امریکی مفادات کا پھانسی گھاٹ اور پاک امریکہ تعلقات

348

امریکہ کے سابق وزیر خارجہ ہنری کسنجر کا مشہورِ زمانہ قول ہے کہ ’’امریکہ کی دشمنی خطرناک اور دوستی جان لیوا ہے۔‘‘ ہنری کسنجر سے زیادہ شاید ہی امریکہ کو جاننے والا کوئی ہو۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو ہنری کسنجر نے ایک فقرے میں امریکہ کی روح کو بیان کردیا ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ ہنری کسنجر کے اس فقرے کا مفہوم کیا ہے؟
دوستی قربت کا دوسرا نام ہے۔ قربت میں اعتبار ہوتا ہے، اعتماد ہوتا ہے، انحصار ہوتا ہے۔ بسا اوقات یہ اعتبار، اعتماد اور انحصار اتنا بڑھ جاتا ہے کہ فرد کیا، گروہ اور قومیں تک اپنی قوت پر زندہ رہنا چھوڑ دیتی ہیں اور طاقت ور دوست کی قوت کو اپنے لیے کافی سمجھنے لگتی ہیں۔ لیکن اخلاقیات سے بے نیاز طاقت ایک اندھی قوت ہے۔ اندھی قوت صرف خود کو اور اپنے مفادات کو دیکھتی ہے۔ یہ قوت بے رحم ہوتی ہے۔ جس طرح سانپ اپنے بچوں کو کھا جاتا ہے اسی طرح یہ قوت اپنے دوستوں کو ہڑپ کر جاتی ہے۔ اس کے برعکس دشمنی ایک طرح کی مزاحمت ہوتی ہے۔ مزاحمت انسان، گروہوں اور قوموں کو اپنی قوت پر انحصار کرنا سکھاتی ہے۔ مزاحمت ایک نفسیاتی اور ذہنی فاصلے کا دوسرا نام ہے۔ یہ فاصلہ دشمن کو ویسا ہی دکھاتا ہے جیسا کہ وہ ہوتا ہے۔ طاقت ور کی مزاحمت آسان نہیں، لیکن اس مزاحمت میں نقصان کم ہوتا ہے اور بچ جانے کا امکان زیادہ ہوتا ہے۔ ایران کے رضا شاہ پہلوی ایشیا میں امریکہ کے سب سے بڑے ایجنٹ سمجھے جاتے تھے مگر امریکہ کی دوستی اُن کو کھا گئی۔ جنرل ایوب سے لے کر جنرل پرویزمشرف تک پاکستان کے کئی حکمرانوں نے امریکہ کی چاکری کی، مگر ان کی چاکری ملک و قوم کی آزادی، خودمختاری اور وقار کو کھا گئی، بلکہ یہ چاکری خود ان حکمرانوں کے بھی کام نہ آسکی۔ امریکہ نہ جنرل ایوب کو بچا سکا نہ جنرل پرویز کی ڈھال بن سکا۔
مصر کے صدر حسنی مبارک مشرق وسطیٰ بالخصوص مصر میں امریکہ کا ایک اہم مہرہ تھے مگر وہ ڈوبے تو ڈوبتے ہی چلے گئے۔ اس کے برعکس ویت نامیوں نے امریکہ کی مزاحمت کی اور کامیاب ہوئے۔ ایرانیوں نے امریکہ کی مزاحمت کی اور اپنی آزادی و خودمختاری کا دفاع کیا۔ کیوبا امریکہ کے پڑوس میں تھا مگر فیڈل کاسترو کی مزاحمت نے کیوبا کو زندہ اور توانا رکھا اور امریکہ کاسترو پر دس بارہ حملے کراکے بھی اُن کا کچھ نہ بگاڑ سکا۔ طالبان کی بے مثال مزاحمت بھی ہمارے سامنے ہے۔ امریکہ وقت کی سب سے بڑی طاقت تھا اور اسے 40 سے زیادہ اتحادیوں کی حمایت بھی حاصل تھی، مگر وہ 16 برس میں بھی طالبان کو ختم نہ کرسکا اور آدھا افغانستان آج بھی طالبان کے کنٹرول میں ہے۔ ان حقائق کو سامنے رکھتے ہوئے آیئے ایک بار پھر ہنری کسنجر کے فقرے کو دہراتے ہیں۔ ہنری کسنجر نے کہا ہے ’’امریکہ کی دشمنی خطرناک ہے مگر اس کی دوستی جان لیوا ہے۔‘‘
