اسامہ امیر
کراچی کے نامور شاعر اشرف طالب کے گھر میں آنکھ کھولنے والے ارشد شاد یکم جنوری 1982 میں پیدا ہوئے، آپ نے شاعری کا باقاعدہ آغاز 2005 میں کیا آپ کا کلام مختلف اخبارات کی زینت بن چکا ہے اور یہ سلسلہ تا حال جاری ہے۔ نوجوان نسل کی معروف تنظیم ’’مکتب‘‘ کے رکن ہیں، آپ کے پسندیدہ شعرا میں میر تقی میر، مرزا غالب، مرزا داغ دہلوی، فراق گورکھپوری، احمد فراز، منیر نیازی، پروین شاکر، نظام امینی، عزم بہزاد، شاداب احسانی، اجمل سراج، اشرف طالب، عمران شمشاد، سیمان نوید، عبدالرحمن مومن، زاہد عباس، راجا ارشاد کیانی شامل ہیں۔ آپ کا لہجہ سادہ و پُرکاری کی عمدہ مثال ہے جو معاشرتی ناہمواریوں کے خلاف سر اٹھاتا ہے، آئیے چلتے ہیں ان کے مختصر کلام کی طرف ۔
گرد اوڑھے ہوئے تھے میلے بدن لائے تھے
لوگ میلوں سے مسافت کی تھکن لائے تھے
ہو گئے ایک ہی گھر کے در و دیوار میں گم
جب کہ ہم جذبۂ تعمیرِ وطن لائے تھے
٭
کوئی ٹھوکر ہی کھا جائے کسی کو چوٹ آ جائے
پڑے ہیں راہ میں پتھر مجھے کیا میں مزے میں ہوں
٭
رسم دنیا کی نبھانے والے
دل ملا ہاتھ ملانے والے
٭
تماشا اور دیکھیں گی یہ آنکھیں
ابھی تو بابِ حیرت وا ہوا ہے
٭
پھر کیا ہے اگر کارِ جنوں بھی یہ نہیں ہے
جس شاخ پہ بیٹھے ہیں اْسے کاٹ رہے ہیں
٭
اْس گلی میں بہت اندھیرا ہے
جس گلی میں چراغ جلتے ہیں
٭
میں چڑھ رہا ہوں جو سیڑھی نئے تعلق کی
مجھے خبر ہے بلندی سے گر بھی سکتا ہوں
٭
تمھارے زخم دیکھے ہیں
چمن سے خار چنتا ہوں
٭
ایسے جملے کی توقع تو نہیں تھی مجھ کو
تیرے ہونٹوں پہ جو آیا بڑی آسانی سے
٭
میں کوئی چیز جب بھی مانگوں گا
کیا یونہی تم اچھال کر دو گے
٭
آپ مجھ سے ہنسی کر رہے ہیں
اس طرح تو سبھی کر رہے ہیں
٭
ٹوٹ کر یہ آئنہ بکھرے گا جب
میری صورت بھی بکھر جائے گی کیا
٭
جو ہوشیار تھے استاد ہو گئے دیکھو
غلام لائے ہیں وہ بادشاہ کے آگے
٭
ہر شخص چاہتا تھا بدلنا نظام کو
اپنے معاملات بدلتا نہ تھا کوئی
٭
اک ہجوم آئے گا کیا پْر امن ہو گا احتجاج
یا سڑک پر ٹائروں کو پھر جلایا جائے گا
٭
لہو میں ڈوب جائے گا وہ سورج
جسارت جو کرے گا روشنی کی
٭
اپنے ہاتھوں سے سمیٹی ہوئی ناکامی کا
ہم نے الزام مقدر پہ لگایا ہوا ہے