علم و دانش

311

سوال سے علم اور عمل ترقی کرتے ہیں

سلیم احمد
ڈاکٹر علی شریعتی کے حوالے سے سیلم احمد نے ایک جگہ لکھا ہے کہ ’’سوال کرو، کیوں کہ سوال سے اضطراب اور اضطراب سے تجسس پیدا ہوتا ہے، اور تجسس کے بغیر نہ علم ترقی کرسکتا ہے اور نہ عمل۔ وہی قومیں ترقی کرتی ہیں، جو سوال سے گھبراتی نہیں، بلکہ جان بوجھ کر طرح طرح کے سوالات کرتی ہیں۔‘‘ سلیم احمد کا مؤقف یہ تھا کہ ’’فکر کو زندگی کے ساتھ رواں دواں ہونا چاہیے، اور فکر سوالات سے آگے بڑھتی ہے۔ اگر ہم تبدیلی چاہتے ہیں تو ایک دوسرے سے نت نئے سوالات کریں۔ مجھے یقین ہے کہ سوال سے ڈرنے والے خود تبدیل ہوسکتے ہیں اور نہ کوئی تبدیلی لاسکتے ہیں۔‘‘ سلیم احمد نے اپنی تحریروں میں ہی سوال نہیں اٹھائے، بلکہ انہوں نے اپنی تصانیف کے نام بھی ایسے رکھے جو اپنے بطون میں محذوف سوال لیے ہوئے ہیں۔ مثلاً ’نئی نظم اور پورا آدمی‘، ’غالب کون‘، ’نئی شاعری نامقبول شاعری‘، ’محمد حسن عسکری: آدمی یا انسان‘، ’ادھوری جدیدیت‘، ’اقبال ایک شاعر‘، ’اسلامی نظام مسائل اور تجزیے‘ وغیرہ وغیرہ۔ شاہ نواز فاروقی نے لکھا ہے کہ ’’سلیم احمد کے سوالاتی مزاج سے پیدا ہونے والی ان کی منطقی اپروچ اس حوالے سے دوسرے لوگوں سے مختلف ہے کہ وہ کسی خیال یا موضوع کو بہ یک وقت نفسیات، ادب، فلسفہ، مذہب اور ان سب سے بڑھ کر ذاتی تجربے کی عینک سے دیکھ رہے ہوتے ہیں۔ ان کی تحریروں میں زندگی کے براہِ راست تجربے کی شمولیت کے باعث وہ لوگ بھی جو سلیم احمد سے متفق نہیں ہوتے اُن سے محبت ضرور کرتے ہیں۔ کم از کم وہ لوگ جن کے اندر زندگی پائی جاتی ہے۔‘‘
(خواجہ رضی حیدر کی کتاب ’’سلیم احمد: مشاہدے، مطالعے اور تاثرات کی روشنی میں‘‘ سے انتخاب)

باہم جنس پرواز

ایک دن حکیم جالینوس گھبرایا ہوا اپنے شاگردوں کے پاس آیا اور کہنے لگا ’’فوراً میرے لیے فلاں دوا ڈھونڈ کر لائو۔ شدید ضرورت ہے۔‘‘
شاگردوں نے حیرت سے استاد کی طرف دیکھا اورکہنے لگے’’آخر آپ کو اس دوا کی کیا ضرورت پیش آگئی؟ وہ تو سنتے ہیں پاگلوں اور فاترالعقل لوگوں کو دی جاتی ہے۔‘‘
حکیم جالینوس نے جواب دیا ’’بحث مباحثے میں وقت ضائع نہ کرو، جلد وہ دوا لائو۔ بات یہ ہے کہ ابھی ابھی ایک پاگل میری طرف متوجہ ہوا تھا۔ تھوڑی دیر تک وہ مجھے پلک جھپکائے بغیر گھورتا رہا، پھر بدمعاشوں کی طرح آنکھ ماری، اس کے بعد بڑھ کر میرے کرتے کی آستین تار تار کردی۔ میں نے اس معاملے پر غور کیا تو معلوم ہوا کہ شاید وہ مجھے اپنا ہم جنس جان کر ہی ملتفت ہوا تھا، ورنہ میری طرف کیوں متوجہ ہوتا! خوب اچھی طرح سمجھ لو کہ جب دو آدمی آپس میں ملیں تو ان دونوں میں کوئی نہ کوئی صفت ضرور مشترک ہوگی۔ کُند ہم جنس باہم جنس پرواز کا قول درست ہے۔ کوئی پرندہ دوسرے غیر پرندوں کے غول کے ساتھ کبھی اڑتا ہوا نہیں دیکھا گیا۔ ایک مرتبہ کسی نے مجھ سے بیان کیا کہ میں نے ایک صحرا میں کوّے اور کُلنگ کو بڑی محبت اور شوق سے پاس پاس یوں بیٹھے دیکھا جیسے وہ ایک ہی جنس سے تعلق رکھتے ہوں۔ لیکن ان میں اس اعتبار سے بُعدالمشرقین تھا۔ بہت دماغ لڑایا، مگر کچھ معلوم نہ ہوا کہ ان میں وجۂ اشتراک کیا ہے۔ اس عالم حیرت میں آہستہ آہستہ جب ان کے قریب پہنچا تو کیا دیکھتا ہوں کہ وہ دونوں لنگڑے ہیں۔‘‘