بدقسمتی سے پاکستان کے فوجی اور سول حکمرانوں نے کبھی ہنری کسنجر کی بات پر غور کی زحمت نہیں کی، یہی وجہ ہے کہ پاکستان گزشتہ 60 سال سے امریکی مفادات کے پھانسی گھاٹ پر کھڑا ہے۔ امریکہ جب چاہتا ہے ہمیں اپنے مفادات کی سولی پر لٹکا دیتا ہے۔ امریکہ ہمیں نہ مرنے دیتا ہے نہ جینے دیتا ہے۔ ہم امریکی مفادات کی سولی پہ لٹکے لٹکے ایک لاش میں تبدیل ہونے کے قریب ہوتے ہیں تو امریکہ ہمیں سولی سے اتار دیتا ہے۔ سولی سے اتر کر ہماری سانسیں بحال ہوتی ہیں اور ہم میں کچھ توانائی آجاتی ہے تو وہ ایک بار پھر ہمارے گلے میں اپنے مفادات کا پھندا ڈال دیتا ہے۔ اس صورتِ حال کو ہمارے فوجی اور سول حکمران ’’پاک امریکہ تعلقات‘‘ کا نام دیتے ہیں، جبکہ امریکہ اسے ’’پاک امریکہ اتحاد‘‘ قرار دیتا ہے۔ اس سلسلے میں ’’نان ناٹو اتحادی‘‘ کی بھاری بھرکم اصطلاح بھی استعمال ہوئی ہے۔ لیکن غلام نہ آقا کے ’’دوست‘‘ ہوتے ہیں، نہ ان کے آقا کے ساتھ ’’تعلقات‘‘ ہوتے ہیں، اور نہ ہی وہ کسی بھی حال میں آقا کے ’’اتحادی‘‘ ہوتے ہیں۔ غلام صرف غلام ہوتے ہیں، انہیں آقا کبھی گدھوں کی طرح بار برداری کے لیے استعمال کرتا ہے اور کبھی کرائے کے فوجی کے طور پر استعمال کرتا ہے۔ آقا جب چاہتا ہے انہیں ’’محنتانہ‘‘ دیتا ہے اور جب اس کا دل نہیں چاہتا وہ انہیں دھتکار دیتا ہے اور کہتا ہے کہ تمہیں پیاز کے ساتھ سو جوتے کھانے ہوں گے۔ Do More کی اصطلاح دراصل دھمکی بھی ہے، مطالبہ بھی… کوڑا بھی ہے اور غلاموں کو غلامی کا احساس دلانے کا طریقہ بھی۔
ہماری حالیہ تاریخ میں ڈان لیکس کی اہمیت یہ تھی کہ ان کے ذریعے قوم کو معلوم ہوا کہ خارجہ پالیسی پر فوجی اور سیاسی اسٹیبلشمنٹ کے درمیان گہرا اختلاف ہے۔ فوجی اسٹیبلشمنٹ اس سلسلے میں امریکہ کی مزاحمت کررہی ہے اور سیاسی اسٹیبلشمنٹ کہہ رہی ہے کہ ہمیں دنیا کو مطمئن کرنے کے لیے اپنا گھر صاف کرنا ہوگا۔ اس ضمن میں میاں نوازشریف نے اپنے ’’دو بکروں‘‘ یعنی پرویز رشید اور طارق فاطمی کی ’’قربانی‘‘ بھی دی۔ یہاں تک کہ 6 ستمبر 2017ء کا دن آگیا، اس روز جنرل قمر جاوید باجوہ نے جی ایچ کیو میں تقریب سے خطاب کیا اور کہا کہ دنیا ہم سے بہت Do More کہہ چکی، اب ہم دنیا سے Do More کہیں گے۔ اگرچہ جنرل باجوہ نے امریکہ کا نام نہیں لیا مگر ہمارے حکمرانوں کے لیے ’’دنیا‘‘ کا مطلب امریکہ ہی ہے۔ چنانچہ اس تقریر کی بڑی پذیرائی ہوئی اور خیال ظاہر کیا گیا کہ اب ہم نے امریکہ کی غلامی سے آزاد ہونے کے عمل کی ابتدا کردی ہے۔ لیکن جنرل باجوہ جب سے دورۂ افغانستان سے واپس آئے ہیں ایسا محسوس ہورہا ہے کہ ہم ایک بار پھر ماضی کی طرح امریکی مفادات کے پھانسی گھاٹ کی طرف ’’پاکستان زندہ باد‘‘ اور ’’سب سے پہلے پاکستان‘‘ کہتے ہوئے دوڑ رہے ہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ اس موقع پر عسکری اور سول قیادت میں کوئی اختلاف نہیں، اور ایسا محسوس ہورہا ہے کہ فوجی اسٹیبلشمنٹ نے ’’ڈان لیکس‘‘ کو سینے سے لگا لیا ہے۔ یعنی اس نے سول قیادت کے مطالبے کے مطابق گھر کی صفائی کا فیصلہ کرلیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیسے؟ مگر اس سوال کے جواب سے پہلے امریکہ کے وزیر خارجہ ریکس ٹلرسن کے دورۂ پاکستان پر گفتگو ناگزیر ہے۔
اس دورے کے کئی اہم پہلو ہیں۔ ایک اہم پہلو یہ ہے کہ عسکری قیادت اور سول قیادت نے امریکہ کے وزیر خارجہ سے علیحدہ علیحدہ ملاقاتیں کرنے کے بجائے مشترکہ طور پر ملاقات کی اور جو کہا ہم آواز ہوکر کہا۔ امریکہ کے وزیر خارجہ کے دورے کا دوسرا اہم پہلو یہ ہے کہ ریکس ٹلرسن نے پاکستان آمد سے قبل افغانستان کا دورہ کیا اور اس موقع پر انہوں نے وہ رویہ اختیار کیا جسے سینیٹ کے چیئرمین رضا ربانی نے بجا طور پر ’’وائسرائے‘‘ کا رویہ قرار دیا ہے۔ ریکس ٹلرسن پاکستان پہنچے تو انہوں نے پاکستان سے صاف کہا کہ وہ اپنے یہاں موجودہ دہشت گردوں کے خلاف ’’مزید اقدامات‘‘ کرے اور افغانستان میں ’’باہمی اتفاق‘‘ پیدا کرنے کے لیے اپنا کردار ادا کرے۔ امریکہ کے وزیر خارجہ نے کہا کہ خطے کے سلسلے میں صدر ٹرمپ کی پالیسی کے حوالے سے پاکستان امریکہ کے لیے اہم ہے۔ ریکس ٹلرسن پاکستان کے بعد بھارت پہنچے تو انہوں نے صاف کہا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکہ بھارت کے ساتھ کاندھے سے کاندھا ملائے کھڑا ہے۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ خطے میں بھارت کے ’’قائدانہ کردار‘‘ کی حمایت کرتا ہے اور اسے جدید ترین دفاعی ٹیکنالوجی فراہم کرنے کے لیے تیار ہے۔ اگرچہ وزیر خارجہ خواجہ آصف نے ریکس ٹلرسن کے دورے کے بعد تاثر دیا ہے کہ ہم نے امریکہ کے آگے ہتھیار نہیں ڈالے، اور اُن کے بقول انہیں اقتدار امریکہ نے نہیں دیا، لیکن روزنامہ ڈان کراچی کی خبر کے مطابق ریکس ٹلرسن سے ملاقات کے دوران وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ پاکستان دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکہ کے ساتھ ہے اور وہ مستقبل میں بھی اس حوالے سے امریکہ کے ساتھ تعاون کا خواہش مند ہے۔ سوال یہ ہے کہ اس ضمن میں خواجہ آصف درست بات بتا رہے ہیں یا اصل قصہ وہ ہے جو وزیراعظم سے منسوب گفتگو میں موجود ہے؟ اس سوال کے جواب کی ایک جھلک 26 اکتوبر 2017ء کو روزنامہ جنگ میں شائع ہونے والے حامد میر کے کالم میں موجود ہے۔ حامد میر نے کالم میں لکھا ہے:
