’’اسلامی پاکستان، خوش حال پاکستان‘‘ ایک نعرہ نہیں تھا بلکہ اس کی تعبیر پانے کی تیاریاں مکمل کی جارہی ہیں، اور ہدف یہ طے کیا گیا ہے کہ اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد کی صلاحیتوں اور خدمات سے بھرپور استفادہ کیا جائے۔ بلاشبہ ایسے تعلیم یافتہ افراد معاشرے میں سیاسی نعرے بازی کرنے والے افراد کی طرح مقبول نہیں ہوتے لیکن اُن کی علمی قابلیت ایسے افراد سے کہیں زیادہ ہوتی ہے۔ سیاسی ہلہ گلہ کا حامی نظام انہیںخاموش رہنے پر مجبور کرتا ہے۔ لیکن اب انہیں تلاش کیا جارہا ہے اور ان کی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھانے کا فیصلہ ہوا ہے، اسی لیے اسلام آباد میں پی ایچ ڈی ڈگری کے حامل افراد کا کنونشن العلم سوسائٹی کے زیراہتمام ہوا۔ اس کنونشن کے لیے جماعت اسلامی کی پالیسی اور اسے عملی جامہ پہنانے کے لیے جماعت اسلامی کے شعبہ پلاننگ اینڈ ڈیولپمنٹ کے صدر راشد نسیم اور اس شعبے میں اُن کے سیکرٹری اظہر اقبال حسن کی کاوشیں قابلِ قدر ہیں۔ اس کنونشن کی تمام کارروائی میں جماعت اسلامی پاکستان کے امیر سینیٹر سراج الحق شریک رہے۔ انہوں نے ملک بھر سے آئے ہوئے پی ایچ ڈیز کا خیرمقدم کیا۔ معیشت، سماجیات، توانائی، زراعت، سیاسیات، عوامی امور، انتظامی امور، آئین و قوانین اور دیگر شعبوں کے ماہرین نے کنونشن میں شرکت کی۔ مختلف شعبوں کے سابق وفاقی وصوبائی سطح کے سیکرٹریز بھی کنونشن میں شریک ہوئے اور صاف شفاف نظام کے لیے اپنے تجربات کی روشنی میں تجاویز پیش کیں۔ اس کنونشن میں آزادکشمیر، گلگت بلتستان اور فاٹا سے 244 پی ایچ ڈیز نے شرکت کی۔ یہ افراد ملک کے مختلف شعبوں میں اپنی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ ان پی ایچ ڈیز میں 10خواتین بھی شامل ہیں۔ اگلا کنونشن کراچی میں ہوگا اور 25 سالہ ریاستی ایجنڈا تشکیل دینے کے لیے تمام شراکت داروں اور چیدہ چیدہ رہنمائوں کو اعتماد میں لے کر اس کا اعلان کیا جائے گا۔ عوامی حقوق کے تحفظ اور انہیں بنیادی سہولیات کی فراہمی کے لیے نجی شعبوں میں جاری مختلف منصوبوں کی افادیت سے بھی شرکائے کنونشن کو آگاہ کیا گیا۔ ان میں صحت، تعلیم، زراعت، آسان قرضوں کی فراہمی، ہنر سکھانے، خواتین و یوتھ کے معاشی تحفظ کے منصوبے بھی شامل ہیں، جبکہ آئین کے مطابق قوم کی تربیت سے متعلق بھی ریاستی ذمہ داریوں کو اجاگر کیا گیا۔ پی ایچ ڈیز کنونشن میں جماعت اسلامی پاکستان کے امیر سینیٹر سراج الحق مہمانِ خصوصی تھے، جب کہ کنونشن میں پی ایچ ڈیز کے مختلف گروپ بنائے گئے۔ ان گروپس میں تعلیم، زراعت، توانائی، میڈیا اور انفارمیشن ٹیکنالوجی، معیشت اور دیگر اہم موضوعات پر سیر حاصل گروپ ڈسکشن ہوئی، اور سفارشات اور تجاویز زیر بحث آئیں۔ اس کنونشن کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ ملک میں اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد کی صلاحیتوں اور ان کی تحقیق سے اس ملک اور معاشرے کو کیسے فائدہ پہنچایا جاسکتا ہے، یہ تعلیم یافتہ افراد ملکی ترقی میں کس طرح اور کیسے اپنا بھرپور اور مؤثر کردار ادا کرسکتے ہیں، اور ان کے لیے مناسب ترین پلیٹ فارم کیا ہو جہاں ان کی صلاحیتوں سے بھرپور فائدہ اٹھایا جاسکے۔ جماعت اسلامی تعلیم یافتہ افراد کے مؤثر کردار کے ذریعے اس ملک اور معاشرے کو درپیش مسائل کا حقیقی حل تلاش کرنا چاہتی ہے اسی لیے پی ایچ ڈیز ڈگری ہولڈر شخصیات کا کنونشن بلایا گیا ہے۔ اسی طرح کا دوسرا کنونشن نومبر میں کراچی میں بھی ہوگا۔ اس کونشن کے لیے راشد نسیم اور اظہر اقبال حسن بہت متحرک رہے، دونوں ہی جماعت اسلامی کے اس شعبے سے وابستہ ہیں جو ملک میں تعلیم یافتہ افراد کی تلاش اور منصوبہ بندی کا ذمہ دار ہے۔ پلاننگ اینڈ ڈویلمنٹ کا شعبہ اس سلسلے میں بہت کام کرچکا ہے۔ راشد نسیم اس شعبے کے صدر اور اظہر اقبال حسن اس شعبے میں ان کے سیکرٹری کی حیثیت سے فرائض انجام دے رہے ہیں۔ ملک بھر میں کم و بیش آٹھ سو پی ایچ ڈیز تک ان کی براہ راست رسائی ہوچکی ہے اور اتنی ہی تعداد میں اس سطح کے تعلیم یافتہ افراد ان کے رابطے میں ہیں، اور وہ بھی بہت جلد اس قافلے میں شامل ہوجائیں گے۔ اس کنونشن میں امیر العظیم اور جمماعت اسلامی کے نائب امیر میاں اسلم کے علاوہ حافظ محمد ادریس، شمس الرحمن سواتی، عارف حسین شیرازی، زبیر فاروق خان، سینیٹر پروفیسر ابراہیم اور دیگر شریک ہوئے۔ ڈاکٹر فرید پراچہ، حمیرا طارق، ڈاکٹر ثاقب ریاض، ڈاکٹر مسعود شاکر، ڈاکٹر عتیق الظفر کی سربراہی میں گروپس تشکیل دیے گئے جن میں ملک کے مختلف شعبہ جات کے بارے میں ان کے مسائل کے حل کے لیے سیر حاصل گفتگو ہوئی۔ بہت قیمتی تجاویز سامنے آئی ہیں اور سفارشات بھی۔ ان سب کو یکجا کیا جائے گا اور بہترین ریسرچ پیپر تیار کیے جائیں گے۔ ان کی مدد سے بھی پاکستان میں معیشت، زراعت، میڈیا، تعلیم، توانائی، خواتین، بچوں، میڈیکل اور دیگر شعبہ جات میں ترقی کے لیے کام شروع کیا جائے گا۔ اسلام آباد میں ہونے والا یہ پہلا کنونشن تھا جو بہت کامیاب رہا اور توقع سے بڑھ کر مثبت ردعمل ملا ہے۔ اس کنونشن کے دو سیشن ہوئے، پہلا سیشن ڈاکٹر فخرالاسلام اور دوسرا سیشن ڈاکٹر اشتیاق گوندل کی صدارت میں ہوا۔ افتتاحی کلمات جماعت اسلامی پاکستان کے امیر سینیٹر سراج الحق نے ادا کیے۔ انہوں نے تعلیم یافتہ افراد کی سفارشات اور رہنمائی میں معاشرے میں ترقی اور خوشحالی کے لیے ان کے کلیدی کردار کو اہم قرار دیا۔ یہ کنونشن بنیادی طور پر ایک لحاظ سے ملک کے انتہائی تعلیم یافتہ افراد کو معاشرے کی ترقی میں حصہ دار بنانے کے لیے ایک لانچنگ پیڈ تھا۔ کنونشن سے عالمی شہرت یافتہ ملک کے ممتاز ماہر تعلیم، مفکر پروفیسر ڈاکٹر انیس احمد، سابق سیکرٹری خزانہ ڈاکٹر وقار مسعود، ڈاکٹر فرید پراچہ اور دیگر نے بھی خطاب کیا، تاہم کلیدی خطاب جماعت اسلامی پاکستان کے امیر سینیٹر سراج الحق کا تھا۔ ان کے خطاب کے بنیادی نکات یہ تھے کہ جماعت اسلامی تعلیم یافتہ افراد کے مؤثر کردار کے ذریعے اس ملک اور معاشرے کو درپیش مسائل کا حقیقی حل تلاش کرنا چاہتی ہے اسی لیے پی ایچ ڈی ڈگری ہولڈر شخصیات کا کنونشن بلایا گیا ہے۔ سراج الحق نے کہا کہ دنیا میں اس وقت ہر شعبے میں ترقی ہوئی ہے اور بڑھوتری آئی ہے لیکن اس ترقی نے انسانوں سے ان کا سکون چھین لیا ہے، پریشانیاں بڑھ رہی ہیں، ایک دوسرے کے ساتھ سماجی تعلق میں کمی آتی جارہی ہے، میڈیا نے بہت ترقی کی ہے اور لوگوں تک معلومات کی رسائی آسان اور تیز بنا دی ہے لیکن انسان اس قدر ترقی کے باوجود بھی ایک دوسرے سے دور ہوتے چلے جارہے ہیں، اور یہی وجہ ہے کہ معاشروں میں بے سکونی بڑھ رہی ہے، بے چینی میں اضافہ ہوتا چلا جارہا ہے۔ ہمیں اپنی آئندہ نسلوں کو خوش حال پاکستان لے کر دینا ہے۔ ملک میں سب سے زیادہ غریب کسان ہیں، وہ اپنے کھیت کی پیداوار کے مناسب معاوضے سے محروم ہیں۔ سیاسی جماعتیں ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف سے نجات حاصل کرلیں۔ پاکستان میں معدنیات کے خزانے ہیں اور سب سے زیادہ غربت بھی یہیں ہے۔ بدانتظامی کی وجہ سے اچھی طرزِ حکمرانی کو یقینی نہیں بنایا جاسکتا۔ 25 سالہ عوامی ایجنڈے کی تشکیل کے لیے یہ کنونشن ہوا، اس قومی ایجنڈے پر تمام شراکت داروں سے مشاورت کی جائے گی۔ اس ایجنڈے کا بنیادی مقصد قرضوں سے نجات اور عزت ووقار کے ساتھ زندگی گزارنے کو یقینی بنانا ہے۔ اس کنونشن میں تعلیم، صحت، انسانی وسائل کی ترقی، معیشت، توانائی، سماجی سائنسز اور دیگر شعبوں کے ماہرین شریک ہیں۔ پاکستان میں باصلاحیت افراد کی کمی نہیں ہے مگر آج تک ان کے لیے طویل المیعاد منصوبہ نہیں بن سکا۔ پاکستان نوجوانوں کا ملک ہے، ڈگری ہولڈر مایوس اور پریشان ہیں۔ اس ایجنڈے کے ذریعے ہم تمام شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد کو زندگی گزارنے کے قابل بنا سکیں گے۔ اسلامی فلاحی پاکستان کا ہدف حاصل کرسکیں گے۔ قرضہ لینے نہیں بلکہ قرضہ دینے والے ملک بن جائیں گے اور کوئی ہمیں امریکی وزیر یا وائسرائے کی طرح ڈکٹیٹ نہیں کرسکے گا۔ انہوںنے کہا کہ ان ماہرین کے پاس ویژن بھی ہے، مسائل کا حل بھی تجویز کیا گیا ہے، اگر اس ایجنڈے پر عملدرآمد ہوجاتا ہے تو غربت اور مہنگائی میں کمی آسکتی ہے، بے روزگاری سے نجات مل سکتی ہے، لوگ فٹ پاتھ پر نہیں سوئیں گے، کوئی میلوں میں اپنے بچوں کو فروخت کرنے کے لیے نہیں آئے گا، بلکہ پاکستان میں باہر سے لوگ آکر کمائیں گے۔ آج ہر جھونپڑی، ہر گھر میں بھوک کا راج ہے، ہر کوئی مستقبل کے حوالے سے پریشان ہے۔ کسانوں اور محنت کشوں کو ان کی محنت کے معاوضے نہیں مل رہے۔ ہمارا ویلفیئر پاکستان کا ایجنڈا ہے۔ تمام شراکت داروں اور دیگر رہنمائوں سے مشاورت کریں گے تاکہ اسے ریاستی ایجنڈے میں تبدیل کرسکیں، اور اس ایجنڈے کو نصاب میں شامل کرنے کی سفارش کی جائے گی۔ یہ ماہرین ہیرے، موتی، لعل وجواہر ہیں مگر ہم نے ان موتیوں کی قدر نہیں کی۔ ملک میں 27 نظامِ تعلیم کام کررہے ہیں، اس ایجنڈے کے نتیجے میں ایک نظام تعلیم ہوگا۔
اس کنونشن میں پروفیسر ڈاکٹر انیس احمد نے اپنے خطاب میں کہا کہ اس وقت عالمی سطح پر انتہائی تعلیم یافتہ افراد کا کردار بڑھ رہا ہے اور اسے تسلیم بھی کیا جارہا ہے، بلکہ دنیا کا رخ محقق ہی موڑ رہے ہیں۔ یہ کہنا کسی بھی طرح غلط نہیں ہوگا کہ تحقیقی عمل (ریسرچ ورک) کی بڑی قدر اور مسلمہ طور تسلیم شدہ اہمیت ہے، ہمیں اس بات کا بھی جائزہ لینا ہوگا کہ اسلامی معاشرے میں تبدیلی کے لیے تعلیم یافتہ افراد کی تحقیقات اور ریسرچ ورک سے فائدہ کیوں نہیں اٹھایا جارہا اور ان کی تحقیق اور ریسرچ کے اثرات کیا ہیں، اگر اثرات ہیں تو کیوں ہیں اور اگر اثرات نہیں پڑ رہے تو کیوں نہیں پڑ رہے، ان تمام باتوں کا جائزہ لینا ضروری ہے۔ سابق سیکرٹری خزانہ ڈاکٹر وقار مسعود نے بھی اپنے خطاب میں اہم بات کی، انہوں نے کہا کہ دنیا میں سچے لوگوں کا ساتھ دینا چاہیے۔
ان مقررین کے خطابات کے بعد کنونشن میں باقاعدہ گروپس بنائے گئے اور ان گروپس میں مختلف موضوعات پر سفارشات اور تجاویز دی گئیں اور انہیں باقاعدہ نوٹ کیا گیا۔ دوسرے سیشن میں خواتین کے گروپ میں معاشرے میں خواتین کے کردار، چیلنجز اور مسائل پر تفصیل کے ساتھ گفتگو ہوئی۔ ڈاکٹر حمیرا طارق اس گروپ کی سربراہ تھیں۔ اسی طرح زراعت کے لیے گروپ بنایا گیا اور زرعی ماہر ڈاکٹر مسعود شاکر اس گروپ کے سربراہ بنائے گئے۔ اس گروپ میں پاکستان میں شعبہ زراعت کے لیے مسائل، پانی کی قلت، آب وہوا میں تبدیلیوں، موسمیاتی تبدیلیوں پر تفصیل سے گفتگو ہوئی، تجاویز دی گئیں اور سفارشات بھی مرتب کی گئیں۔ ڈاکٹر ثاقب ریاض قاضی کی سربراہی میں ایک گروپ بنایا گیا۔ اس گروپ میں میڈیا اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کے موضوع اور مسائل پر غور ہوا اور گروپ کی جانب سے قیمتی تجاویز دی گئیں۔ اسی طرح ڈاکٹر عتیق الظفر کی سربراہی میں ایک گروپ بنایا گیا جس میں معیشت کی زبوں حالی پر مکمل دلائل کے ساتھ پُرمغز گفتگو ہوئی اور یہ بھی زیر بحث رہا کہ گورنمنٹ اور نجی اداروں میں کارکنوں کی تنخواہوں میں فرق کیوں ہے، اور نجی اداروں میں کام کرنے والے کارکنوں کی تنخواہوں اور مراعات میں فرق کیوں ہے۔ اس گروپ میں ملک میں نافذ ٹیکسوں کے نظام پر سیر حاصل گفتگو ہوئی اور ٹیکس خسارے کے علاوہ بجٹ خسارے کی وجوہات پر بھی بات ہوئی، تجاویز دی گئیں اور سفارشات بھی مرتب کی گئیں۔