(حکایت رومی)

جانور بھیڑیا اور…انسان
عربی مضمون۔ ترجمہ: نویدالحسن
* بھیڑیا واحد درندہ ہے جو اتنی طاقت رکھتا ہے کہ کسی جانور کا تعاقب کرکے پھرتی سے چھلانگ لگائے اور اسے مار ڈالے۔
* بھیڑیا کبھی مُردار نہیں کھاتا، اور یہ جنگل کے بادشاہ کا طریقہ ہے۔ اور نہ ہی بھیڑیا محرم مؤنث پر جھانکتا ہے، یعنی باقی جانوروں سے بالکل مختلف ہے کہ
* اپنی ماں اور بہن کو شہوت کی نگاہ سے دیکھتا تک نہیں۔
* بھیڑیا اپنی شریکِ حیات کا اتنا وفادار ہوتا ہے کہ اس کے سوا کسی اور مؤنث سے تعلق قائم نہیں کرتا۔ اسی طرح مؤنث بھی بھیڑیئے کے ساتھ وفاداری کرتی ہے۔
* بھیڑیا اپنی اولاد کو پہچانتا ہے کیونکہ ان کی ماں اور باپ ایک ہی ہوتے ہیں۔
* جوڑے میں سے اگر کوئی مرجائے تو دوسرا مرنے والی جگہ پر کم از کم تین ماہ کھڑا افسوس کرتا ہے۔
* بھیڑیئے کو عربی میں ابن البار کہا جاتا ہے، یعنی نیک بیٹا، کہ والدین جب بوڑھے ہوجاتے ہیں تو ان کے لیے شکار کرتا ہے اور ان کا پورا خیال رکھتا ہے۔
* بھیڑیئے کی بہترین صفات میں بہادری، وفاداری، خودداری، اور والدین سے حُسنِ سلوک مشہور ہیں۔
نیچے تصویر پر ذرا غور کریں
1- سب سے آگے تین چلنے والے بوڑھے اور بیمار بھیڑیئے ہیں۔
2- دوسرے پانچ منتخب طاقتور جو بوڑھے، بیمار بھیڑیوں کے ساتھ تعاون (فرسٹ ایڈ) کرنے والے ہیں۔
3- ان کے پیچھے طاقتور، دشمن کے حملے کا دفاع کرنے والے چاق و چوبند بھیڑیئے ہیں۔
4- درمیان میں باقی عام بھیڑیئے ہیں۔
5- سب سے آخر میں بھیڑیوں کا مستعد قائد ہے جو سب کی نگرانی کررہا ہے کہ کوئی اپنی ڈیوٹی سے غافل تو نہیں، اور ہر طرف سے دشمن کا خیال رکھتا ہے۔ اس کو عربی میں ’الف‘ کہتے ہیں کہ اکیلا ہزار کے برابر۔
ایک سبق جو ہمارے لیے باعثِ عبرت ہے
کہ بھیڑیئے بھی اپنا بہترین خیرخواہ قائد منتخب کرتے ہیں۔
فسبحان اللہ العظیم