’’یہ ایک بڑی پیش رفت ہے۔ اس پیش رفت پر پاکستان میں خاموشی ہے لیکن افغانستان میں شور اٹھ رہا ہے۔ جب امریکی وزیر خارجہ ریکس ٹلرسن اسلام آباد میں پاکستان کی سیاسی و فوجی قیادت پر یہ زور دے رہے تھے کہ افغانستان میں بدامنی پھیلانے والوں کے پاکستان میں ٹھکانے ختم کیے جائیں تو افغانستان کی پارلیمنٹ میں یہ شور مچایا جارہا تھا کہ پاک افغان بارڈر پر باڑ کیوں لگائی جا رہی ہے؟ افغان پارلیمنٹ کے رکن شیر محمد اخونزادہ نے الزام لگایا کہ افغان حکومت نے ڈیورنڈ لائن کے معاملے پر پاکستان کے ساتھ ایک خفیہ سمجھوتہ کرلیا ہے۔ ڈیورنڈ لائن پر باڑ لگائی جا رہی ہے اور صدر اشرف غنی خاموش ہیں۔ رحمت اللہ اچکزئی، محمد عالم ازدیار اور فضل ہادی مسلم یار نے بھی جنوبی ہلمند سے تعلق رکھنے والے شیر محمد اخونزادہ کی حمایت کی۔ یہ عجیب بات ہے کہ ایک طرف افغانستان کی اشرافیہ پاکستان پر الزام لگاتی ہے کہ اُن کے ملک میں بدامنی پاکستان سے کرائی جاتی ہے، اور جب پاکستان اس الزام کا مداوا کرنے کے لیے بارڈر کو محفوظ بنا کر غیر قانونی آمد و رفت کو روکنے کی کوشش کرتا ہے تو شور مچایا جاتا ہے۔ 1947ء کے بعد سے پاکستان ڈیورنڈ لائن کو ایک باقاعدہ بارڈر بنانا چاہتا ہے لیکن کوئی افغان حکومت راضی نہیں ہوتی۔ 1976ء میں سردار دائود اور ذوالفقار علی بھٹو ڈیورنڈ لائن کو مستقل بارڈر بنانے پر راضی ہوگئے تھے۔ سردار دائود نے پاکستان میں نیپ کے گرفتار رہنمائوں کی رہائی کا مطالبہ کیا اور بدلے میں ڈیورنڈ لائن کو مستقل بارڈر تسلیم کرنے پرآمادگی ظاہر کی تھی، لیکن اُس وقت جنرل ضیاء الحق نے کچھ تحفظات ظاہر کیے تھے۔ بہرحال قیام پاکستان کے 70 سال بعد ڈھائی ہزار کلومیٹر لمبے پاک افغان بارڈر پر باڑ لگانے کا کام تیزی سے جاری ہے۔ امریکی وزیر خارجہ ریکس ٹلرسن کے پاکستان آنے سے پہلے کراچی میں ایک اہم واقعہ ہوا۔ کراچی میں افغان طالبان کے کچھ اہم رہنمائوں کو اکٹھا کیا گیا اور بتایا گیا کہ انہیں پاکستان کے راستے سے افغانستان میں مداخلت کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ اس ملاقات کا اہتمام جن پاکستانی علماء کے ذریعے ہوا انہوں نے افغان طالبان کو یہ بھی بتایا کہ آپ کا ایران کے ساتھ خفیہ تعاون کسی سے ڈھکا چھپا نہیں لیکن پوری دنیا پاکستان پر الزامات لگاتی ہے۔ دنیا کہتی ہے کہ افغان طالبان کی کوئٹہ شوریٰ افغانستان میں حملوں کی منصوبہ بندی کرتی ہے، حالانکہ آپ کی اصل شوریٰ تو ہلمند میں بیٹھی ہوئی ہے جسے افغان ایران بارڈر کی طرف سے امداد مل رہی ہے۔ پاکستان میں موجود افغان طالبان رہنمائوں سے کہا گیا کہ وہ یہاں سے اپنے خاندانوں کو لے جائیں یا قانون کے مطابق مہاجر بن کر پُرامن زندگی گزاریں۔ ہوسکتا ہے کہ آپ کو میری باتوں پر یقین نہ آئے لیکن پاکستان کی سیکورٹی اسٹیبلشمنٹ اور سیاسی قیادت نے باہمی مشورے سے کچھ اہم فیصلے کیے ہیں جن پر عملدرآمد شروع ہوچکا ہے۔ اس نئی حکمت عملی کا اصل مقصد مغربی سرحد کو محفوظ بنانا اور پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے خلاف سازشوں کا مقابلہ کرنا ہے، کیونکہ پاکستان کی سرزمین سے کسی دوسرے ملک میں مداخلت کرنے والے دراصل دوسرے ممالک کو پاکستان میں مداخلت کا جواز مہیا کرتے ہیں۔ ‘‘
حامد میر کے کالم کے ان مندرجات کو دیکھا جائے تو یہ حقیقت عیاں ہوکر سامنے آجاتی ہے کہ نائن الیون کے بعد کی فضا سے قدرے مختلف ’’ماحول‘‘ میں ہم نے ایک بار پھر امریکی مفادات کا پھندا اپنے گلے میں ڈال لیا ہے… لیکن اس بات کا مفہوم کیا ہے؟
پاکستانی قوم کو اچھی طرح یاد ہے کہ جنرل پرویزمشرف نے ایک ٹیلی فون کال پر پورا پاکستان امریکہ کے حوالے کرنے کے بعد کہا تھا کہ انہوں نے کشمیر کاز اور پاکستان کے ایٹمی اثاثوں کی حفاظت کو یقینی بنایا ہے۔ انہوں نے قوم کو بتایا تھا کہ امریکہ جلد ہی کشمیر کے مسئلے کے حل کے سلسلے میں اپنا ’’کردار‘‘ ادا کرے گا۔ لیکن بدقسمتی سے کشمیر کے سلسلے میں امریکہ کے کردار کے بجائے اُس کی ’’بدکرداری‘‘ ہی سامنے آئی۔ یعنی اس نے کشمیر کے مسئلے کے حل کے سلسلے میں کچھ بھی نہ کیا بلکہ وہ بھارت کا ایسا اتحادی بن کر سامنے آیا جس کی امریکہ بھارت تعلقات کی تاریخ میں کوئی مثال موجود نہ تھی۔ جہاں تک پاکستان کے ایٹمی ہتھیاروں کا تعلق ہے تو نائن الیون کے چند سال بعد ہی امریکہ نے ہمارے ایٹمی پروگرام اور ایٹمی ہتھیاروں کے حوالے میں پاکستان پر دبائو بڑھا دیا۔ امریکہ کو پاکستان کے چھوٹے چھوٹے ایٹم بموں پر خصوصی تشویش ہے، کیونکہ یہ ایٹم بم بھارت کے ناپاک جارحانہ عزائم کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہیں۔ جس طرح جنرل پرویزمشرف نے امریکہ کے آگے ہتھیار ڈالتے ہوئے ’’سب سے پہلے پاکستان‘‘ کا نعرہ لگایا اور ’’دو اہداف‘‘ کے تحفظ کی بات کی، اسی طرح حامد میر کا کالم بھی نعرے کے بغیر چیخ چیخ کر کہہ رہا ہے ’’سب سے پہلے پاکستان‘‘۔ اس کے ساتھ ساتھ اس کالم میں بھی وطنِ عزیز کے ’’دو اہم قومی مفادات‘‘ کے تحفظ کو یقینی بنانے کی بات کی گئی ہے۔ اتفاق سے ان میں سے ایک قومی مفاد ایک بار پھر پاکستان کی ایٹمی صلاحیت ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ جنرل پرویز اگر پاکستان کا جغرافیہ، پاکستان کی روح، پاکستان کی آزادی، پاکستان کی خودمختاری اور پاکستان کا وقار فروخت کرکے بھی نہ مسئلہ کشمیر حل کرا پائے، نہ ایٹمی صلاحیت کا ’’دفاع‘‘ کر پائے تو جنرل باجوہ اور شاہد خاقان عباسی صرف ’’گھر کو صاف‘‘ کرکے مغربی سرحد اور پاکستان کے ایٹمی اثاثوںکا کس طرح تحفظ کر پائیں گے؟ آخر ہمیں ایک بار پھر امریکی مفادات کی سولی پر لٹک کر وہ قوت کیسے حاصل ہوجائے گی جو امریکہ، بھارت اور ان کے کٹھ پتلی افغانستان کی سازشوں کے مقابلے کے لیے کافی ہو؟
