آرا قارئین

338

جامعہ اور سیاسی جماعت

دنیا کے جمہوری ممالک میں جامعات بنیادی طور سے جمہوری رویّے کے ارتقاء میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ سیاسی جماعتوں کا آپسں میں باہمی تعلق نظر آتا ہے۔ سیاسی جماعت کے نظریات کی مقبولیت یا ناپسندیدگی کے پیمانے میں سازباز رہتی ہے۔ جامعہ ایسا تعلیمی ادارہ ہے جہاں ہر قسم کے نظریات کو جمہوری نظام کے تحت جگہ دی جاتی ہے، جس کے نتیجے میں طالب علموں میں ریاست کے عوام سے تعلق کو بہتر بنانے کے لیے شعور پیدا ہوتا ہے۔ طالب علموں میں برداشت، مخالف نظریات کو غیر جانب داری سے دیکھنے اور اس میں اپنی رائے بنانے کے رویّے کے رجحانات بنتے ہیں۔ جامعات کے مختلف اداروں میں کام کرکے ان میں قائدانہ صلاحیتیں پیدا ہوتی ہیں۔
جمہوری نظام کی بالادستی کے لیے سیاسی جماعتوں کا مضبوط اور پائیدار ہونا لازمی ہے۔ اس کے ساتھ مزید یہ کہ لیڈرشپ، سیاسی سرگرمی اور اہم ترین نقطہ یہ کہ جمہوریت دشمن قوتوں کے خلاف شعور پیدا کرنا اور اس عمل کو مستقل جاری رکھنا، پھر ان پر کام کرتے رہنا ہی بہترین جمہوری نظام کی ساخت کو مضبوط بنانا ہے۔
جامعات کا سیاست میں براہِ راست کردار نہیں بلکہ نوجوانوں کی جمہوری تربیت اہم کردار ہوتا ہے، کیونکہ اس کا تعلق نوجوان نسل سے ہے۔ طالب علموں کے رویّے اور کردار میں جامعات اپنا مثبت کردار ادا کرتی ہیں، جس میں طالبات کی ٹریننگ، معاون سوچ، تحقیقاتی رویّے اور روشن خیالی پیدا کی جاتی ہے، جس سے جمہوریت کو فروغ حاصل ہوتا ہے۔ اس پوری تربیت کے نتیجے میں جب طالب علم عملی زندگی میں آتے ہیں تو ان کے مزاج میں جمہوری رویہ شامل ہوچکا ہوتا ہے۔ وہ اپنی پسند کی سیاسی جماعتوں میں شمولیت اختیار کرتے ہیں اور عوام کی فلاح و بہبود کے لیے جمہوری رویوں کو اپناتے ہوئے عوام کے مسائل حل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ طالب علموں میں سیاسی رویّے کی تربیت کے ساتھ یکساں طور پر خود جامعات کا جمہوری رویہ اختیار کرنا اور اس نظام کے مابین کام کرتے ہوئے اپنی ذمہ داریاں سرانجام دینا لازم ہے۔ مزید یہ کہ طالبات کے لیے ایک ایسا پلیٹ فارم تیار کیا جائے جہاں وہ اپنی رائے کو آزادیٔ خیال کے تحت اعلیٰ حکام تک پہنچا سکیں۔
کچھ عرصے سے طالبات میں سیاسی دلچسپی کم ہوتی نظر آئی ہے۔ طالبات کا خاص رویہ اور سوچ صرف ڈگری اور نوکری یا ملک سے باہر جاکر کسی اچھی نوکری کی تلاش و کشمکش تک محدود نظر آتی ہے۔ اس خاص رویّے میں اب ضرورت اس بات کی ہے کہ مزید تبدیلی لائی جائے جس میں سیاست کی فضا کا رخ طالبات کے کردار سے تبدیل کیا جائے۔
شہر کراچی کی سیاست میں جامعہ کراچی کا ہمیشہ سے ایک اہم اور مرکزی کردار رہا ہے۔ بھٹو دور سے ضیاء الحق دور، بشریٰ زیدی کیس، یا پھر ایچ ای سی کے خلاف پُرجوش مہمات… ان میں جامعہ کراچی کے طالب علموں کا کردار ہمیشہ نمایاں اور جنگجو کی حیثیت سے سرفہرست رہا ہے۔ زنگ آلود سیاست ہو یا پھر رنگارنگ سیاست کے دور سے گزر کر شہر کراچی کی سیاست کے اثرات جامعہ کراچی میں بھی نظر آتے رہے ہیں۔
چند ہفتے پہلے ڈی جی آئی ایس پی آر جنرل آصف غفور کی آمد جامعہ کراچی میں ہوئی۔ انہوں نے طالب علموں سے اپنے خاص مؤقف کے تحت خطاب کیا۔ طالب علموں نے جوش و خروش سے ان کا استقبال کیا۔ اپنے خطاب میں ڈی جی آئی ایس پی آر نے بتایا کہ قدامت پرستی، تشدد پرستی اور دہشت گردی کا آپس میں باریک فرق ہے جس کو پہچاننے کی ضرورت ہے۔ المختصر دیکھا یہ گیا کہ تنقیدی سوالات کے جوابات اطمینان بخش نہیں تھے، جس سے طالب علموں کو مایوسی کا سامنا کرنا پڑا۔ اب پاکستان تحریک انصاف اور انصاف اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے تحت پنڈال سجایا گیا۔ عمران خان کی جلسے میں موجودگی اور طالب علموں سے خطاب نے تمام موجود طالب علموں کا جوش عروج پر پہنچا دیا۔ چیئرمین پاکستان تحریک انصاف عمران خان کا کہنا تھا کہ بڑا آدمی بننے کے لیے بڑا کام کرنا لازمی ہے۔ پاکستان کی ترقی کے لیے مثبت سوچ اور گہری نظر کی ضرورت ہے۔ کراچی کی معیشت پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پانی، بجلی اور حکومتی ادارے جو عوام کی سہولیات کے لیے بنائے گئے ہیں ان میں شدید کرپشن پائی جاتی ہے۔ پاکستان کو اب بدلنا ہوگا اور اس میں طالب علموں کا اہم کردار ہے۔ پاکستان کی تبدیلی کے لیے سیاسی تبدیلی بہت ضروری ہے۔ جلسے میں طالب علموں کی تعداد توقع سے کم نظر آئی، جبکہ انصاف اسٹوڈنٹ فیڈریشن اور اسلامی جمعیت طلبہ کے درمیان کشیدگی پائی گئی جو تصادم کا سبب بنی۔
اب وقت کی ضرورت یہ ہے کہ طلبہ یونین کو مکمل بحال کیا جائے۔ اس سلسلے میں جامعہ کی انتظامیہ، طلبہ اور اساتذہ کے درمیان بحث و مباحثہ سرکاری فورم پر ہونا چاہیے، جس سے جامعہ کراچی کا طالب علم آنے والے وقت میں شہر کراچی کی سیاست میں جمہوری رویہ اختیار کرتے ہوئے مثبت کردار ادا کرسکے۔
فلک ناز… جامعہ کراچی

حصہ