کیا خیالی پلاؤ پکانا صحت کے لیے مفید ہے؟

ایک تازہ ترین تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ دماغ کا وہ حصہ جو ہمیں جاگتے میں خواب دکھاتا ہے، وہی حصہ بغیر سوچے سمجھے خودکار طریقے سے کام کرنے میں بھی مدد دیتا ہے۔
دماغ کے چند مخصوص حصے جنھیں ڈیفالٹ موڈ نیٹ ورک (ڈی ایم این) کہا جاتا ہے، اُس وقت فعال ہوجاتے ہیں جب ہم جاگتے میں خواب دیکھتے ہیں یا حال کے بجائے ماضی یا مستقبل کے بارے میں سوچتے ہیں۔برطانیہ کی کیمبرج یونیورسٹی کے تحقیق کاروں نے معلوم کیا کہ یہی حصہ ہمیں بغیر سوچے سمجھے کیے جانے والے کام کرنے میں بھی مدد دیتا ہے، مثال کے طور پر کسی جانی پہچانی سڑک پر گاڑی چلانا۔
توقع ہے کہ اس تحقیق سے دماغی امراض کا شکار افراد کا علاج تلاش کیا جا سکے گا۔ تحقیق کے مرکزی مصنف ڈینز واٹنسیور کہتے ہیں کہ ڈی ایم این ہمیں اس بات کا پہلے سے اندازہ لگانے میں مدد دیتا ہے کہ آگے کیا ہوگا، جس سے ہمیں مسلسل سوچتے رہنے کی ضرورت نہیں پڑتی۔ یہ کسی خودکار نظام یا آٹو پائلٹ کی طرح ہے، جو اپنے اردگرد کے ماحول کے بارے میں اچھی طرح جانتا ہے، تاکہ ہم تیزی سے فیصلے کرسکیں۔
’’مثال کے طور پر جب آپ صبح کسی جانی پہچانی سڑک پر گاڑی چلاتے ہوئے دفتر کی طرف روانہ ہوتے ہیں تو ڈی ایم این فعال ہوجاتا ہے، تاکہ ہمیں ڈرائیونگ کے دوران ہر فیصلہ کرتے ہوئے بہت سا وقت اور توانائی صرف نہ کرنی پڑے‘‘۔ ڈاکٹر واٹنسیور کہتے ہیں کہ جب ہم کسی انجانے ماحول میں داخل ہوتے ہیں تو ہمارا دماغ ’مینوئل‘ موڈ میں آ جاتا ہے، اور خودکار نظام یعنی ڈی ایم این بند ہوجاتا ہے۔
اگر دماغ لگاتار کسی چیز پر توجہ دیتا رہے تو وہ جلد ہی تھکاوٹ کا شکار ہوکر کام کرنے کے قابل نہیں رہے گا۔ جاگتے میں خواب دیکھنے یا خیالی پلاؤ پکانے سے دماغ کو کچھ دیر آرام کا موقع مل جاتا ہے تاکہ اگلی بار جب ضرورت پڑے تو دماغ فوراً حرکت میں آسکے۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے آپ کسی لمبی دوڑ میں حصہ لیتے ہیں تو راستے میں چند منٹ کے لیے بیٹھ کر آرام کرنے سے توانائیاں بحال ہوجاتی ہیں۔
سائنس دانوں کو توقع ہے کہ ان کی تحقیق سے ایسے دماغی امراض کا علاج کرنے میں مدد ملے گی جن میں ذہن لگاتار سوچتا چلا جاتا ہے۔ ایسے امراض میں او سی ڈی (بار بار ایک ہی کام دہرائے چلے جانا) اور ڈپریشن شامل ہیں، جن میں مریض مسلسل ایک ہی قسم کی منفی سوچیں سوچتا رہتا ہے۔