امریکہ کی تاریخ ہے کہ وہ اپنے ناپاک مقاصد کے لیے واقعات کا انتظار نہیں کرتا، انہیں ’’تخلیق‘‘ کرتا ہے۔ اس نے جاپان پر حملے کے لیے ’’پرل ہاربر‘‘ ایجاد کیا، افغانستان کے خلاف جارحیت کے لیے ’’نائن الیون‘‘ تخلیق کیا، عراق کی اینٹ سے اینٹ بجانے اور ’’نیا مشرق وسطیٰ‘‘ تخلیق کرنے کے لیے بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے وہ ہتھیار ’’گھڑے‘‘ جو عراق میں تھے ہی نہیں۔ سوال یہ ہے کہ اگر ہم امریکہ کے حکم کے مطابق گھر کی ’’صفائی‘‘ کرتے ہیں مگر امریکہ یا بھارت کوئی واقعہ، حادثہ، سانحہ ایجاد کرلیتے ہیں تو ہم کیا کریں گے؟ کیا پھر ہم امریکہ کو ’’خوش‘‘ اور ’’مطمئن‘‘ کرنے کے لیے پاکستان کے ’’اسلامی آئین‘‘ کو ’’صاف‘‘ کریں گے؟ اور قوم سے کہیں گے کہ بھئی پاکستان کی ایٹمی صلاحیت، پاکستان کے ایٹمی اثاثوں اور پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے دفاع کی یہی صورت ہے؟ آخر ہماری ایٹمی صلاحیت ہماری ’’طاقت‘‘ ہے یا ’’معذوری‘‘؟ پاکستان کی فوجی اور سول اسٹیبلشمنٹ کے پاس اس سوال کا کوئی جواب ہے تو قوم کو مہیا کیا جائے۔
یہ حقیقت راز نہیں کہ بھارت امریکہ کا ’’دائمی اتحادی‘‘ بن چکا ہے اور امریکہ بھارت کو خطے میں بالادست دیکھنا چاہتا ہے۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو امریکہ افغانستان میں طویل قیام کرتا نظر آتا ہے، اور پاکستان پر منڈلانے والے خطرات بھی ’’عارضی‘‘ نہیں ہیں بلکہ ’’دائمی‘‘ ہیں۔ اس لیے ان حالات میں ’’پسپائی‘‘ کوئی حکمت عملی نہیں اور امریکہ کے Do More سے Oh Sure کہہ کر نہیں نمٹا جاسکتا۔ آزادی، عزت، وقار، یہاں تک کہ قومی سلامتی بھی ’’بھیک‘‘ میں نہیں ملتی، بلکہ اس کے لیے بہادری دکھانی پڑتی ہے اور قربانی دینی پڑتی ہے۔ مگر پاکستان کے حکمران مرے بغیر منصبِ شہادت کے طلب گار ہیں۔ وہ امریکہ سے کہہ رہے ہیں کہ ہمیں امداد نہیں دیتے نہ دو، ہمیں ہتھیار نہیںدیتے نہ دو، مگر ہماری عزت کرو۔ مگر پوری انسانی تاریخ میںکبھی بزدلوں، چیلنجوں سے بھاگنے والوں، ہتھیار ڈالنے والوں اور غلاموں کو عزت نہیں ملی۔ عجیب بات یہ ہے کہ ہمارے حکمران امریکہ سے تو اپنے لیے عزت کے طلب گار ہیں مگر انہیں کبھی یہ خیال نہیں آتا کہ امریکہ کے آگے ہتھیار ڈال کر، بھارت کی بالادستی تسلیم کرکے ہمیں ہمارا خدا، ہمارا مذہب، ہماری تہذیب، ہماری تاریخ اور ہماری قوم بھی عزت دے گی یا نہیں؟

حصہ