا دارلمصنفین کا قیام اردو کی بہت بڑی خدمت تھی، مان لیا۔ فورٹ ولیم کالج کے ذریعے ایک الگ شعبے میں جہاں اردو ترجمے کا کام ہورہا تھا اس کا مقصد محض ترجمے کرنا نہیں تھا۔ اس بات کو سمجھنے کے لیے ورینکلر تھیوری کو سمجھنا ہوگا کہ ورینکلر کیا ہے ؟ لاطینی زبان کا لفظ جس کا مطلب غلاموں کی زبان ہے۔ جس کا اہم مقصد یہ بھی تھا کہ انگریزی زبان کو ترجمہ کرکے ہندوستانیوں کو مغربی تہذیب سکھائی جاسکے سر سید احمد خان اور ان کے رفقاء نے انگریز کو وہ پلیٹ فارم مہیا کیا جہاں اردو ادب کو مغربی زبانوں میں ترجمہ کیا جاتا تھا۔ اس کا بڑا مقصد یہ تھا کہ مقامی لوگوں کی زبان اور روزمرہ انگریزی میں منتقل کیے جائیں۔ اصل مقصد کیا تھا۔ پڑھیے اور سر سید کی دور اندیشی کو داد دیجیے۔
لیوس فرڈیننڈ نے باغ و بہار کے انگریزی ترجمے کے دیباچے میں لکھا ” ان ہندوستانیوں کی زبان سے ناواقفیت کسی بھی وقت ہندوستان میں مقامی فوجیوں میں ایک ایسا شعلہ بھڑکا سکتی ہے، جسے ملک میں موجود تمام یورپیوں کے خون سے بھی نہیں بجھایا جاسکتا۔ لہٰذا ورینکلر کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ” (حوالہ مباحث۔مضمون نگار ڈاکٹر ناصر عباس نیر )
اب ملاحظہ ہو ایک تاریخی حقیقت جس سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ ہندوستان کے گورنر جنرل کی کونسل کے پہلے رْکن برائے قانون لارڈ میکالے (Lord Macaulay) کے برطانیہ کی پارلیمنٹ کو 2 فروری 1835ء کے خطاب کے دوران اپنی سفارشات پیش کرتے ہوئے ایوان کو بتایا ’’ میں ہندوستان کے طول و عرض میں گیا ہوں۔ میں نے ایک بھی آدمی نہیں دیکھا جو گداگر ہو یا چور ہو۔ میں نے اس ملک میں خو شحالی دیکھی ہے۔ لوگوں کے اخلاق بہت بلند ہیں۔ ایسے اعلٰی معیار کے لوگ ہیں کہ ہم انہیں کبھی مغلوب نہیں کر سکتے، جب تک ہم اس قوم کی ریڑھ کی ہڈی کو نہیں توڑ دیتے جو کہ ان کی روحانی اور ثقافتی اساس ہے۔ چنانچہ میں تجویز کرتا ہوں کہ ان کے قدیم تعلیمی نظام کو تبدیل کر دیا جائے کیونکہ اگر لوگ سمجھیں کہ وہ سب کچھ جو غیرملکی اور انگریزی ہے وہ ان کے اپنے نظام سے بہتر ہے تو خوداعتمادی اور فطری ثقافت کو چھوڑ دیں گے اور وہ وہی بن جائیں گے جو ہم بنانا چاہتے ہیں یعنی ایک صحیح معنوں میں مغلوب قوم‘‘۔
بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ پس پردہ مقاصد کیا تھے ؟ سر سید انگریز سے حق دوستی نبھاتے ہوئے کہاں تک نکل گئے اس کا اندازہ ان کی تحریر “لائل محمڈنز آف انڈیا” سے لگایا جاسکتا ہے۔ ” کہ اللہ تعالی کا شکر ہے کہ اب مسلمانوں میں ٹیپو سلطان اور سراج الدولہ جیسے غدار وطن اور قوم دشمن افراد پیدا ہونے بند ہوگئے اور میر جعفر اور صادق جیسے محب وطن اور اقوام کے بہی خواہ پیدا ہو رہے ہیں جو سرکار برطانیہ کے وفادار ہیں، بلکہ اس کے راج کو مستحکم کرنے والے ہیں” ( بحوالہ :۔شمیم احمد مصنف زاویۂ نظر صفحہ 33)۔
مجھے یہ کہنے میں کوئی تردد نہیں کہ سرسید مشرقی نرسری کا ایسا پودا تھے جس نے مشرقی ماحول میں قد نکالا اور انگریز نرسری میں جڑ پکڑ کر تن آور درخت بن گیا۔