خبردار! بال رنگنے والی خواتین کو کینسر کا زیادہ خطرہ ہوتا ہے

خوبصورت اور پُرکشش نظر آنے کے لیے بالوں کو رنگنے والی خواتین ہوشیار ہوجائیں کیونکہ خضاب کا استعمال چھاتی کے سرطان (بریسٹ کینسر) کا سبب بن سکتا ہے۔
پرنسز گریس اسپتال لندن کے بریسٹ سرجن پروفیسر کیفہ موکبل کے مطابق تحقیق کے دوران یہ بات سامنے آئی ہے کہ جو خواتین سال میں 6 بار سے زائد بالوں کو رنگتی ہیں اُن میں سینے کے سرطان کا خدشہ بڑھ جاتا ہے۔ ایسی خواتین جو پابندی سے ہیئر ڈائی کرتی ہیں ان میں بریسٹ کینسر کے خطرات میں 14 فیصد اضافہ ہوجاتا ہے۔ اس کے برعکس جو خواتین بالوں کو رنگنے کے لیے مہندی اور قدرتی اجزاء سے تیارکردہ رنگوں کا استعمال کرتی ہیں وہ اس جان لیوا مرض سے مکمل محفوظ رہتی ہیں اور بالوں کی صحت پر کوئی منفی اثرات بھی نہیں پڑتے۔
سرجن پروفیسر نے بالوں کو رنگنے کے لیے قدرتی نسخوں کو ترجیح دینے کی تجویز پیش کرتے ہوئے کہا کہ کیمیکلز سے تیار کردہ ہیئرکلرز کا استعمال کم سے کم کریں۔ سال میں صرف 2 سے 6 بار ہیئر ڈائی کرنے سے کینسر کے امکانات کو کم کیا جاسکتا ہے۔ پروفیسر کیفہ کا کہنا ہے کہ ہیئر ڈائی اور بریسٹ کینسر کا آپس میں تعلق ہے جس پر مزید تحقیق کی ضرورت ہے تاکہ ہیئر ڈائی سے ہونے والے نقصانات واضح ہوسکیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ بالوں کو رنگنے کے لیے مہندی، ہربل اور قدرتی اجزا کا استعمال مفید ہے اور ان کے کوئی نقصانات بھی نہیں۔

آپ بولیں!کمپیوٹر خود اردو لکھے گا

ایک وقت تھا جب لکھنے سے ہاتھ تھک جایا کرتے تھے اور اب مسلسل کی بورڈ پر کام کرنے سے تکلیف ہونے لگتی ہے۔ ان لوگوں کا الگ مسئلہ جو دیکھ نہیں سکتے تو لکھیں کیسے!
انگریزی میں تو ’اسپیکنگ نیچرلی‘ جیسے سافٹ ویئر ایک عرصے سے دستیاب تھے، لیکن اردو میں ایسی کوئی سہولت موجود نہیں تھی۔
اب ایسا لگتا ہے کہ یہ مسئلہ کسی حد تک حل ہونے کے قریب ہے۔ اب کم از کم دو سافٹ ویئر ایسے موجود ہیں جن کے سامنے آپ بولتے جائیے، وہ آپ کی آواز کو اردو تحریر میں منتقل کرتے جائیں گے۔
ان میں سے ایک تو ویب سائٹ ہے:
https://urduasr.com/dictation
اس کی تیاری کے لیے تین دوستوں سید علی صائم، ڈاکٹر علی طاہر اور شکیب احمد نے مل کر اس منصوبے پر کام کیا ہے۔
اس سہولت کی تیاری میں مرکزی کردار ادا کرنے والے ماہر سید علی صائم کہتے ہیں: ’’اس ویب سائٹ کو بنانے کا مقصد یہ تھا کہ وقت بچایا جا سکے، یعنی اگر ایک منٹ میں 50 الفاظ ٹائپ کیے جا سکتے ہیں تو اُنھیں بول کر مزید آسانی پیدا کی جا سکتی ہے کیونکہ ایک منٹ میں 150 کے قریب الفاظ بولے جاسکتے ہیں۔‘‘
سید علی صائم کہتے ہیں کہ ’’ہماری کوشش ہے کہ اس ویب سائٹ کو کمرشل اور مفت، دونوں طرح کے استعمال کے لیے پیش کیا جائے تاکہ وہ لوگ بھی اسے استعمال کرسکیں جو اس کی قیمت ادا نہیں کرسکتے۔‘‘
اس ویب سائٹ کے محقق ڈاکٹر علی طاہر ہیں جو جرمنی میں اسی طرح کے منصوبوں پر کام کرچکے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’’وطن واپس آ کر املا کی اس ویب پر کام کرنے کا مقصد یہ تھا کہ اس سے اُن لوگوں کی مدد کی جا سکے کہ جو یا تو پڑھنا لکھنا نہیں جانتے یا کسی اور وجہ سے لکھ نہیں پاتے۔‘‘

حصہ