امریکی وزیرخارجہ ریکس ٹلرسن پاکستان کا چار گھنٹے کا دورہ کرکے واپس چلے گئے۔ وہ پہلے کابل گئے، کابل سے اسلام آباد ہوتے ہوئے دہلی پہنچ گئے۔ امریکی وزیر خارجہ سے پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت نے مشترکہ طور پر ملاقات کی۔ اگر یونٹی آف کمانڈ کے تصور کے تحت جائزہ لیا جائے تو فیصلہ کن منصب وزیراعظم کے پاس ہے، لیکن خاص طور پر اس تاثر کا اہتمام کیا گیا کہ سیاسی اور عسکری قیادت ہم آہنگ ہے۔ امریکی نشریاتی ادارے کے دعوے کے مطابق برّی فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ کی ریکس ٹلرسن سے علیحدہ ملاقات بھی ہوئی ہے۔ سیاسی اور عسکری قیادت کی ہم آہنگی کا تاثر پاکستان کے سیاسی بحران کے تناظر میں دیا جانا ضروری تھا۔ یہ بات تو بالکل واضح ہے کہ امریکی وزیر خارجہ ریکس ٹلرسن پاکستان کے لیے نئے حکم ناموں کے ساتھ آئے تھے۔ پاکستان کے لیے امریکی حکم نامے کوئی نئی چیز نہیں ہیں۔ پاک امریکہ تعلقات کی لغت میں ’’ڈومور‘‘ ایک اصطلاح بن گئی ہے، یہ اصطلاح بین الاقوامی تعلقات میں صرف پاکستان اور امریکہ کے درمیان تعلقات کے حوالے سے بیان کی جاتی ہے۔ اسی اصطلاح کے حوالے سے گزشتہ دنوں امریکی صدر اور ان کی کابینہ کے ارکان کے بعض منفی بیانات کا جواب دیتے ہوئے عسکری قائد نے کہا تھا کہ اب دنیا کو ڈومور کہنے کا وقت آگیا ہے۔ اسی تناظر میں پاکستان کے حکمرانوں کی جانب سے یہ تاثردیا گیا ہے کہ جیسے اب امریکہ کی مزاحمت کا فیصلہ کرلیا گیا ہے۔ لیکن کیا حقائق اس کی تصدیق کررہے ہیں؟ یہ پاکستان کی سیاست اور موجودہ بحران کے حوالے سے اہم سوال ہے۔ اس اعتبار سے یہ سوال بھی اہمیت رکھتا ہے کہ پاکستان میں حقیقی حکومت کہاں سے کی جاتی ہے؟ پاکستان کا اصل حکمران کون ہے…؟ ظاہر بات ہے کہ ’’نوکری پیشہ‘‘ اور غلامانہ ذہنیت کے حامل اس سوال کا جواب نہیں دے سکتے۔ یہ سوال پاکستان کے داخلی سیاسی بحران کے حوالے سے بھی اہمیت اختیار کرگیا ہے۔ ہمیں اس موقع پر پاکستان کی ڈیڑھ عشرے کی سیاسی تاریخ کو ضرور اپنی نظر میں رکھنا چاہیے۔ مسلم لیگ (ن) کے سابق وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان نے ایک بیان میں کہا ہے کہ حالات اکتوبر 1999ء سے زیادہ سنگین صورت اختیار کرچکے ہیں۔ یعنی پاکستان میں سیاسی اور عسکری قیادت کی کشمکش ایک بار پھر سیاسی انقلاب کے دوراہے پر کھڑی ہے۔ جس وقت برّی فوج کے اُس وقت کے سربراہ جنرل (ر) پرویزمشرف نے میاں نوازشریف کی حکومت کا تختہ الٹا تھا، اُس وقت بھی اُس وقت کے امریکی صدر بل کلنٹن کا خصوصی دورۂ جنوبی ایشیا طے تھا۔ نئے عالمی منظرنامے کے حوالے سے نئی عالمی صف بندیاں ہورہی تھیں۔ عالمی سیاست کا مرکز ایشیا منتقل ہونے جارہا تھا۔ اس منظرنامے کے حوالے سے جنوبی ایشیا کی اہمیت بڑھ گئی تھی۔ امریکہ نے اشارہ دے دیا تھا کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے ارکان کی تعداد میں اضافہ کیا جائے گا اور بھارت کو سلامتی کونسل کا مستقل رکن بنادیا جائے گا۔ اس حوالے سے بل کلنٹن کا جنوبی ایشیا یعنی بھارت، پاکستان اور بنگلہ دیش کا خصوصی دورہ مقرر تھا۔ لیکن پاکستان میں فوجی انقلاب کی وجہ سے بل کلنٹن چند گھنٹوں کے لیے اسلام آباد آئے۔ یہ دورہ امریکہ کی طرف سے اس بات کا اعلان تھا کہ نئے عالمی منظرنامے میں بھارت اس خطے میں امریکہ کا اصل اتحادی ہے۔ کچھ ہی عرصے کے بعد نائن الیون کا پُراسرار واقعہ ہوا جس نے عالمی منظرنامہ تبدیل کردیا۔ اس سانحے کے حوالے سے تمام شواہد موجود ہیں کہ امریکی خفیہ ایجنسیاں نائن الیون کی اصل منصوبہ ساز ہیں اور اُن کا مقصد یہ ہے کہ پوری دنیا کو ایک واحد طاقت کا غلام بنالیا جائے۔ اس منظرنامے میں عالمی نقشے پر 50 سے زائد مسلم ریاستیں اور مسلم عوام ایک بڑی رکاوٹ ہیں۔ اس لیے امریکہ خاص طور پر ہر مسلمان ملک کی داخلی سیاست میں بھی کبھی کھلی اور کبھی پردے کے پیچھے مداخلت کرتا ہے۔ افسوسناک المیہ یہ ہے کہ پاکستان کے حکمرانوں سمیت تمام مسلمان حکمران مسلم ممالک اور امتِ مسلمہ کے خلاف مذموم اور منفی عزائم سے باخبر ہیں، لیکن نہ وہ ان کے بارے میں اپنی قوم کو آگاہ کرتے ہیں اور نہ ہی اس کی مزاحمت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ مسلم ممالک کے داخلی سیاسی معاملات کی سب سے بڑی شہادت 2008ء کے انتخابات سے قبل اور بعد میں پاکستان میں حکومت سازی کے امور میں امریکہ کی کھلی مداخلت ہے۔ آج کل بھی پاکستان کی سیاست میں کسی نئے ’’این آر او‘‘ کی پیش بینی کی جارہی ہے۔ یعنی سیاسی اور عسکری قیادت میں ایک ایسا سمجھوتہ جس کے بعد بدعنوان سیاست دانوں کو احتسابی عمل سے آزادی دلائی جائے۔ یہ بات تو اب راز نہیں رہی کہ جنرل (ر) پرویزمشرف اور بے نظیر بھٹو مرحومہ کے درمیان این آر او کے نام سے ایک معاہدہ ہوا تھا اور اس معاہدے کی ضمانت پاکستانی فوج کی جانب سے امریکہ، برطانیہ اور متحدہ عرب امارات کی حکومتوں نے دی تھی۔ اسی معاہدے کے نتیجے میں دو جِلا وطن سابق وزرائے اعظم میں سے پہلے بے نظیر بھٹو مرحومہ اور بعد میں میاں نوازشریف کی پاکستان واپسی کی راہ ہموار ہوئی۔ لیکن اب بہ وجوہ پاکستان کی داخلی سیاست میں امریکی مداخلت کے آثار بظاہر نظر نہیں آرہے ہیں، لیکن یہ مداخلت کبھی بھی ختم نہیں ہوئی۔ یہ وہ پس منظر ہے جس کا تعلق عالمی منظرنامے سے ہے، جس نے پاکستان کی داخلی سیاست کو بھی خراب کیا ہوا ہے۔ پاکستان کی تمام بیماریوں اور اس کی جڑ سے حکمران واقف ہیں لیکن وہ علاج کے اصل راستے کو اختیار کرنے کے لیے تیار نہیں۔